تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     20-02-2022

کراچی لہو لہو

روشنیوں کا شہر کراچی ایک بار پھر جرائم کی تاریکی میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ شہر میں لوٹ مار کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔ جرائم پیشہ افراد بے خوف دندناتے پھر رہے ہیں۔ دن دیہاڑے شہریوں سے جمع پونجی لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ اگر کوئی بے چارہ ذرہ بھر مزاحمت کرے تو جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ جمعہ کی صبح بھی ایک ایسا ہی افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں سینئر صحافی اطہر متین سفاک لٹیروں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ یہ اندوہناک سانحہ نارتھ ناظم آباد کی مرکزی شاہراہ پر فائیو سٹار چورنگی پر ہوا۔ اس واقعہ کی جو فوٹیج سامنے آئی اس میں بیچ سڑک پر موٹر سائیکل سوار لٹیروں کو اسلحے کے زور پر لوٹ مار کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لوٹ مار کے دوران مخالف سمت سے آنے والی ایک گاڑی ان کے موٹر سائیکل سے ٹکراتی ہے۔ ٹکر کے نتیجے میں ملزم سڑک پر گر جاتے ہیں اور گاڑی تیزی سے آگے گزر جاتی ہے۔ چند لمحوں کے بعد جب ملزم دوبارہ کھڑے ہوتے ہیں اور موٹر سائیکل سیدھی کر رہے ہوتے ہیں تو ایک اور گاڑی ان سے آ کر ٹکراتی ہے۔ ملزم گرتے ہیں پھر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایک ملزم گاڑی پر فائرنگ کر دیتا ہے۔ گاڑی میں اطہر متین سوار تھا جو بچوں کو سکول چھوڑ کر واپس آرہا تھا۔ اسے تین گولیاں لگیں اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ اس کے ساتھ ہی نہ جانے کتنے خوابوں اور امیدوں نے بھی دم توڑ دیا ہو گا۔ جن بچوں کو وہ سکول چھوڑ کر آرہا تھا ان کے سر سے باپ کی شفقت کا سایہ چھن گیا، ایک سہاگن بیوہ ہوگئی، ایک ماں نے اپنا بیٹا کھودیا، بھائی سے بھائی کا ساتھ چھن گیا اور نہ جانے کتنے ہی لوگ ایک بہترین دوست سے محروم ہوگئے۔ اس واقعہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ صحافی اطہر متین پر حملے کے وقت علاقے میں بجلی کی بندش کی بنا پر سی سی ٹی وی کیمروں میں ریکارڈنگ نہ ہو سکی۔ اطہر متین کے قتل کی واردات سے 8 منٹ قبل علاقے کی بجلی بند ہوئی۔ سی سی ٹی وی کیمروں میں بجلی کے بیک اپ کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ جو فوٹیج سامنے آئی‘ وہ نجی سی سی ٹی وی کیمروں سے لی گئی ہے۔ اطہر متین کے قتل کی تحقیقات کے لئے ڈی آئی جی ویسٹ کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن قاتلوں تک جلد پہنچنے کے لیے پرامید ہیں۔ وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ سندھ، اور گورنر سندھ نے اطہر متین کے قتل کی مذمت کی اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا۔ ایک روایتی پریس ریلیز والے الفاظ جو کسی کے دکھ کا مداوا نہیں کر سکتے۔
بھائی کی ناگہانی موت جیسا دکھ کسی اور کو نہیں بلکہ اطہر متین کے بڑے بھائی سینئر اینکر پرسن طارق متین کو ہے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے وہ بس اتنا بولے کہ اطہر متین کا خون سندھ حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس کے سر پر ہے‘ بھائی کے خون کا حساب چاہیے، شہر میں جگہ جگہ تھانے ہیں لیکن لٹیرے آزاد ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار خود جرائم کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ طارق متین کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ کراچی میں لٹیرے آزاد ہیں۔ روشنیوں کے شہر میں سٹریٹ کرائم کا جن برسوں سے قابو میں نہیں آ رہا۔ لٹیروں کے ہاتھوں شہری اپنی جمع پونجی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ مزاحمت پر زخمی کر دئیے جاتے ہیں اور کئی معصوم تو اپنی جان سے جاتے ہیں۔ جرائم کی ان وارداتوں پر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی معمول کی کارروائی کرتے ہیں۔ ہائی پروفائل کیس ہو تو پھر تھوڑی بہت پھرتی دکھاتے ہیں، بھاگ دوڑ ہوتی ہے، میڈیا میں بھی معاملہ خوب گرم رہتا ہے۔ عام لوگوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوں تو عموماً انہیں انصاف کے لیے مدتوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ عام لوگ تو بس قانون کی بھاری بھرکم فائلوں میں دب کر رہ جاتے ہیں جن پر وقت کی گرد پڑتی رہتی ہے۔ پولیس کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں پچھلے سال ڈکیتی کی وارداتوں کے دوران مزاحمت پر 64 شہری قتل کئے گئے۔ روشنیوں کے شہر میں عام آدمی کے لیے صرف اندھیرا ہے۔
کراچی میں جرائم کی بڑھتی ہوئی صورت حال لوگوں میں بغاوت پیدا کررہی ہے۔ کراچی اور اندرونِ سندھ میں یہ بڑی تلخ صورت حال ہے کہ محافظوں کی صفوں میں ہی چور گھسے بیٹھے ہیں‘ لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں، کیا حکمران گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں؟ کیا وہ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ کراچی کے عوام حصول انصاف کے لئے خود ہتھیار اٹھا لیں؟ بغاوت پر اتر آئیں، یا پھر سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دیں؟ یہ بڑی سنگین صورتحال ہے۔ آج کا یہ کالم، اس تاریخ کو رقم کرے گا کہ آنے والا وقت کیا اس کراچی کو بہتر کرے گا یا پھر خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ اہالیان پاکستان آنے والے وقت میں کراچی میں امن وامان کی بگڑتی صورتحال کو نا قابلِ اصلاح پائیں۔ کراچی میں پیدا ہونے والے بچوں کی اپنی پیدائش کے دن سے سکول جانے کی عمر تک کیا ذہنیت بنتی جا رہی ہے، ان کی کیا تربیت ہو رہی ہے؟ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے بڑوں کو بیدردی سے مارا جا رہا ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے چاچا‘ ماما کو قتل کر کے روڈ پر پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے؟ اپنی آنے والی نسل بچانے کے لئے اس صورتحال کو سدھارنا ہو گا، اس کے خلاف اعلانِ جہاد کرنا ہو گا۔
یوں لگتا ہے کہ کراچی میں عملاً ڈاکو راج قائم ہو چکا ہے۔ رواں برس کے ڈیڑھ ماہ میں سفاک لٹیروں نے 14 شہریوں کی زندگی کے چراغ گل کر دیئے۔ 80 افراد کو زخمی کیا گیا۔ اسی عرصے کے دوران شہر میں 11 ہزار سے زائد وارداتیں بھی ہو چکی ہیں۔ یہ ایک منظم گروہ ہے جو کراچی کو ختم کرنے کے لیے چوری، ڈکیتی، دہشتگردی کا سہارا لے رہا ہے۔ ہمارا کراچی‘ جس میں پورے پاکستان سے لوگ آتے رہتے ہیں ایک روشنیوں کا شہر تھا اب وہاں روشنی تو کیا انسان کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔ لوگ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ڈرتے ہیں، خوفزدہ رہتے ہیں۔ اس شہر میں شاہ رخ جتوئی جیسے مجرم کو سہولتیں فراہم کرنے کے لئے پوری سندھ حکومت، پولیس تھانے سے لے کر جیل تک اور پھر وہاں سے ہسپتال تک، سخت پریشان ہے۔
کراچی کی ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہاں پر جو فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں، آج کل کراچی کی سیاسی پارٹیاں ان پر مختلف الزامات لگاتی ہیں۔ ایک سیاسی پارٹی نے تو کراچی غریبوں کو مفت کھانا کھلانے والے ایک فلاحی ادارے پر الزام لگایا کہ آپ لوگ یہاں کے بزنس مینوں کو لاہور بھگا رہے ہیں۔ یہ اس چیز کی کڑی تھی کہ ان سے بھتے کا مطالبہ کیا گیا اور جب انہوں نے پیسے نہیں دیے تو ان پر الزامات لگے۔ ایسے چند واقعات کے بعد ایسے رفاہی ادارے کراچی میں کام کرنے سے گھبرا رہے ہیں اور اپنی سروس بند کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ان کی سوچ بڑی جائز ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو بھتہ دیں یا پھر بے غریب، بے روزگار اور مستحق افراد کو کھانا کھلائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved