اعتماد بھی کیا ہی نعمت ہے۔ جس میں یہ نعمت پائی جائے اُس کا کوئی کام رُکا نہیں رہتا۔ رُکے کیوں؟ اعتماد سے تو انسان پہاڑ کو ہلانے کا عزم بھی کر بیٹھتا ہے۔ بہت سے کام یکسر بے سر و سامانی کے عالم میں شروع کیے جائیں تو پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹانے جیسے ہی معلوم ہوتے ہیں مگر آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگ گھبراہٹ کو اپنے حواس پر سوار کیے بغیر چل پڑتے ہیں۔ یہ سب کچھ مثالی اعتماد کے سہارے ہوتا ہے۔ کوئی بھی معاملہ لیجیے، حتمی تجزیے میں کامیابی صرف اور صرف اعتماد کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ جن میں غیر معمولی اعتماد پایا جاتا ہے وہ بعض اوقات بہت کم وسائل کا حامل ہونے کی حقیقت کو نظر انداز کرکے اپنے مقصد کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔ اعتماد ہی کے ذریعے وہ اپنی منزل کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔
دنیا اپنی جلووں کی بھرپور تابانی کے ساتھ ہمارے سامنے بے نقاب ہے۔ دنیا میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ ہمیں بہت کچھ سکھانے پر بھی کمربستہ ہے۔ جو سیکھنا چاہتے ہیں وہ سیکھتے چلے جاتے ہیں اور جنہوں نے طے کرلیا ہے کہ اب زندگی کا معیار بلند کرنے کی کوشش نہیں کرنی وہ کسی ایک ڈگر پر چلتے چلتے زندگی کی آخری منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ اپنے ماحول میں آپ ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے جنہوں نے بہت پہلے یعنی اٹھتی جوانی میں کوئی ایک راہ منتخب کی اور پھر اُسی پر گامزن رہے۔ اِس کا نتیجہ کیا برآمد ہوا؟ دریا جیسی زندگی بالآخر پہلے جوہڑ بنی اور پھر دلدل ہوکر رہ گئی۔
مثالی نوعیت کا اعتماد کسی بھی انسان کے لیے انتہائی بنیادی اور فیصلہ کن اثاثہ ہوتا ہے۔ اس ایک اثاثے کی بنیاد پر انسان اپنے پورے وجود کو بروئے کار لانے کے قابل ہو پاتا ہے۔ ہم زندگی بھر ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں جن میں صلاحیت کی کمی نہیں ہوتی‘ سکت بھی ہوتی ہے مگر چونکہ وہ بھرپور اعتماد کے حامل نہیں ہوتے اس لیے وہ نہ صرف یہ کہ کوئی بڑا کام نہیں کر پاتے بلکہ عمومی سطح پر رہتے ہوئے جو کچھ کرتے ہیں وہ بھی سرسری اور عمومی نوعیت ہی کا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ بہت کچھ کرنے کے قابل ہونے کے باوجود کچھ نہیں کر پاتے اور جب عمر ڈھلنے پر کچھ ہوش آتا ہے تب صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے۔ یہ پچھتاوا انسان کی رہی سہی توانائی بھی نچوڑ لیتا ہے کیونکہ جب وقت گزر چکا ہو تو انسان کے حواس پر پژمردگی سی چھا جاتی ہے اور کام کرنے کی رہی سہی لگن ماند پڑتی جاتی ہے۔ یہ اعتماد ہی تو ہے جو انسان کو سخت نامساعد حالات میں بھی ثابت قدم رہنے کی تحریک دیتا ہے۔ آپ نے بہت سے کرکٹ میچز میں دیکھا ہوگا کہ کسی ٹیم کے ابتدائی دو تین کھلاڑی اس حالت میں آؤٹ ہو جاتے ہیں کہ ابھی ٹیم کا کھاتا بھی کھلا نہیں ہوتا۔ ایسا بھی ہوا کہ پہلے تین کھلاڑی صفر پر آؤٹ ہوئے یعنی ٹیم کاایک بھی سکور نہیں بنا تھا مگر چوتھے نمبر پر آنے والے بیٹسمین نے نہ صرف رنز کا کھاتا کھولا بلکہ میچ بھی جتوادیا! ایسے کارنامے صرف اور صرف اعتماد کی بدولت ممکن بنائے جاسکتے ہیں۔
مختلف شعبوں میں ہمیں ایسی بہت سی شخصیات ملیں گی جنہوں نے کامیابی صرف اعتماد کے بل پر حاصل کی۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی نے بے سر و سامانی کے عالم میں کاروبار شروع کیا اور پھر ایسی کامیابی حاصل کی کہ ایک پوری کاروباری سلطنت قائم کرنے بعد ہی سکون کا سانس لیا۔ فنونِ لطیفہ، کھیل، کاروبار، علم و ادب اور ہنر کی دنیا میں ہم ایسی بہت سی شخصیات کو دیکھتے ہیں جو صرف اعتماد کے ذریعے کچھ کرنے میں کامیاب ہو پائیں۔ کسی بھی شعبے میں نام کمانا کبھی آسان نہیں رہا۔ ہر عہد میں کچھ کر دکھانے والوں کو محنت شاقہ کے مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔
بھرپور اور ناقابلِ یقین اعتماد کی ایک زندہ مثال شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں ہیں۔ اُنہوں نے انتہائی مشکل حالات میں اپنے آپ کو فنی اور نفسی اعتبار سے زندہ رکھا اور کسی بھی مقام پر اُمید کا چراغ گل نہیں ہونے دیا۔ مہدی حسن اپنی پھوپھی جان کے ساتھ پاکستان کے قیام سے ایک سال قبل ہی چیچہ وطنی آگئے تھے۔ تب گلوکار کی حیثیت سے کسی بلند مقام تک پہنچنا بچوں کا کھیل نہ تھا۔ مواقع کم مل پاتے تھے۔ متعلقہ ٹیکنالوجی میں ایسی پیش رفت نہیں ہوئی تھی کہ کوئی بھی کوشش کرتا اور گلوکار بن جاتا۔ ریکارڈنگ ہی بہت بڑا مسئلہ تھی۔ پھر مارکیٹنگ؟ یہ شعبہ اُس وقت تھا ہی نہیں۔ جن کے پاس وسائل ہوتے تھے وہی کچھ کر پاتے تھے یا پھر اِس شعبے پر غیر معمولی تصرف کی حامل شخصیات کی نظر میں آنے پر کچھ ہو پاتا تھا۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد معاشی معاملات شدید ابتری کا شکار تھے۔ معیشت برائے نام تھی۔ صنعتی اور تجارتی معاملات خطرناک حد تک رُلے ہوئے تھے۔ لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا بھی جُوئے شیر لانے جیسا ٹھہرا تھا۔ ایسے میں گانا سُننے کی فرصت کسے تھی؟ انتہائی مالدار گھرانوں کی مدد سے چند مستند گویّے ہی کچھ کما‘ کھا پاتے تھے۔ مجموعی طور پر معاملات انتہائی حوصلہ شکن تھے۔ فلم انڈسٹری برائے نام تھی۔ ٹی وی آیا نہیں تھا۔ لے دے کر صرف ریڈیو تھا جس پر کسی کو فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع مل سکتا تھا۔ وہاں بھی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ نئے فنکاروں کو موقع کم ہی مل پاتا تھا۔ پروڈیوسرز کو مطمئن کرکے پروگرام حاصل کرنا بہت بڑا دردِ سر تھا۔ معاملات میرٹ کے دائرے میں تھے۔ کسی ایسے ویسے کو گانے یا صداکاری کا موقع دینے کی صورت میں متعلقہ پروڈیوسر سے باز پُرس بھی ہو جاتی تھی۔ یہی سبب ہے کہ اُس دور میں ریڈیو کے ذریعے ملک کو انتہائی معیاری اہلِ فن ملے۔
