غلطی اگر ہو جائے اور پھر اس کا احساس بھی ہو جائے اس پر شرمندہ ہونا اچھے اخلاق کی ایک نشانی ہے۔ صرف ایک نسل پہلے تک اخلاق کی یہ صورت ہمارے معاشرے میں کسی حد تک موجود تھی‘ مگر ساتھ ہی شبہ پڑتا تھا کہ یہ شکل معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ کم از کم سوشل میڈیا کی حد تک یہ شبہ اب یقین میں بدل چکا ہے اور اب اس کے اثرات باہمی تعلقات میں بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔ہم تیزی سے مغربی تہذیب کے اس اخلاقی پہلو کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں بچوں تک کو ایسے سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے کہ وہ یہ کہتے سنائی دیتے ہیںI love three persons. Me, myself and I یعنی میں تین بندوں سے محبت رکھتا/ رکھتی ہوں۔ میں ‘میں اور میں۔ یہی بچے زیادہ تر سچ بولتے ہیں‘ دوسروں کے معاملات میں بہت کم دخل دیتے ہیں۔ محبت کی سطح ان میں بہت کم ہوتی ہے اور یہ تمام اچھائیاں ساتھ لے کر جوان ہوتے ہیں لیکن اپنے آپ سے اور صرف اپنے آپ سے محبت کا سبق بھی نہیں بھولتے۔
ہمارے معاشرے نے عجیب فلٹر لگا رکھا ہے کہ مغربی معاشرے کی صرف وہی شے آگے آنے دینی ہے جو منفی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی خود کو کچھ سمجھنے کی بات تو پنپ رہی ہے مگر سچ ‘ غیبت وغیرہ سے گریز بالکل نہیں کیا جا رہا حالانکہ آپ مغربی ممالک کے ڈراموں اور فلموں وغیرہ کو دیکھیں تو تمام تر فحاشی کے باوجود کوئی کردار جھوٹ بولتا‘ غیبت کرتا یا دوسروں کے معاملات میں مداخلت کرتا صرف اسی صورت میں دکھایا جاتا ہے جب اس کا انجام برا دکھانا مقصود ہوتا ہے۔ میں کرنٹ افیئرز یا دستاویزی پروگراموں کی بات نہیں کر رہا‘ ان میں کہیں سیاست پس منظر میں ہوتی ہے اور کہیں ان میں سماجی شعبے کا ایجنڈا ایک طریقے سے سمودیا ہوتا ہے۔ہمارے ہاں مولانا طارق جمیل اخلاقِ حسنہ کی اہمیت پر عمدہ گفتگو کرتے ہیں‘ لیکن انسان کی نفسیات ایسی ہے کہ وہ ایک کان سے سنتا ہے اور دوسرے سے نکال دیتا ہے۔
کوئی بیس برس پہلے میں ایک سٹور میں کچھ خریدنے گیا ہوا تھا‘ وہاں میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اپنی چھ سات سال کی بچی کا بازو پکڑا ہوا ہے اور بچی نے اپنے ہاتھ میں کچھ ٹافیاں پکڑی ہوئی ہیں۔ اس شخص نے وہاں ایک ملازم کو پوچھا کہ میری بچی کے ہاتھ میں جو ٹافیاں ہیں یہ کہاں رکھی ہوئی ہیں‘ اس نے دائیں طرف اشارہ کیا‘ وہ شخص بچی کو لے کر اس طرف چلا گیا‘ تھوڑی دیر میں واپس آیا تو بچی کے ہاتھ میں ٹافیاں نہیں تھیں حالانکہ میرا خیال تھا کہ وہ مزید ایسی ٹافیاں خریدنا چاہتا ہے۔ خیر وہ شخص اس کے بعد سٹور سے بچی سمیت چلا گیا۔ میں جب سٹور سے باہر نکلا تو دیکھا کہ اس شخص کی گاڑی سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی۔ بچی اندر بیٹھی ہوئی تھی اور وہ گاڑی کا بونٹ اٹھا کر سٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہا تھا‘ اتنے میں میں نے دیکھا کہ میرے علاقے کا ایک موٹر مکینک وہاں سے گزررہا ہے۔ میں نے اس کو آواز دی وہ آیا تو میں نے اس شخص سے کہا کہ یہ موٹر مکینک ہے اس کو موقع دیں۔ ظاہر ہے وہ پیچھے ہٹ گیا۔ اس مکینک نے دو تین تاروں کو ادھر ادھر کیا‘ اور بھی کچھ کیا ہو گا‘ کوئی پانچ منٹ بعد اس نے کہا: چلیں سٹارٹ کریں۔ گاڑی سٹارٹ ہو گئی تووہ شخص بہت ممنون ہوا‘ اس نے مکینک کو کچھ پیسے دینے کی کوشش کی لیکن وہ مکینک گاڑی سٹارٹ ہوتے ہی وہاں سے روانہ ہو گیا۔وہ شخص میرا شکریہ ادا کرنے لگا تو میں نے پوچھ ہی لیا کہ آپ نے سٹور سے کچھ خریدا نہیں بلکہ بچی کے ہاتھ میں جوٹافیاں تھیں وہ بھی نظر نہیں آئیں تو وہ ہنسا۔ کہنے لگا: آپ نے خوب نوٹ کیا ‘ اصل میں کل میں اس سٹور میں شاپنگ کرنے آیا تھا تو میری اس بچی نے مجھے بتائے بغیر یہ ٹافیاں اٹھا کر جیب میں ڈال لی تھیں‘ مجھے رات کوپتہ چلا تو میں نے ا س کو ٹافیاں کھانے سے منع کر دیا اور سمجھا یا کہ یہ چوری ہے‘ کل ہم یہ واپس کر کے آئیں گے۔ تو آج میں وقت نکال کر اس کو ساتھ لے کر اسی کام سے آیا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ آپ قریب ہی کہیں رہتے ہیں؟ بولے :نہیں کافی دور رہتا ہوں ‘کل ادھر سے گزر رہا تھا تو کچھ اشیا خریدنے کا خیال آ گیا تو اس سٹور میں رک گیا۔مجھے یقین ہے کہ اس واقعہ نے اس بچی پر ایسا اثر کیا ہو گا اور وہ زندگی بھر کسی کی شے پرنظر نہیں رکھے گی۔ ہمیں ایسے ہی والدین کی اشد ضرورت ہے۔
ہمارے گھر چند برس پہلے ایک دس بارہ برس کا بچہ سودا سلف لانے کیلئے ایک دو گھنٹے کیلئے آتا تھا۔ ہم اس کے والدین کو ماہانہ کچھ رقم دیتے تھے اور اس بچے کی سکول کی فیس اور کتابیں بھی ہم نے اپنے ذمہ لے رکھی تھیں۔ ایک روز وہ سودا لانے کے بعد میری بیوی کوبقایا واپس کر رہا تھا مگر پانچ روپے اس نے نہیں دیے۔ میری بیگم نے پوچھا :یہ پانچ روپے کیوں نہیں دے رہے۔ وہ بولا: آنٹی یہ میرے ہیں‘ میں نے سودا لیتے ہوئے ٹھگی ماری ہے یعنی دکاندار کے ساتھ دھوکا کیا ہے اورپانچ روپے بچا لئے۔میں نے اس سے کہا: یہ تمہیں کس نے سکھایا ہے ؟کہنے لگا: میرے ابو بھی ٹھگی مارتے ہیں۔ میں نے اس سے کہا: جائو واپس کر کے آئو ‘مگر مجھے یقین نہیں کہ اس نے واپس کئے ہوں گے‘ میں فوراً اس کے ساتھ جاتا تو اس نے واپس کر دینے تھے مگر اس با ت کا اس پر کوئی اثر نہیں ہونا تھا کیونکہ یہ کام اگر اس کا باپ کرتا تو پھر اس کے کردار کی تعمیر ہوسکتی تھی۔
ریڈیو پاکستان کی ملازمت کے دوران 60 ء کے عشرے میں ہمارے افسر زیادہ تر اچھے اخلاق کا نمونہ ہوتے تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو روتے دھوتے رہتے تھے اور کبھی اِس کی برائی کی‘ کبھی اُس کی برائی‘ بہرحال وہ آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ ہمارے ایک اسسٹنٹ ریجنل ڈائریکٹر نے ایک میوزک پروڈیوسر کی اے سی آر (Annual Confidential Report) میں ایک خانے میں Nil لکھ دیا تھا۔ اس خانے میں سوال یہ تھا کہ آیا اس پروڈیوسر نے کوئی نیا فنکار متعارف کروایا ہے؟ وہ رپورٹ ہیڈ کوارٹر چلی گئی‘ کوئی بڑی بات نہیں تھی‘ نئے فنکار متعارف کروانا لازمی نہیں ہوتا‘مگر کسی نے کوئی فنکار متعارف کروایا ہے اوروہ ریکارڈ پر آ جاتا ہے تو یہ پروموشن میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ کوئی دو ماہ بعد اس اسسٹنٹ ریجنل ڈائریکٹر کے علم میں بات آئی کہ اس میوزک پروڈیوسر نے دو نئے فنکار متعارف کروائے تھے‘ پھر کیا تھا‘ جناب وہ بے چین ہو گئے ‘آخر انہوں نے ہیڈ کوارٹر میں اپنے کسی دوست کی وساطت سے وہ رپورٹ واپس منگوائی۔ اس میں ضروری تبدیلی کی اور حتمی دستخطوں کیلئے سٹیشن ڈائریکٹر کے پاس لے گئے ۔سٹیشن ڈائریکٹر کو ساری بات بتائی تو انہوں نے بھی دستخط کر دیے۔جب ا سسٹنٹ ریجنل ڈائریکٹر کا تبادلہ ہوا اور ان کی الوداعی پارٹی ہوئی‘ اس میں سٹیشن ڈائریکٹر نے اپنی تقریر میں یہ واقعہ بیان کیا۔ سٹاف کے جتنے لوگ موجود تھے ان پر اس کا کتنا مثبت اثر ہوا ہو گا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں ‘خاص طور پر جونیئر سٹاف تو میری رائے میں بہت متاثر ہوا ہو گا۔پھر ہم نے ریڈیو ہی میں وہ زمانہ بھی دیکھا کہ افسر دھمکیاں دے رہے ہیں''فیر میں تیری رپورٹ خرا ب کرا دواں گا‘‘ کام کا رپورٹ سے تعلق ختم ہوتا گیا اور خوشامدی تعلق قائم ہونے لگے۔
جب میری پروموشن پروڈیوسر سے بطور سینئر پروڈیوسر ہوئی تو میں واحد افسر تھا جس کا لاہور سے راولپنڈی تبادلہ ہو گیا‘ حالانکہ لاہور میں بھی گنجائش تھی ایک سینئر پروڈیوسر اوررکھنے کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے جو سوال پوچھنے کی عادت تھی اس سے میرے افسر اعلیٰ خوش نہیں تھے‘ خفگی کا اظہار کبھی زبانی نہیں کیا لیکن عملی طور پر کر دیا۔ریڈیو کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد میں نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کیلئے عرصہ دراز تک کام کیا۔ میرا دسیوں مرتبہ اپنے سروس چیف سے اختلاف رائے ہوا۔ بات تو انہی کی چلی مگر وہ ناراض کبھی نہیں ہوئے اور نہ ہی کبھی میرے کنٹریکٹ پر کوئی منفی اثر ڈالا۔ایک مرتبہ دورے پر لاہور آئے تو ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں مجھ سے پوچھ لیا کہ میں نے ریڈیو کی سروس سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کیوں لی تھی؟ میں نے کہا: کئی وجوہ تھیں‘ میرے بچے لاہور میں سکولوں میں پڑھ رہے تھے اور مجھے سٹیشن ڈائریکٹر بنا کر فیصل آباد بھیجا جا رہا تھا ‘ پھر ریڈیو کی نوکری میں اخراجات پورے نہیں ہو رہے تھے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس وقت افسران میں قوتِ برداشت ختم ہو چکی تھی‘ اختلاف ِرائے برداشت نہیں کرتے تھے۔ یہ سب سن کر کہنے لگے ''افضل‘ جو شخص سوچتا ہے وہی اختلاف رائے رکھ سکتا ہے‘ بھلا کوئی مشین بھی اختلاف رائے رکھتی ہے؟۔‘‘
آج بھی آپ فیس بک یا ٹوئٹر پر دیکھیں‘ کوئی اختلافِ رائے کو برداشت نہیں کرتا‘ یہاں تک کہ اگر آپ کسی کی بات کے مخالفت بات کر دیں تو جواب گالیوں میں ملتا ہے‘ تو پھر ہم تو مشینیں ہی پیدا کر رہے ہیں جو اس پر یقین رکھتی ہیں کہ: I love three persons. Me, myself and I۔