تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     23-02-2022

سب سے بڑا فسادی ہوں

حکمران ہوں یا افراد‘ غلطیوں سے نہیں بلکہ غلطیوں پر اصرار اور ضد سے تباہ ہوتے ہیں۔ ضد نہ صرف واپسی کے راستے مسدود کر دیتی ہے بلکہ ازالے اور مداوے کے آپشنز بھی ختم کر ڈالتی ہے۔ خدا جانے سربراہ حکومت نے ریاستِ مدینہ کو چشمِ تصور میں دیکھنے کے بعد گورننس اور فیصلہ سازی کی باگ ڈور کن ہاتھوں میں تھما دی۔ ذاتی مصاحبین اور رفقا کی ضد اور شوق کی تکمیل کے لیے اہم ترین قومی اداروں کو نت نئے تجربات اور ناموافق پالیسیوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا‘ اور دلفریب بریفنگز کے ساتھ حقائق کو بھی بری طرح مسخ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ گورننس اور میرٹ کے معانی ہی بدل ڈالے ہیں۔ اس طرزِ حکمرانی کے اثرات اور نتائج پر تنقید اور تبصروں سے گھبرائی ہوئی سرکار نے آزادیٔ صحافت پر کاری ضرب لگا کر ماضی کے حکمرانوں کی ایک اور روایت کو نہ صرف دوام بخشا ہے بلکہ ان کے اکثر ریکارڈ ریکارڈ مدت میں توڑ ڈالے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ جعلی خبر یں انتشار اور افراتفری کے ساتھ ساتھ اکثر عدم استحکام کا باعث بھی بنتی ہیں۔ ان کی حوصلہ شکنی ضرور ہونی چاہئے۔ ہر تنقید پورا سچ نہیں ہوتی بالخصوص سوشل میڈیا پر چلنے والی اکثر خبریں ذاتی خواہشات اور کھلی آنکھ سے دیکھے خوابوں کا استعارہ ہوتی ہیں؛ تاہم اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ سنجیدہ اور مثبت تنقید کے ساتھ ساتھ طرزِ حکمرانی سے برآمد ہونے والے نتائج اور حالات پر رپورٹنگ اور تبصرے کو بھی جعلی قرار دینے کے لیے حکم جاری کر دیے جائیں۔ کبھی طاقت کے زور پر تو کبھی استحقاق کے نام پر خود کو شجرِ ممنوعہ یا مقدس گائے تصور کرنے والے حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سبھی کا ایک ہی مائنڈسیٹ رہا ہے۔ کیا یہ اسی طرح چلتا رہے گا؟ کئی دہائیوں سے مخصوص خاندان ہر دور میں قائد اور وفاداریوں کی تبدیلی کے ساتھ شریکِ اقتدار چلے آرہے ہیں۔ ایجنڈے اور دھندے گزشتہ سے پیوستہ ہوں تو نہ کبھی تبدیلی آسکتی ہے اور نہ ہی اس کی امید کی جا سکتی ہے۔ نہ طرزِحکمرانی بدل سکتی ہے نہ ہی ان کا مائنڈ سیٹ۔
جعلی خبر پر محاسبہ اور جواب طلبی ضرور ہونی چاہئے لیکن سچی خبرکا سامنا اور برداشت کا حوصلہ بھی کرنا چاہئے۔ تحریک انصاف کو کنٹینر سے برسر اقتدار لانے تک ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کا ناقابلِ تردید کردار فراموش کرنے والے آج اسی سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ جھوٹی خبر پر پانچ سال قید کا آرڈیننس لانے والے جھوٹے وعدوں کے لیے بھی کوئی حکمنامہ لائیں جن کا چند فیصد بھی پورا نہ ہوسکا۔ ان دعووں اور وعدوں سے منحرف ہونے والوں کے لیے بھی کوئی قانون ہونا چاہئے جوعوام سے کیے گئے تھے۔ ان مشیروں کا بھی احتساب ہونا چاہئے جن کی اہلیت نامعلوم اور کارکردگی صفر ہے۔ انرجی سیکٹر میں اندھے گڑھوں اور گہری کھائیوں میں اضافہ کرکے رفوچکر ہونے والے مشیر ہوں یا احتساب کے نام پر ملک بھر میں تماشا لگانے والے‘ سب کا۔ گمراہ کن اعدادوشمار کے ساتھ الفاظ کا گورکھ دھندا کرکے سرکاری وسائل اور بھاری تنخواہوں پر موج کرکے چھومنتر ہونے والے مشیروں نے تو اتنا مہنگا احتساب کیا کہ سبھی اسیران سستے چھوٹ گئے۔ قوم کے ساتھ اس کھلواڑ سمیت دیگر وزیروں اور مشیروں کے ذاتی ایجنڈوں اور دھندوں کے علاوہ بے وفائیاں اور وعدہ خلافیاں کس کھاتے میں؟