مہدی حسن بھی ریڈیو کے ذریعے متعارف کرائے گئے۔ اُن کا آڈیشن جامع تھا یعنی ہر طرح کی گائیگی میں اُن کی صلاحیت اور مہارت کا جائزہ لیا گیا۔ آڈیشن لینے والے پروڈیوسر نے اُنہیں کلین چٹ دی تو ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار علی(زیڈ اے)بخاری سے پوچھا گیا کون سی کیٹیگری دی جائے۔ اُن کے کہنے پر اے کیٹیگری دی گئی۔ کم و بیش 40 منٹ کے لائیو پروگرام میں گانے کے 30 روپے ملا کرتے تھے! اور بکنگ بھی روزانہ نہیں ہوتی تھی۔ اتنے مشکل حالات میں بھی مہدی حسن نے ہمت نہ ہاری۔ مہینے میں دو‘ چار نجی محفلوں میں گاکر وہ جیسے تیسے کماتے اور گھر چلاتے رہے۔ فلم انڈسٹری میں قدم رکھ چکے تھے مگر اُس طرف سے کچھ خاص آمدنی نہ تھی۔ فلمی دنیا میں قدم جمانے کے لیے مہدی حسن کو کم و بیش 6 سال تک صبر آزما انتظار کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ انہوں نے پہلا فلمی گانا 1956 میں ''شکار‘‘ کے لیے ریکارڈ کرایا۔ اُن کا پہلا ہٹ فلمی گانا ''جس نے مرے دل کو درد دیا‘‘ تھا‘ جو 1962ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''سسرال‘‘ میں شامل تھا۔ سات برس کی اِس مدت کے دوران مہدی حسن کو فلموں میں صرف 9 گانے ملے! مہدی حسن نے اعتماد کھوئے بغیر سات سال تک بہتر حالات کا انتظار کیا۔ پھر جب اُنہوں نے کامیابی کی شاہراہ پر قدم رکھا تو مڑ کر نہیں دیکھا۔ مہدی حسن اِتنے پُراعتماد تھے اور اپنی کامیابی کا اُنہیں اِتنا یقین تھا کہ سات برس تک سیکھنے کا عمل بھی جاری رکھا اور باقاعدگی سے ریاض بھی کیا۔ انہوں نے سات سال تک اپنے فن میں پختگی پیدا کرنے پر توجہ دی اور بڑے بھائی پنڈت غلام قادر کے ساتھ مل کر زیادہ اعتماد کے ساتھ گانے کی بھرپور تیاری جاری رکھی۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ بھرپور اعتماد کے ساتھ کی گئی محنت کس قدر رنگ لائی۔
سوال یہ ہے کہ اِس قوم کا اعتماد کیسے بحال ہوگا؟ اعتماد بحال ہوتا نہیں‘ کرنا پڑتا ہے۔ یہ کام بنیادی طور پر ریاست کا ہے۔ جب معاشرے پر پژمردگی چھائی ہو تب ریاست ہی کچھ ایسا کرتی ہے جس سے قوم کا اعتماد بحال ہو اور وہ پس ماندگی کو تج کر کچھ کرنے پر مائل ہو۔ اعتماد بحال کیے بغیر کام کرنے کی بھرپور لگن پیدا کرنے کی ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہوتی ہے۔ قوم کے اعتماد کی بحالی مختلف جہات میں جاں فشانی کی طالب ہے۔ اس حوالے سے منصوبہ بندی بھی لازم ہے اور پھر جو کچھ بھی کرنا ہے جنگی بنیاد پر کرنا ہے۔ ہم بھول گئے ہیں کہ ہر دور کی طرح آج بھی وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