تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     23-02-2022

اتنی جلدی کاہے کو؟

مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ آخر عمران خان وزیراعظم بننے کے اگلے روز ہی پاکستانی میڈیا کے سب سے بڑے دشمن کیوں بن گئے؟وزیراعظم بننے کے کچھ دن بعد انہوں نے صحافیوں سے پہلی ملاقات کی تھی تو ان کے سرد رویے سے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ وہ عمران خان نہیں جنہیں اس کمرے میں موجود دو درجن کے قریب صحافی اور اینکرز برسوں سے جانتے تھے۔ چند روز پہلے تک ان سبھی اینکرز کو بنی گالہ سے فون کر کے ریکویسٹ کی جارہی تھی کہ وہ خان صاحب کا انٹرویو کریں اور ایک دن میں خان صاحب کے چار چار انٹرویوز بھی چلے۔ اب اچانک بہت تبدیلی آگئی تھی۔
خان صاحب جب شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے تو سب صحافی احتراماً کھڑے ہوگئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ خان صاحب ان سے ہاتھ ملائیں گے اور جواباً وہ ان سے مبارکباد وصول کریں گے۔ شاید صحافی نواز شریف کے عادی تھے‘ وہ ہر ایک کے پاس جا کر ہاتھ ملاتے اور حال احوال پوچھتے تھے‘ لیکن عمران خان بغیر کسی سے ہاتھ ملائے یا بات کئے سیدھے صوفے پر جا بیٹھے اور اینکرز حیران کھڑے دیکھتے رہے۔ انہوں نے سیدھا کاشف عباسی سے کہا: ہاں کاشف پوچھو‘ کیا پوچھنا ہے۔ کا شف عباسی سوال کیلئے تیار نہیں تھے ‘ صرف اتنا پوچھ سکے کہ خان صاحب لگتا ہے آپ حکومت کیلئے تیار نہ تھے؟خان صاحب بولے: جی تم ٹھیک کہہ رہے ہو‘ ہم تیار نہ تھے۔کسی کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ اس نے خاور مانیکا کے بارے سوال پوچھ لیا۔ خاور مانیکا سے پولیس کی ''گستاخی‘‘کے نام پر پاک پتن کی پوری پولیس تبدیل کر دی گئی تھی۔اس سوال پر خان صاحب ایک گھنٹہ صحافیوں سے لڑتے ہی رہے۔ وہ عمران خان جو مسکرا کر ملتے تھے‘ اب مسلسل غصہ کررہے تھے۔
وہ میٹنگ خان صاحب کے غصے سے شروع ہوکر غصے پر ختم ہوئی۔ وہ جو میڈیا میں انہوں نے برسوں میں تعلقات بنائے تھے وہ دو گھنٹے کی پہلی میٹنگ میں خراب ہوگئے ۔ ان کو پہلے دن سے ہی بتا دیا گیا تھا کہ میڈیا کا مکو ٹھپنا ہے۔ جنہوں نے یہ نئی لائن خان صاحب کوسجھائی تھی وہ ان کے دشمن تھے۔ خان صاحب کو سب سے پہلے میڈیا سے لڑایا گیا۔ وہ میڈیا جو اُن کی طاقت تھا اپنی جان بچانے کیلئے اپوزیشن کے کیمپ میں جا گھسا اور جو اپوزیشن تیس سال کھڑی نہیں ہوسکتی تھی وہ تیس ماہ میں کھڑی ہوگئی ہے۔
عمران خان بھی اس وقت تک میڈیا فرینڈلی تھے جب تک وہ خود وزیر اعظم نہیں بن گئے۔وہ جس دن وزیراعظم بنے تو ایسے بدلے کہ اب ان کا بس چلے تو میڈیا کو بند کردیں‘ اینکرز کو جیلوں میں ڈال دیں۔ ان کے نزدیک ہر وہ صحافی جو اُن سے اختلاف رائے رکھتا ہے‘ کرپٹ ہے۔ جو اُن کی تین سال سے جاری ایک ہی تقریر پر واہ واہ نہیں کرتا اُسے مخالفوں نے خرید لیا ہے۔ ہر حکمران کی طرح انہیں بھی لگتا ہے کہ وہ کوئی بڑا کام کرنے کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔ قدرت نے ان سے کوئی بڑا کام لینا ہے۔ بھٹو بھی یہی سمجھتے تھے کہ ان جیسے بڑے لیڈر کو بھلا کون پھانسی دے سکتا ہے۔ بھٹو کا سپریم کورٹ میں دیا گیا بیان پڑھیں‘ انہوں نے کتنے بڑے کارنامے سرانجام دیے‘ پھر بھی پھانسی؟نواز شریف بھی یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ اگر وہ دوسری دفعہ وزیراعظم بنے ہیں تو قدرت ان سے کوئی بڑا کام لینا چاہ رہی ہے‘ لہٰذا انہوں نے خود کو امیرالمومنین کے درجے پر فائز کرنے کیلئے مسودہ قانون کا سہارا لینے کی کوشش کی ۔ پھر وہی نواز شریف ہتھکڑیوں میں جکڑے لانڈھی جیل جا بیٹھے۔ امیرالمومنین بننے کا مقصد بھی شاید یہی تھا کہ کسی کو نواز شریف کے فیصلوں پر تنقید کی جرأت نہ ہو اور اگر کوئی کرے تو اسے وہی سزا ملے جو ایک امیرالمومنین کی گستاخی کرنے والے کو ملنی چاہیے۔ جو بندہ دوسری دفعہ جمہوری طریقے سے وزیراعظم بنا وہ اب امیر بننے کے جنون کا شکار ہوچکا تھا۔
