تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     23-02-2022

ایک عظیم اُستاد

دنیا میں ہر طرح کے انسان اپنی زندگی گزارتے اور اس کے بعد اس دنیائے فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔اچھا انسان مرنے کے بعد بھی اپنے کردارو عمل کے ذریعے زندہ رہتا ہے۔ جو لوگ صحیح طریقے سے زندگی گزارنے کے بجائے برے افعال میں اپنے آپ کو مبتلا کیے رکھتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں اور انسانوں کے حقوق کو ادا نہیں کرتے‘ وہ یا تو قصۂ پارینہ بن جاتے ہیں یا مرنے کے بعد بھی برے الفاظ سے یاد کیے جاتے ہیں۔ بعض لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھنے کی وجہ سے تاریخ کو ایک نیا رنگ عطا کر دیتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی آخری کتاب کو نبی کریمﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل فرمایا۔ یہ کتاب رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہدایت کی ایک عظیم دستاویز ہے۔ اس کتاب میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے عقائد، عبادات، معاملات، سیاسیات اور زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق انسانوں کی کامل رہنمائی کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کو انسانوں کے لیے دستور العمل بنایا اور کتابِ حمید کے ساتھ وابستگی کو انسانوں کے لیے باعثِ فلاح و نجات قرار دیا ہے۔ کتاب اللہ کے ہم پر مختلف حقوق ہیں‘ جن کی آگاہی حاصل کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ جو شخص کتاب اللہ کے حوالے سے عائد کردہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے یقینا وہ ہر اعتبار سے لائقِ تحسین ہے۔ کتاب اللہ کا ہم پر پہلا حق یہ ہے کہ ہمارا اس پر پختہ یقین اور ایمان ہونا چاہیے۔ جو شخص کتاب اللہ پر پختہ یقین اور ایمان رکھتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے معاملات کو سنوار دیتے ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ محمد کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور وہ ایمان لائے اس (قرآن) پر جو نازل کیا گیا محمد ﷺ پر‘ اور وہی حق ہے ان کے رب کی طرف سے‘ (اللہ نے) دور کردیں ان سے ان کی برائیاں اور ان کے حال کی اصلاح کر دی‘‘۔
کتاب اللہ کا دوسرا حق یہ ہے کہ ہم اس کی تلاوت کریں اور اس کا التزام زندگی کے ماہ وسال میں کریں۔ بالعموم ایک مسلمان رمضان المبارک میں قرآنِ کریم کی تلاوت کرتا اور باقی سال قرآنِ مجید کی تلاوت سے غافل رہتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا کہ جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں‘ درحقیقت وہی اس پر ایمان لاتے ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 121میں ارشاد ہوا: ''وہ لوگ‘ جنہیں ہم نے دی کتاب تورات یا انجیل‘ وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں‘ جو اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے (یقینا) وہی لوگ ایمان لاتے ہیں اس قرآن پر۔ اور جو انکار کرتا ہے اس (قرآن ) کا ‘تو وہی لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں‘‘ ۔
کتاب اللہ کا تیسرا حق ہم پر یہ ہے کہ ہم اس پر عمل کریں۔جو صحیح معنوں میں کتاب اللہ پر عمل کرتے ہیں وہ لوگ ہر اعتبار سے قابلِ قدر ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں علمائے یہود کا ذکر کیا جو تورات کو پڑھنے کے بعد اس کے پیغامات کو فراموش کر دیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے علماء کو گدھے کی مانند قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ جمعہ کی آیت نمبر 5میں ارشاد فرماتے ہیں: ''مثال (اُن لوگوں کی) جو تورات کا بوجھ ڈالے گئے‘ پھر انہوں نے اس (کی تعمیل) کے بوجھ کو نہ اُٹھایا‘ گدھے کی مثال کی طرح ہے۔ (جو بڑی بڑی) کتابیں اُٹھائے ہوئے ہو‘ بُری ہے مثال ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور اللہ (زبردستی) ہدایت نہیں دیتا ظالم لوگوں کو‘‘۔
قرآنِ مجید کا ہمارے اوپر یہ بھی حق ہے کہ ہم اس پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تبلیغ کریں۔ جو لوگ قرآنِ مجیدکے پیغام کی تبلیغ کرتے ہیں وہ بہت خوش نصیب ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے انبیاء کرام علیہم السلام اور حضرت رسول اللہﷺ کی تعلیمات کے وارث کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے ذمہ ابلاغ کی ذمہ داری لگائی تھی؛ چنانچہ وہ لوگ جو قرآنِ مجید کا ابلاغ کرتے ہیں‘ درحقیقت وہ انبیاء کرام علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے کتاب اللہ کے حق کو ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ کتاب اللہ کے ابلاغ کے ساتھ ساتھ اس کے قیام کی جستجو کرنا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مائدہ میں اس بات کا ذکر کیا کہ جو لوگ تورات، انجیل اور اس کے بعد نازل ہونے والی کتاب کے قیام کی کوشش کریں گے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو اوپر سے بھی رزق دے گا اور ان کے نیچے سے بھی رزق دے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 66میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور اگر بے شک وہ قائم رکھتے تورات اور انجیل کو اور جو نازل کیا گیا اُن کی طرف اُن کے رب کی طرف سے‘ (تو) ضرور وہ کھاتے (اللہ کا رزق) اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے، ان میں سے ایک گروہ میانہ رو ہے اور بہت سے ان میں (ایسے ہیں کہ) بُرا ہے جو وہ عمل کرتے ہیں‘‘۔
ان تمام کے تمام حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے جہاں انسان کا کتاب اللہ کے ساتھ تمسک اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے‘ وہیں ایسے اساتذہ کا ہونا بھی معاشرے کے لیے انتہائی ضروری ہے جو قرآنِ مجید کی تعلیم دینے والے ہوں۔ نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ ''تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن مجید کو سیکھتا اور سکھلاتا ہے‘‘۔ قرآنِ مجید کو سیکھنے اور سکھلانے والے لوگ معاشرے کے لیے یقینا باعثِ رحمت اور سکینت ہیں اور قرآنِ پاک کی تعلیم اور تعلم کے لیے وقف ہونا یقینا ہر اعتبار سے لائقِ تحسین ہیں۔ قرآنِ مجید کی تعلیم دینے والے کسی شخص کا دنیا میں رہنا یقینا دنیا والوں کے لیے فائدہ مند ہے اورایسے شخص کا دنیا سے رخصت ہو جانا بھی یقینا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ قاری ادریس العاصم کا شمار بھی ان نیک بخت لوگوں میں ہوتا تھا جنہوں نے اپنی پوری زندگی قرآنِ مجیدکی تعلیم اور اس کے فروغ اور نشرواشاعت کے لیے وقف کیے رکھی۔ آپ علوم القرآن پر دسترس رکھنے والے ایک مایہ ناز استاد تھے۔ کئی عشروں تک آپ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے قرآنِ مجید سے متعلق علوم وفنون کو سیکھا اور لوگوں کو سکھلایا۔ قاری ادریس العاصم طویل مدت تک لسوڑے والی مسجد شیرانوالہ کے ساتھ ملحق مدرسے میں تجوید، قرأت اور علومِ قرآن کی نشر واشاعت کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ مجھے بھی قاری ادریس العاصم کے پاس بیٹھنے ‘ اُٹھنے کا موقع ملا۔ میں نے ایف ایس سی کی چھٹیوں کے بعد اپنے حفظِ قرآن کی ابتدائی تعلیم جامعہ لسوڑے والی سے ہی حاصل کی تھی۔ وہیں نمازوں کی ادائیگی کے دوران قاری ادریس العاصم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقع ملتا رہا۔ میں نے قاری صاحب کو ہمیشہ قرآنِ مجید سے وابستہ دیکھا۔ وہ فجر کی نماز سے لے کر عصر کی نماز تک جامعہ لسوڑے والی میں براجمان رہا کرتے تھے اور آپ سے بیسیوں طلبہ قرآنِ مجید سے متعلق علوم وفنون کو سیکھا کرتے تھے۔
قاری ادریس العاصم کی طبیعت میں دھیما پن تھا‘ چہرے پر ہر وقت ایک تبسم کی کیفیت رہا کرتی تھی اور آپ اپنے شاگردوں کے ساتھ غیر معمولی شفقت کیا کرتے تھے۔ قاری ادریس یقینا ایک بلند پایہ استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ذکر‘ اذکار اور تلاوتِ قرآنِ مجید میں منہمک رہنے والے باعمل انسان بھی تھے۔ آپ کی عملی کیفیت کو دیکھ کر بھی انسان کے دل میں قرآنِ مجید کی محبت پیدا ہوجاتی۔ مجھے قاری صاحب کے ساتھ علم وعمل کی وجہ سے والہانہ وابستگی تھی۔ جب بھی میں آپ سے ملتا‘ اپنے دل میں فرحت اور انبساط کو محسوس کرتا۔ قاری ادریس العاصم کچھ روز قبل بجلی کے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے شدیدمتاثر ہوئے اور چند روز بعد اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ اپنی وفات سے چند روز قبل آپ میرے غریب خانے پر تشریف لائے تھے اور ماضی کی بہت سی یادوں کو تازہ کرنے موقع ملا تھا۔ قاری ادریس کی اچانک دنیا سے رحلت نے جہاں ان کے شاگردوں اور حلقۂ احباب پر گہرے اثرات مرتب کیے‘ وہیں اس عظیم انسان کی رحلت کو میں نے بھی اپنے دل ودماغ میں بڑے گہرے طریقے سے محسوس کیا۔ قاری ادریس العاصم کی نمازِ جنازہ مینارِ پاکستان گراؤنڈ میں ادا کی گئی جس کی امامت حافظ مسعود عالم نے کرائی۔ حافظ مسعود عالم کی امامت میں ہونے والے اس جنازے میں قاری صاحب سے وابستہ ہزاروں شاگرد، طلبہ اور قرآنِ مجید سے محبت کرنے والے لوگ شریک ہوئے اور سب نے خلوص دل سے قاری صاحب کے لیے دعائے مغفرت کی۔
قاری صاحب کے دنیا سے چلے جانے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا زمین پر کچھ پہاڑ کم رہ گئے ہیں‘ یا زمین کا سینہ سمٹ کر رہ گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قاری ادریس العاصم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے اور جو شمع انہوں نے جلائی تھی‘ اسے فروزاں رکھنے کی توفیق دے، آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved