پاکستان 139 ممالک میں سب
سے سستا ہے: وزیر خزانہ
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ''پاکستان 139 ممالک میں سستاترین ہے‘‘، اس لیے ان ممالک کو چاہیے کہ مہنگائی سے بچنے کے لیے اشیائے ضروریہ کی خریداری یہاں سے کیا کریں؛ البتہ ہمارے ہاں چونکہ غربت بھی ان ممالک سے زیادہ ہے‘ اس لیے مہنگائی بھی اس تناسب سے زیادہ ہے؛ چنانچہ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ ہمارے عوام اپنی غربت کو کم کرنے کی خود کوشش کریں تاکہ مہنگائی خود بخود ختم ہو جائے جبکہ یہ عوام کا اپنا کام ہے اور حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی غربت دور کرنے میں مصروف ہے کیونکہ مہنگائی نے اسے بھی حد سے بڑھ کر پریشان کر رکھا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں کاسٹ آف لیونگ سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔
حکمرانوں کا وقت قریب ہے‘ کوئی متنازع
آرڈیننس نہیں بچاسکتا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کا وقت قریب ہے‘ کوئی متنازع آرڈیننس نہیں بچا سکتا‘‘،اس لیے انہیں غیر متنازع یا کم سے کم متنازع آرڈیننس لانے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ جب پارلیمنٹ تعطل کا شکار ہو رہی ہو تو کاروبارِ حکومت آرڈیننس ہی کے ذریعے چلایا جا سکتا ہے جبکہ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ صدرِ محترم کے لیے بھی کوئی کام نکل آتا ہے جو سارا دن فارغ بیٹھے یا ٹویٹس کرتے رہتے ہیں جبکہ ان کا ایوانِ صدر سے باہر نکلنا بھی عوام کو خاصا مہنگا پڑتا ہے کہ اگر انہیں کچھ کھانے کے لیے بھی کہیں جانا ہو تو سڑکیں بند کرا دی جاتی ہیں۔ آپ اگلے روز جامعہ العلوم اسلامیہ منصورہ ہالا‘ مٹیاری میں خطاب کر رہے تھے۔
ماضی میں حکمرانوں نے عوام کو سنہرے
خواب دکھائے: فرخ حبیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''ماضی میں حکمرانوں نے عوام کو سنہری خواب دکھائے‘‘ جبکہ ہم ایک رنگ پر اکتفا نہیں کرتے اور انہیں رنگ برنگے خواب دکھاتے ہیں کیونکہ ایک ہی قسم کے خوابوں سے عوام تنگ پڑ جاتے ہیں؛ اگرچہ تجربہ یہی کہتا ہے کہ جتنے رنگوں کے خواب ہوں‘ عوام اتنے ہی زیادہ تنگ اور پریشان ہوتے ہیں؛ چنانچہ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ عوام کو آئندہ بے رنگ خواب دکھایا کریں اور وہ ان میں اپنی مرضی کے رنگ خود بھر لیا کریں کہ انہیں بھی کوئی کام کرنے کی توفیق ہو ‘جو دن رات مکھیاں ہی مارا کرتے ہیں؛ اگرچہ اس کے باوجود مکھیوں کی تعداد کم نہیں ہوتی۔ آپ اگلے روز جھنگ میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی سے عوام کے صبر کا
پیمانہ لبریز ہو چکا ہے: پرویز اشرف
سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ''بڑھتی ہوئی مہنگائی سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے‘‘ اور حیرت ہے کہ اس پیمانے نے بھرنے میں تین‘ ساڑھے تین سال لگا دیے جس کا مطلب ہے کہ یہ پیمانہ بہت بڑا تھا جبکہ ہمارے زمانے میں یہ پیمانہ نہ صرف جلدی لبریز ہو گیا تھا بلکہ چھلکنے بھی لگا تھا جس سے ہم نے سمجھا کہ اس پیمانے کی طرح عوام کے پیٹ بھی بھرے ہوئے ہیں؛ حالانکہ روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ کہیں بیچ میں ہی رہ گیا تھا اور یہ بھی عوام کی نااہلی ہے کہ اگر روٹی دستیاب نہیں تو وہ اپنا پیٹ کیک یا پیسٹری وغیرہ سے بھی بھر سکتے ہیں جو ہمارے استعمال کے بعد یقینا تھوڑی بہت بچ رہتی ہو گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں لانگ مارچ کے سلسلے میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
میڈیا اور عوام کی زبان بند کرنا سوچے
سمجھے منصوبے کا حصہ ہے: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''میڈیا اور عوام کی زبان بند کرنا سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے‘‘ حالانکہ اس میں سوچے سمجھنے والی کوئی بات نہیں ہوتی کیونکہ میڈیا سیل میں یہ کام بغیر سوچے سمجھے ہی کیا جاتا تھا جبکہ اس طرح کام کرنے کی توفیق والدصاحب ہی سے ودیعت ہوئی ہے جنہیں بیرونِ ملک سے جانے کے لیے ہی سوچنا سمجھنا پڑا تھا‘ اور اب لندن پہنچ کر انہیں اس کی ویسے بھی کوئی ضرورت نہیں ورنہ وہاں پر بسنے کے بجائے وہ یہاں آ کر عوام کا ساتھ دیتے اوربکھری ہوئی پارٹی کو یکجا کرنے کی کوشش کرتے اور یہ سارا کام سرکاری مہمان بن کر بھی ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
اور‘ ا ب آخر میں افضال نوید کی غزل
جس حال میں رکھے وہ جہاں بھی مجھے رکھے
لیکن یہاں رکھے تو وہاں بھی مجھے رکھے
رکھے جو مکیں مجھ کو مکاں بھی مجھے رکھے
اٹھتا ہوا دونوں سے دھواں بھی مجھے رکھے
جاگوں جو زیادہ تو سلا دے وہ زیادہ
ان حالتوں کے بیچ رواں بھی مجھے رکھے
دروازۂ مابین کی کنجی بھی تھما دے
پوشیدہ بھی آنکھوں سے رواں بھی مجھے رکھے
توڑے مجھے باہر سے تو جوڑے مجھے اندر
رکھے جو مجھے پیر‘ جواں بھی مجھے رکھے
میں ہوں کہ یہ وہ ہے‘ نہیں معلوم یہ مجھ کو
اس جیسا ہی بن جائوں جہاں بھی مجھے رکھے
تبدیلیاں لے آئے نویدؔ اور ہی مجھ میں
ہونا جہاں ممکن نہ ہو واں بھی مجھے رکھے
آج کا مطلع
حضرتِ دل تو اس دفعہ صاف نکل نکل گئے
ہجر کی آگ میں مگر ہاتھ ہمارے جل گئے