طرزِ حکمرانی اور من مانی کے اثرات اور نتائج کا سامنا کرنے سے گھبرائے ہوئے رہنما کاش کبھی عوام کے استحقاق کیلئے بھی اکٹھے ہوتے۔ عوام کیلئے آواز اٹھائی ہوتی جو اِن کے دعووں اور وعدوں میں آ کر ہر بار مینڈیٹ دے بیٹھتے ہیں۔ ہوشربا مہنگائی ہو یا شہری سہولیات‘ ان سبھی سے بے نیاز عوامی نمائندوں کو عوام کی حالتِ زار پر تو کبھی رحم نہ آیا۔ اپنے ضمیر پر کیسا کیسا بوجھ اٹھائے اسمبلیوں میں سج دھج کر آ بیٹھتے ہیں۔ عوام سے وعدہ خلافیوں اور بد عہدیوں میں ڈوبے ہر دور میں صرف اپنے آپ سے رومانس کرتے ہیں۔ لوٹ مار کی داستانیں ہوں یا دیگر سکینڈل‘ یہ انہیں اپنا استحقاق سمجھ کر نازاں اور شاداں دکھائی دیتے ہیں۔ ایوان کے اندر بیٹھ کر اپنی دنیا سنوارنے کی دھن ہو یاذاتی ایجنڈے‘ ایک دوسرے پر الزام تراشی ہو یا دست و گریباں ہونے کے واقعات‘ دشنام طرازی ہو یا تند و تیز جملوں کا تبادلہ‘ الغرض عوامی مسائل سے بے نیازی کے سبھی مناظر کو قانونی تحفظ دینے کیلئے‘ کیا حلیف کیا حریف‘ سبھی ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مفادات کے جھنڈے تلے ہمیشہ اکٹھے نظر آتے ہیں۔
صحافی برادری سے یکجہتی کا اظہار کرنے والی اپوزیشن جماعتیں نئے بہروپ کے ساتھ سیاست کی رونق بڑھا رہی ہیں جبکہ ان سبھی کے ہاتھ بھی برابر کے رنگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے دورِ اقتدار میں قلم اور کیمرے کے ساتھ کم و بیش یہی سلوک روا رکھا۔ ہمیشہ صحافت کو تابع کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ گزشتہ برس پنجاب اسمبلی نے بھی استحقاق بل پاس کروا کے صحافیوں کوکھلا پیغام دیا تھا کہ اب ادھر جھانکنے والوں کو سزا اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا‘ لیکن صحافی برادری کے احتجاج اور اصولی موقف کے آگے سپیکر اسمبلی کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے کئی بل پاس کروانے والے بعدازاں بلبلاتے ہی دکھائی دئیے۔ ضیاالحق کی سنسرشپ سے لے کر کوڑوں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے تک ان گنت تمغے بھی صحافی برادری کے سینوں پر چمک رہے ہیں۔ اسی طرح مشرف دور میں میڈیا ہائوسز پر پابندیاں اور ریاستی دبائو بھی کوئی پرانی بات نہیں تھی۔ نواز شریف کا دور ہو یا بینظیر بھٹو کا‘ پرویز مشرف کا یا آصف زرداری کا‘ سبھی نے طرزِ حکمرانی پر مثبت تنقید کو پرسنل اٹیک ہی تصور کیا۔
گزشتہ رات ایک محفل میں ایک دوست جو بڑے سرکاری افسر بھی ہیںانتہائی متفکر ہوکر مجھے مشورہ دے رہے تھے کہ بھئی حکومت پکڑ دھکڑ پر آگئی ہے تم بھی اپنا خیال کرو‘حکمرانوں کے بارے میں لکھتے ہوئے اب احتیاط کرنا۔ میںنے جواباً کہا کہ اللہ مالک ہے‘ جس طرح چراغ بجھنے سے پہلے بھڑکتا ہے اسی طرح کارکردگی سے محروم حکومتیں ہر دور میں ایسے آرڈیننس اور قانون لاتی رہتی ہیں لیکن حکومتیں چلی جاتیں ہیں‘ قانون ختم ہو جاتے ہیں اور قلم چلتا رہتا ہے۔ کالے کرتوتوں کو چھپانے کے لیے ایسے کالے قانون پہلی مرتبہ نہیں آئے۔ میں کالے کو سفید اور اندھیرے کو اُجالا کیسے لکھ دوں‘ کالے کرتوت اور اندھیر نگری میں پھیلے ان اندھیروں کو اُجلا سویرا کیسے کہہ سکتا ہوں؟
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
چلتے چلتے منو بھائی کے ساتھ ضیاالحق کے دور میں پیش آنے والا ایک واقعہ پیش کرتا چلوں۔منو بھائی کا کالم'' گریبان‘‘ حکمرانوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھا اور اکثر گراں گزرتا تھا۔ایک تقریب میں ضیاالحق نے حکومتی موقف کے دفاع میں اپنے دلائل دینے کے دوران سامنے موجود منو بھائی کو اشارتاً مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب میں کس کا گریبان پکڑوں؟ منو بھائی بھلا کہاں چوکتے تھے‘برملا بولے کہ گریبان تو وردی اور پوشاک کا ہوتا ہے‘ ہمارے تن پر تو کچھ بھی نہیں‘ ہم تو بے لباس ہیں‘ ہمارا کیا پکڑ سکتے ہیں۔ اس تناظر میں حکمرانوں سے طرزِحکمرانی پرنظرثانی کی استدعا کے ساتھ عرض ہے کہ گریبان شیروانی کا بھی ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved