لاطینی امریکہ کے ایک چھوٹے سے غریب ملک‘ ہنڈوراس نے ‘ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ملک کی 24 جیلوں کا کنٹرول قیدیوں کے سپرد کر دیا ہے۔غالباً اسی کو علاج بالمثل کہتے ہیں۔ یعنی جس چیز سے مرض پیدا ہو‘ اسی سے علاج کر لیا جاتا ہے۔ جرائم پیشہ لوگ جیل میں جاتے ہیں‘ تو انہیں سنبھالنے والے سول یا پولیس سروس کے لوگ ہوتے ہیں۔ پرانے زمانے میں تو پولیس والوں کا تبادلہ جیل میں ہونا‘ ان کے لئے سزا ہوا کرتا تھا۔ اب وہ زمانہ نہیں رہ گیا۔ جیل میں بھی آمدنی کے بے شمار ذرائع پیدا ہو چکے ہیں۔ اس لئے پولیس کا جو ملازم جیل کی ڈیوٹی پر مامور ہوتا ہے‘ اسے بھی وہی ’’مواقع‘‘ حاصل ہو جاتے ہیں‘ جو دوسری ’’رس بھری‘‘ تعیناتیوں پر ہوتے ہیں۔ ایک کہاوت ہے کہ غریب آدمی اگر مقدمے میں پھنس جائے‘ تو پولیس اس کی جمع پونجی اور زیورات تک ختم کرا دیتی ہے۔ جب وہ عدالت میں جاتا ہے‘ تووکیل اور ملازمین‘ اس کی جائیداد بکوا دیتے ہیں اور جب وہ جیل جاتا ہے‘ تو کفن کے پیسے وہاں چھین لئے جاتے ہیں۔ گویا لٹے لٹائے غریب آدمی کے آخری چند پیسے جیل والوں کے کام آتے ہیں۔یعنی جیل کے عملے کواپنی غذا‘ نچوڑے ہوئے لیموں یا بیلن سے گزرے ہوئے گنے میں سے نکالنا پڑتی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جیل میں ڈیوٹی دینے والے اہلکار کتنے ماہر اورہنرمند ہوتے ہیں۔ جس کے پاس بہت کچھ ہو‘ اس کی جیب سے کچھ نکالنا مشکل نہیں ہوتا۔ لیکن جس کے پاس کچھ نہ ہو‘ اسے لوٹنے کے لئے ایک مضبوط دل اور اعلیٰ درجے کی ہنرمندی درکار ہوتی ہے۔ پاکستان کی جیلیں اب پرانے زمانے جیسی نہیں رہ گئیں۔ پرانی جیلوں میں صرف دو قسم کے لوگ مزے میں رہتے تھے۔ ایک جیل کا عملہ اور دوسرے مالدار یا طاقتور قیدی۔ سرمایہ دار کی جیل‘ اہلکاروں کے لئے عیش و عشرت کی نوید ہوتی ہے۔ اہلکار اسے سہولتیں دینے کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ کر خدمات پیش کرتے ہیں۔ گھر سے آیا ہوا کھانا کوٹھری تک پہنچانے کی فیس الگ ہوتی ہے۔ دھوبی سے کپڑے دھلوانے کی الگ۔ بازار سے ضرورت کی چیزیں منگوانے کی علیحدہ اور آرام و آسائش کا سامان مہیا کرنے کا معاوضہ الگ۔ اس میں فرنیچر سے لے کر ایئرکنڈیشنر تک ہر چیز شامل ہے۔ طاقتور سے مراد ‘ بڑے غنڈے اور بدمعاش ہیں۔ جو غنڈہ جتنا بڑا اور معروف ہوتا ہے‘ وہ جیل کے اندر اتنا ہی بڑا ڈیرہ بنا لیتا ہے۔ جیل کے افسر ‘ غنڈے کی طاقت اور سائز کے مطابق اسے خدمت گار مہیا کر دیتے ہیں‘ جو اس کی مالش کرتے ہیں۔ کندھے اور پنڈلیاں دباتے ہیں۔ اس کے کام کرتے ہیں اور جن نشہ آور چیزوں کا وہ کاروبار کرتا ہے‘ ان کی ’’ہوم ڈلیوری‘‘ دیتے ہیں۔ ان خدمات کے عوض‘ اسے ڈیرے پر پکا ہوا کھانا مل جاتا ہے۔ بڑا غنڈہ‘ قیدیوں اور اعلیٰ افسروں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔ قیدی کو جو بھی سہولت درکار ہوتی ہے‘ و ہ ڈیرے پر جا کر بتاتا ہے۔ افسروں کو طے شدہ معاوضہ مل جاتا ہے اور خدمات انجام دینے کی فیس غنڈہ اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔ کاروبار میں جیل کے عملے کا طے شدہ حصہ الگ ہوتا ہے۔ گزشتہ چند برس سے جیل میں معروف دہشت گردوں کی آمد کے بعد ایک نئی روایت قائم ہوئی ہے۔ یہ اتنی بھی نئی نہیں ۔ اسے رائج ہوئے پانچ چھ برس گزر چکے ہیں۔ اصول اور ضابطے کافی حد تک مرتب ہو چکے ہیں۔ ان پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے۔ جب سے قیدیوں کی یہ نئی قسم جیلوں میں آنے لگی ہے‘ اہلکاروں کے فرائض میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ نئی قسم کے قیدی‘ جیل کے ملازمین کو اپنا ماتحت سمجھتے ہیں۔ جو رعایت چاہتے ہیں‘ انہیں مہیا ہو جاتی ہے اور رعایات دینے کے ساتھ ساتھ جیل کے ملازمین ہر وقت اپنی طرف سے مزید خدمات پیش کرنے کی استدعائیں کرتے رہتے ہیں تاکہ غازی یا مجاہد ان پر مہربان رہے۔ پہلے تو وہ محض ڈرا کرتے تھے لیکن اب تو وہ حقائق کو دیکھ چکے ہیں۔ آپ کو معلوم نہیں تو میں بتا دیتا ہوں کہ جیلوں کے مابین خبروں کی رفتار دیگر ذرائع ابلاغ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ادھر کوئی واقعہ ہوا اورادھرملک بھر کی جیلوں میں اس کا چرچا ہو جاتا ہے۔ جو کچھ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی جیلوں میں ہوا‘ اس کی پوری تفصیل ملک بھر کی جیلوں میں پہنچ چکی ہو گی۔ مجاہدین ‘ جیل توڑنے کے بعد اپنی مفتوحہ جیل میں اطمینان سے بیٹھ کر عدالتیں لگاتے ہیں۔ قید میں پڑے اپنے ساتھیوں سے رپورٹ لیتے ہیں کہ جیل میں کس کس نے انہیں تنگ کیا یا تکلیف پہنچائی؟ اور پھر جن قیدیوں نے دہشت گردی کے خلاف ہرزہ سرائی کی‘ ان کا سراغ لگاتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف بولنے والے قیدیوں اور مجاہدین کو تکلیف پہنچانے والے اہلکاروں کو طلب کر کے‘ سامنے بٹھا لیا جاتا ہے۔ پھر انہیں ترتیب سے لٹا کر‘ ان کی گردنیں کاٹی جاتی ہیں اور کٹے ہوئے سر ترتیب سے رکھ دیئے جاتے ہیں۔یہ کام مکمل کرنے کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں رہا کرائے گئے قیدیوں کو بسوں تک پہنچایا جاتا ہے اور پھر یہ قافلہ جہادی ترانے گاتا ہوا واپس اپنی پناہ گاہ کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ دہشت گردوں کے لئے جیل کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ وہ اپنے مشن پر نکلے ہوتے ہیں۔ انسانی خون کا بہنا‘ان کے نزدیک مشن کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ کسی بے گناہ کا خون بہاتے ہوئے‘ انہیں افسوس نہیںہوتا اور جب ان کا اپنا خون بہتا ہے‘ تو اس پر افسوس کرنے کی ان کے پاس مہلت ہی نہیں ہوتی۔ وہ اپنے چلائے ہوئے بم کے دھماکے سے مریں یا سکیورٹی ایجنسی کے چلائے ہوئے راکٹوں یا گولیوں سے یا پھر ڈرون کے چلے ہوئے میزائلوں سے‘ ان کی موت عمومی طور پر اچانک ہوتی ہے۔وہ جیلوں کے اندر بھی راج کرتے ہیں اور باہر بھی۔ ان کے راج کے مناظر دیکھنا ہوں‘ تو کبھی بسوں اور ویگنوں کے اس جلوس کو دیکھیں‘ جو سکیورٹی چیک پوسٹوں سے انتہائی حفاظت کے ساتھ گزرتا ہوامنزل مقصود تک جاتا ہے۔ ان کے قافلے کو کسی چیک پوسٹ پر نہیں روکا جاتا۔کسی مقام پر انہیں چیک نہیں کیا جاتا۔ وہ اطمینان سے قبائلی علاقے کی سرحد پار کر کے‘ حکومت کے زیرکنٹرول علاقے میں داخل ہوتے ہیںاور اسی طرح سفر کرتے ہیں‘ جیسے وہ اپنے زیرکنٹرول علاقے میں کر رہے ہوں۔ان کے پاس ہتھیاروں کے جدیدترین ماڈل ہوتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک جیل کی دیوار جو انہوں نے توڑی‘ وہ کوئی عام دیوار نہیں تھی۔ اسے انگریز کے زمانے میں بنایا گیا تھا۔ وہ کئی فٹ چوڑی ہے۔ اس کی مضبوطی دیکھنے کے لئے گولے فائر کر کے دیکھے گئے تھے اور دیوار کا کچھ نہیں بگڑا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ جیلوں کی ہمہ وقت نگرانی ہوتی ہے اور خطرے کے وقت فوری طور پر ایمرجنسی فورس موقع پر پہنچتی ہے۔ اتنی مضبوط دیوار کو توڑنے کے لئے‘ جتنا وقت او ر طاقت درکار ہوتی ہے‘ اس میں اتنا وقت صرف ہوتا ہے‘ جس کے دوران ایمرجنسی فورس آسانی سے موقع پر پہنچ سکتی ہے۔ لیکن بنوں جیل میں ہونے والے واقعہ کے دوران کسی بھی طرح کی سکیورٹی فورس موقع پر نہیں پہنچ پائی۔ بنوں جیل کے بارے میں زیادہ تفصیل معلوم نہیں ہو سکی۔ لیکن ڈیرہ اسماعیل خان میں ساڑھے چار پانچ گھنٹے اپنی کارروائی جاری رکھی گئی۔ کارروائی کیا تھی؟ جیل میں موجود اپنے تمام ساتھیوں کو انہوں نے زندانوں سے باہر بلا کر اپنے ساتھ بٹھایا۔ ایک میگا فون پر قید میں پڑے مجاہد کا نام پکارا جاتا۔ جب اس کے پہنچنے کی اطلاع آتی‘ تو اس سے اگلا نام پکارا جاتا۔ اس طرح فہرست کے مطابق تمام قیدیوں کو جمع کر لیا گیا‘ جو اڑھائی سو کے قریب تھے۔ اس کے بعد وہ مجرم طلب کئے گئے‘ جنہیں سزائے موت دینے کا فیصلہ پہلے سے کیا جا چکا تھا اور موقع پر موجود مجاہدین نے فراہم کی گئی فہرست کے مطابق اپنے مجرم جمع کئے۔ اطمینان سے ان کی گردنیں کاٹیں اور چلتے بنے۔ دہشت گردوں کااپنے اور پاکستانی علاقے پر کنٹرول قابل رشک ہے۔ میں نے ہنڈوراس کی جو خبر اوپر درج کی ہے‘ مجھے وہاںکے قیدیوں کی مثال قابل تقلید نظر آئی۔ وہ اپنی جیلوں کا انتظام خود چلاتے ہیں۔ حکومت پر کوئی بوجھ نہیں۔ اگر ہم بھی اپنی جیلوں کا نظم و نسق دہشت گردوں کے حوالے کر دیں‘ تو ہمارے بہت سے اخراجات بچ جائیں گے۔ دہشت گرد اپنے فرائض بڑی ذمہ داری اور تندہی سے ادا کریں گے۔ رہ گیا ان کے آنے جانے کا مسئلہ تو ہم پہرے لگا کر کونسا انہیں اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں؟ وہ صرف اسی وقت تک جیل کے اندر رہتے ہیں‘ جب تک ان کا دل چاہتا ہے اور جب اکتا جاتے ہیں‘ تو اطمینان سے رہا ہو کر چلے جاتے ہیں۔ جب جیل میں آنا جانا ان کے لئے اتنا آسان ہے تو پھر ان کی نگرانی پر اخراجات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب تک دہشت گرد جیل میں رہیں‘ وہ دوسرے قیدیوں کو سنبھالتے رہیں اور جب ان کے جانے کا وقت آئے‘ تو وہ جیل کی ذمہ داریاں نئے آنے والے دہشت گردوں کے سپرد کر دیں۔ ملک بھر میں ان کے اسلام پسند حامیوں کی ایک بہت بڑی تعداد‘ ان کی حمایت کرتی ہے۔ کئی شہروں کا انتظام وہ پہلے ہی سنبھال چکے ہیں اور اگر مزید شہروں کا بندوبست ان کے حوالے کر دیا جائے‘ تو امن و امان کی حالت یقینا آج کے مقابلے میں اچھی ہو جائے گی۔ کیوں نہ کراچی کا نظم و نسق دہشت گردوں کے حوالے کر کے‘ غنڈوں اور بھتہ خوروں سے نجات حاصل کی جائے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved