پٹرول کی قیمت 12 روپے 3 پیسے فی لیٹر بڑھا دی گئی ہے۔ یکم فروری کو سرکار نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری مسترد کر دی تھی۔ خاکسار نے اپنے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ یہ ریلیف عارضی ہے اور 15 فروری کو قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا جائے گا۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ مجھے غیب کا علم ہے یا میرے پاس اندر کی خبر ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ سرکار معاشی طور پر اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے اس کے پاس وسائل ہی نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کے قیمتیں بڑھتی ہیں تو سرکار اس پر سبسڈی نہیں دے پاتی۔ اس سچ کو عوام جتنا جلدی تسلیم کر لیں‘ اتنا ہی بہتر ہے۔خدشہ ہے کہ مستقبل میں حالات مزید خراب ہوں گے۔روس اور یو کرائن کے مابین کشیدگی نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ممکنہ جنگ کی خبروں سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 95 ڈالر فی بیرل ہو چکی ہے۔ اگر حالات اسی طرح کشیدہ رہے تو یہ قیمت 100 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر سکتی ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں پٹرول تقریباً 250 روپے فی لیٹر تک مہنگا ہو سکتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ یوکرائن اور روس کی جنگ کا عالمی‘ خصوصاً پاکستانی معیشت پر اتنا اثر کیوں ہے؟ روس کے پڑوس میں واقع یوکرائن مشرقی یورپ کا ایک اہم ملک ہے ‘ پاکستان اپنی ضرورت کے لیے جو گندم درآمد کرتا ہے‘ اس کا 39 فیصد یوکرائن سے آتا ہے، لہٰذا جنگ کی صورت میں پاکستان میں مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے۔ پہلے ہی یہاں مہنگائی کی شرح 13 فیصد ہو چکی ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان کو گندم کیوں درآمد کرنا پڑتی ہے‘ یہ ایک تکلیف دہ موضوع ہے‘ جس پر کئی مرتبہ حقائق عوام کے سامنے رکھے گئے اور سرکار کو ذمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش کی گئی لیکن سب بے سود! خیر یہ میرا آج کا مدعا نہیں۔ اب اصل معاملے کی طرف واپس آتے ہیں۔
پاکستان نے 1991میں یوکرائن کی آزاد حیثیت کو تسلیم کیا تھا۔ 1992ء میں دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔2018ء سے تعلقات کنونشنل ڈپلومیسی سے پبلک ڈپلومیسی میں تبدیل ہو رہے ہیں۔تعلیم، ثقافت، انجینئرنگ، ایئروسپیس، بائیومیڈیکل سائنسز اورخوراک سمیت کئی شعبوں میں تعاون ہو رہا ہے لیکن پاکستان اور یوکرائن کے مابین تعلقات دفاعی شعبے میں بھی خاصی اہمیت رکھتے ہیںاور ان کا اثر پاکستانی معیشت پر کافی گہرا ہے۔ پاکستان کو الخالد ایم بی 2000 سیریز ٹینکس کے انجن یوکرائن نے فراہم کیے تھے۔ 2014ء میں بھی یوکرائن کے حالات جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے اور پاکستان اپنے دفاعی معاہدوں کولے کر پریشان تھا۔ اس وقت کے وزیر دفاع رانا تنویر حسین نے یوکرائن کے سفیر ولادیمیر راکومو سے معاہدے ختم کرنے کی درخواست کی تھی مگر محترم سفیر نے یقین دہانی کرائی کہ جنگی حالات میں بھی معاہدوں پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق یوکرائن نے مطلوبہ آرڈر وقت پر مکمل کر دیے تھے۔ اس کے علاوہ 2009ء میں T-80UD ٹینکس بھی یوکرائن سے لیے گئے تھے۔ اِس وقت یوکرائن کے ساتھ پاکستان کن دفاعی معاملات پر کام کر رہا ہے‘ اس بارے میں متعلقہ وزارت معلومات فراہم کرنے سے گریزاں ہے لیکن ذرائع کے مطابق‘ پاکستان نے فروری 2021ء میں یوکرائن کے ساتھ 85 ملین ڈالرز کے دفاعی معاہدے کیے ہیں جن کے تحت T-80UDٹینکس کی مرمت اور انہیں جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کا کام کیا جائے گا۔ ان کے علاوہ 6TD1 اور 6TD2 انجنوں کی فراہمی کے معاہدے بھی کیے گئے ہیں۔ دفاع کے علاوہ پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کے سیمی کنڈکٹرز کا بڑا انحصار بھی یوکرائن پر ہے۔ پاکستان کے علاوہ امریکا بھی سیمی کنڈکٹرز کے حوالے سے یوکرائن پر ہی انحصار کرتا ہے۔ جنگ کی صورت میں سیمی کنڈکٹرز کی قیمت 600 گنا تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔ امریکا کے نیون گریڈ سیمی کنڈکٹرز کی سپلائی کا 90 فیصد انحصار یوکرائن پر ہے۔ نیون وہ خام مال ہے جو اس لیزر کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے جو سیمی کنڈکٹرز بنانے کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان نہ تو سیمی کنڈکٹرز بناتا ہے اور نہ ہی نیون کی درآمد کرتا ہے لیکن پاکستان میں فروخت ہونے والی تقریباً تمام کمپنیوں کی گاڑیوں میں سیمی کنڈکٹرز استعمال ہوتے ہیں‘ لہٰذا جنگ کی صورت میں پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
امریکا بھی کئی دفاعی معاملات میں یوکرائن پر انحصار کرتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ یوکرائن اور روس کے مابین کشیدگی امریکا اورروس کے مابین کشیدگی کا باعث بن رہی ہے اور ہم شاید اس معاملے سے اپنے کچھ معاملات بہتر بنانے میں مصروف ہیں۔ ماضی کا ریکارڈ دیکھا جائے تو ایسی صورتحال میں ہمیں دونوں اطراف سے مالی فائدے کی ترغیب دی گئی۔ ان حالات میں وزیراعظم عمران خان نے 24 فروری کو دورۂ روس کا اعلان کیا ہے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق یہ دورہ پاکستان کی درخواست پر ہو رہا ہے‘ جس میں چین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس نازک موقع پر روس جانے کا کیا مقصد ہے؟ ذرائع کے مطابق‘ پاکستان روس سے 1بلین ڈالرز قرض لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ قبل ازیں چین سے بھی 4 ارب ڈالرز کے قرضوں میں توسیع لی گئی اور تجارتی معاہدے بھی کیے گئے۔ یہاں واضح رہے کہ پاکستان معاشی طور پر امریکا اور اس کے اتحادیوں پر زیادہ انحصار کر رہا ہے۔ پاکستان کے بیرونی قرضوں کا 70 فیصد حصہ ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایم ایف پر مشتمل ہے۔ یورپ اور امریکا پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات کی سب سے بڑی مارکیٹ ہیں۔ فروری کے آخر میں ایف اے ٹی ایف کا اجلاس بھی ہو رہا ہے جس میں پاکستان کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو ہر قدم انتہائی احتیاط سے اٹھانا ہو گا۔
دوسری طرف عالمی معیشت کو متوازن رکھنے میں روس کا کلیدی کردار ہے۔ دنیا میں تیل کی قیمتوں کا تعین روس کی مداخلت کے بغیر ناممکن ہے۔ اس کے پاس 107 بلین بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ یورپ کی گیس سپلائی کا بڑا انحصار روس پر ہی ہے۔ امریکا نے یورپی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ گیس کے حصول کے لیے دیگر ممالک سے رابطہ کریں لیکن تمام آپشنز استعمال کرنے کے بعد بھی سستی اور کارآمد گیس کے حوالے سے روس کا متبادل تلاش نہیں کیا جا سکا۔ چین کے بعد امریکی درآمدات کا بڑا انحصار اس وقت یورپ پر ہے۔ یورپ میں گیس کی قلت صنعتوں کی بندش کا باعث بن سکتی ہے جس کا اثر لامحالہ یورپ کے ساتھ امریکی مارکیٹ پر بھی پڑے گا۔ امریکا میں پہلے ہی مہنگائی چالیس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ ان حالات میں روس کے ساتھ جنگ امریکی معیشت پر خطرناک اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
فی الحال خبر یہ ہے کہ روس نے کچھ فوجی دستے یوکرائن کی سرحد سے واپس بلا لیے ہیں لیکن امریکی ایجنسیوں کے مطابق اب بھی سرحد پر اتنی روسی فوج موجود ہے کہ وہ بہ آسانی یوکرائن پر حملہ کر سکتی ہے۔مستقبل میں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں‘ اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن اگر حالات خراب ہوئے تو یقینا پاکستان پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ روپے کی قدر مزید گر سکتی ہے۔ ابھی تو آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی نئی قسط ملنے سے ڈالر پہلے کی سطح پر واپس آ گیا ہے لیکن ڈالر کے ذخائر میں مزید کمی ہو سکتی ہے ،آئرن‘ سٹیل کی قیمتیں بھی بڑھ سکتی ہیں جبکہ ایل این جی اور پٹرول کی قیمتوں میں بھی خاصا اضافہ ہو سکتا ہے جس کا براہ راست اثر کرنٹ اکائونٹ پر پڑے گا۔