لگتا ہے بھٹو اور نواز شریف کے بعد اب عمران خان تیسرے لیڈر ہیں جو خود کو یہ یقین دلائے بیٹھے ہیں کہ انہیں بھی قدرت نے کسی بڑے کام کیلئے پاکستان کا وزیراعظم بنایا ہے اور یہ بات ان کے دماغ میں کچھ ایسی بیٹھ گئی ہے کہ وہ اب راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ عبور کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے ''ریاستِ مدینہ ‘‘کا سہارا لیا تاکہ اپنے ناقدین کے منہ بند کرسکیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نواز شریف ہوں یا عمران خان‘ کوئی بھی امیرالمومنین بننے کا مینڈیٹ لے کر نہیں آیا تھا۔ وہ ایک جمہوری طریقے سے عوام کے ایشوز حل کرنے کا مینڈیٹ لائے تھے‘ لیکن انہیں اچانک احساس ہوا کہ جمہوریت صرف اس حد تک ٹھیک ہے کہ اس کے ذریعے وزیراعظم بنا جاسکتا ہے ‘لیکن اس سے آگے جو ایک وزیر اعظم کی ذمہ داریاں ہیں‘ پارلیمنٹ یا ایک جمہوری کلچر کی ضروریات ہیں وہ ان پر عمل کرنے کو تیار نہ تھے۔ جس مغربی معاشرے کی جمہوریت کے فوائد گنوائے جاتے تھے وہاں ایک لیڈر کی ذاتی زندگی اتنی ہی شفاف ہونی ضروری ہے جتنی پبلک لائف۔ اگر کسی یورپی لیڈر کی ذاتی یا پبلک لائف میں کوئی سکینڈل سامنے آئے تو وہ عہدے پر قائم نہیں رہ سکتا۔ وہاں یہ تصور ہے کہ اگر آپ عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر پل رہے ہیں تو پھر آپ کی کوئی ذاتی لائف نہیں ہے۔ آپ کی لائف پر عوام کا حق ہے اور وہ پوچھ گچھ کا پورا حق رکھتے ہیں؛ چنانچہ جب بل کلنٹن کا امریکی پارلیمنٹ نے ٹرائل شروع کیا تو وہ یہ نہیں کہہ سکے کہ مونیکا لیونسکی سکینڈل یا ان کا جھوٹ بولنا ان کا ذاتی فعل تھا‘اس کا ان کی صدارت سے کوئی تعلق نہ تھا۔اس طرح جب آئی ایم ایف کے سربراہ جو فرانس کے اگلے صدر بننے والے تھے ایک ہوٹل میں ایک ویٹرس کے ساتھ زبردستی کرنے کے سکینڈل میں پھنسے تو انہیں بھی کوئی بہانہ نہ بنانے دیا گیا اور چھٹی ہوگئی۔
ہمارے ہاں اس کے برعکس کام چل رہا ہے کہ یہ فلاں لیڈر کا ذاتی فعل ہے اس پر بات نہ کریں۔ بھائی اگر کوئی لیڈر اپنی ذاتی زندگی میں شفاف نہیں تو پبلک لائف میں کیسے fair ہوسکتا ہے؟ اس لیے یورپی معاشرے اپنے لیڈروں پر سختی کرتے ہیں ‘ وہ ان کی پرائیویٹ لائف کے بہانے نہیں سنتے‘اور یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسے قوانین لائے جارہے ہیں جو شاید شمالی کوریا‘ چین یا سعودی عرب سے متاثر ہو کر متعارف کرائے گئے ہیں۔ میں اس کے حق میں ہوں کہ سوشل میڈیا کو کنٹرول ہونا چاہئے۔ میں خود سوشل میڈیا کا شکار رہا ہوں۔ سوشل میڈیا پر میرے خلاف بہت کچھ لکھا اور بولاگیا لیکن جو قوانین اب بنائے گئے ہیں انکی حمایت اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ چلیں میرے چند مخالفین اس طرح ٹنگے جائیں گے۔ حیرانی ہے کہ جب انکی حکومت خطروں میں گھری ہوئی ہے‘ عدم اعتماد تحریک فائنل ہونے والی ہے‘ لانگ مارچ کی تیاری ہے‘ ان کے سیاسی مخالفین گھیرا ڈال چکے ہیں‘ مقتدرہ کے ساتھ تعلقات خراب ہوچکے ہیں‘ مہنگائی ہاتھوں سے نکل چکی ہے‘ پٹرول ایک سو ساٹھ روپے فی لٹر تک پہنچ چکا ہے‘ اس وقت عمران خان کو ان ایشوز پر توجہ کی ضرورت تھی لیکن وہ سب کچھ چھوڑ کر صحافیوں اورسوشل میڈیا کو زیادہ سے زیادہ سزائیں دلوانے کیلئے بے چین ہیں۔
شاید خان صاحب کو لگتا ہے کہ انہیں پہلا اور آخری چانس ملا ہے‘ وہ مخالفین کو جتنا کچل سکتے ہیں وہ کچل دیں۔ جس طرح خان صاحب تیزی سے دوڑ رہے ہیں لگ رہا ہے ان کے پاس وقت کم ہے۔ کبھی یہی جلدی بھٹو کو تھی‘ پھر نواز شریف کو تھی کہ مخالفین کا جینا حرام کر دیں‘ آج کل وہی جلدی خان صاحب پر سوار ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved