تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     18-02-2022

سرخیاں، متن اور ضمیر طالب

حکومت نے عوام کو کند چھری سے ذبح کیا: حمزہ شہباز
حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''حکومت نے عوام کو کُند چھری سے ذبح کیا‘‘ جبکہ ہم یہ کام چھریوں کو خاص طور پر تیز کروا کر ہی کرتے تھے اور عوام کو پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ اُن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے جبکہ اُس زمانے میں چاقو چھریاں تیز کرنے والے جا بجا نظر آتے تھے جو اب مکمل طور پر مفقود ہو چکے ہیں کیونکہ سارا کام کُند چھریوں ہی کے ذریعے کیا جا رہا ہے؛ اگرچہ نتیجہ دونوں کا ایک ہی جیسا نکلتا ہے کیونکہ کام دونوں کا ذبح کرنا ہی ہوتا ہے البتہ تیز چھری سے ذبح ہونے والا اپنے انجام کو نسبتاً جلد پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح ہم نے اپنے عوام کی سہولت کا ہر طرح سے خیال رکھا اور اسی لیے وہ اب تک ہمارے ساتھ ہیں۔ قائدِ حزب اختلاف پنجاب اسمبلی اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
قیمت بڑھ گئی تو کیا ہوا‘ پٹرول کم استعمال کریں: شبلی فراز
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''قیمت بڑھ گئی ہے تو کیا ہوا‘ پٹرول کم استعمال کریں‘‘ اسی طرح کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہیں تو وہ بھی کم استعمال کریں اور کھانا بھوک رکھ کر کھائیں، اس طرح موٹاپے سے بچاؤ رہتا ہے اور صحت بھی ٹھیک رہتی ہے جبکہ عوام کو اپنی صحت کا خاص خیال رکھنا چاہیے کیونکہ زندہ قومیں اپنی صحت ہی کی وجہ سے زندہ رہتی ہیں، نیز گوشت کھانے سے مکمل پرہیز کریں کیونکہ یہ بھی مختلف بیماریاں پیدا کرنیکا باعث بنتا ہے جبکہ چینی تو انسان کے لئے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہے اور ذیابیطس سمیت مختلف مہلک بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ چینی ہی کا استعمال ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر گفتگو کر رہے تھے۔
نااہل ٹولے کو گھر بھیج کر رہیں گے: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''نااہل ٹولے کو گھر بھیج کر رہیںگے‘‘ ،ہمارا ارادہ تو ایسا نہیں تھا لیکن عوامی دباؤ کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں، اگرچہ دل سے ہم اب بھی ایسا نہیں چاہتے کیونکہ اس طرح صرف مسلم لیگ نواز والوں کا مقصد ہی سیدھا ہوگا اور ہمارا مقصد اسی طرح ٹیڑھے کا ٹیڑھا ہی رہ جائے گا‘ اسی لیے تحریک عدم اعتماد میں بھی یہ گنجائش رکھ لی گئی ہے کہ اس روز ہمارے کون کون سے ارکانِ اسمبلی کو کیا کیا کام پڑ سکتا ہے یعنی کسی کی تعزیت یا کسی کی عیادت کے لیے جانا پڑ سکتا ہے کیونکہ عدم اعتماد کی تحریکیں تو آتی جاتی رہتی ہیں‘ انسانی زندگی اور بیماری کے معاملات تو کسی کے اختیار میں نہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کوئی پاگل ہی حکومت کو چھوڑ کر
اپوزیشن میں جائے گا: فواد چودھری
وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''کوئی پاگل ہی عمران کو چھوڑ کر اپوزیشن میں جائے گا‘‘ کیونکہ جن جن پر ہمیں شبہ ہے، ہم انہیں دماغی امراض کے ڈاکٹر کے پاس بھجوانے کا بندوبست بھی کر رہے ہیں تاکہ ان کا مناسب علاج ہو سکے؛ اگرچہ جو اس وقت ساتھ موجود ہیں‘ ہم انہیں زیادہ بیوقوف سمجھتے ہیں لیکن ملک میں اتنے ڈاکٹر موجود نہیں ہے کہ سب کا بوجھ اٹھا سکیں، اس لیے ان کے لیے جھاڑ پھونک سے کام لیا جائے گا؛ اگرچہ ان کی حالت خاصی تشویش انگیز ہے اور ان کا ڈاکٹروں پر حق زیادہ بنتا ہے لیکن کیا کیا جائے‘ مجبوری ہے چنانچہ ان کے لیے خصوصی دُعا کا بھی اہتمام کیا جائے گا کیونکہ دُعا بذاتِ خود ردِ بلا ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
حکومت جتنی بھی ریاستی طاقت استعمال
کر لے‘ خود کو بچا نہیں سکتی: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''حکومت جتنی بھی ریاستی طاقت استعمال کر لے، خود کو بچا نہیں سکتی‘‘ جبکہ خود کو بچانے کا واحد ذریعہ یہاں سے فرار ہے جو بجائے خود اس قدر مشکل کام ہے کہ سوچنے سے ہی آدمی کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں جبکہ واپس لائے جانے کا خطرہ بھی ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا ہے، اس لئے وزیراعظم اگر خود کو کچھ دیر کے لیے واقعی بچانا چاہتے ہیں تو یہی راستہ اختیار کریں‘ پیشتر اس کے کہ بہت دیر ہو جائے یعنی جب چڑیا کھیت چُگ جائیں تو پچھتائے سے فائدہ ؎
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں ضمیر طالب کی غزل:
خواب میں تو سنبھل گیا تھا میں
جاگا تو پورا جل گیا تھا میں
ہاتھوں ہاتھوں میں گفتگو اپنی
باتوں باتوں بہل گیا تھا میں
بھیڑ سے کوئی اور نکلا تھا
جانے کس سے بدل گیا تھا میں
کھوٹا سکہ تھا دہر میں لیکن
دل کے بازار چل گیا تھا میں
عمر بیتی وہاں سے آنے میں
جہاں بس ایک پل گیا تھا میں
منجمد کر گئی تھی ایک نظر
اِک نظر سے پگھل گیا تھا میں
اس لیے رہ رہا تھا اس کے گھر
اُس کے دل سے نکل گیا تھا میں
وہاں کوئی سخن شناس نہ تھا
جس گلی میں غزل گیا تھا میں
لوگ کیچڑ اُچھالتے تھے وہاں
اس لیے تو کنول گیا تھا میں
ٹالنے میں اُسے مہارت ہے
جبکہ اِس بار اٹل گیا تھا میں
وہ خیالات میں بسا ہوا شخص
اور وہاں پر عمل گیا تھا میں
وہاں پھسلن تو کوئی تھی ہی نہیں
غلطی سے پھسل گیا تھا میں
ہونٹ تھے اس کے برفی کی ڈلیاں
بچوں جیسا مچل گیا تھا میں
جانے کب اُس سے لڑتے لڑتے ضمیرؔ
اُس کے سانچے میں ڈھل گیا تھا میں
آج کا مقطع
راہ میں راکھ ہو گئیں دھوپ کی پتیاں ظفرؔ
آنکھ بکھر بکھر گئی اپنی ہی آب و تاب سے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved