تقریباً 20 کروڑ کی آبادی تک پہنچے ہوئے اس ملک کے باسیوں کو اس کے رہبروں نے پچھلے خصوصاً پچیس، تیس سالوں میں روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی بے چینی اور دکھوں میں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ کون سا دکھ ہے جو اس ملک کے باسیوں کو نصیب نہیں ہوا؟ کون سا غم ہے جس نے اس دھرتی پہ رقص بپا نہیں کیا؟ کون سا ظلم ہے جسے اس زمین پر کھل کھیلنے کا موقع نہیں ملا۔؟ کون سی توہین ہے جس کے تازیانے پاکستانیوں پر نہیں برسے؟ کون سی تذلیل ہے جس کا ذائقہ عام پاکستانیوںنے نہیں چکھا؟؟؟کوئی مانے نہ مانے مگر پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اس ملک کے مستقبل سے مایوس ہو کر رہ گئی ہے۔ نفسیاتی طور پر انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ وہ اعتماد جو فرد اور قوموں کو آگے لے کر جاتا ہے چِھن چکا ہے۔ خیال تھا کہ نئی گورنمنٹ کے آنے سے شاید کچھ خیر کی خبریں آئیں گی۔مگر بقول فیض وہی … کتھے دھونس پولس سرکار دی اے کتھے دھاندلی مال پٹوار دی اے ایویں ہڈاں وچ کلپے جان میری جیویں پھاہی وچ کونج کرلاندی اے پولے کھاندیاں وار نہ آندی اے سو عام آدمی کی اس الیکشن کے بعد بھی کم ازکم آج کے دن تک وہی زندگی ہے جو اس الیکشن سے پہلے تھی بلکہ شاید بدتر۔خیر کی خبریں صرف ان کے لیے ہیںجو انتہائی غیر سرکاری ہونے ،کوئی حکومتی عہدہ اور ذمہ داری نہ رکھنے کے باوجود چین اور سعودی عرب کے سرکاری دوروں پر ہمراہ لے جائے جاتے ہیں۔ آہوں سسکیوں سے لبریز ،خون میں لت پت، انتہا پسندی، ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان، بھتے کی پرچیوں،بدامنی، بے انصافی اور کرپشن میں لتھڑا پاکستان ،پاکستانیوں کے لیے ناکام ریاست نہ سہی ایک ایسی ریاست ضرور بن چکا ہے جہاں ہر گزرتے لمحے ان کی خواہشوں، خوابوں اور آرزوئوں کی تکمیل کے بجائے تذلیل ہوا کرتی ہے، توہین ہو اکرتی ہے اور بے چارے ہر لمحہ حالات وبدامنی کی ٹھوکریں کھانے کے باوجود اپنی اس توہین وتذلیل پر کوئی ’’سو موٹو‘‘ ایکشن لینے کا اختیار بھی نہیں رکھتے۔ جس الیکشن کو عوام اپنا الیکشن سمجھ رہے تھے ان میں سے ایک بڑی تعداد اب اس الیکشن کو’’ سلیکشن‘‘ کہتی نظر آتی ہے… کوئی مایوسی سی مایوسی ہے… کوئی ویرانی سی ویرانی ہے… کوئی بربادی سی بربادی ہے… صرف عام آدمی پر ہی اکتفا نہیں ،بڑے بڑے طاقتور بیوروکریٹس، سیاستدان، بے شمار بزنس مین دوہری شہریت رکھے بیٹھے ہیں…کیوں…؟ اسی لیے کہ ایک خوف ہے، ایک مایوسی ہے، ایک بے اعتباری ہے، اس ریاست پر، ایک بے یقینی ہے اس مملکت پر، سو عام غریب آدمی کو چھوڑ کر جس جس کے پاس ذرا بھی طاقت ہے وہ یا تو اس ملک سے فرار ہو چکا ہے یا فرار کا کوئی رستہ تلاش کر کے بیٹھا ہے کہ جب جان بچا کر نکلنے کا وقت آئے تو دِقت نہ ہو۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ ملک صرف کمانے کا ذریعہ ہے لوٹ کر مال بنانے کی جنت ہے… رہنے کے لیے دوزخ… سچ پوچھیں تو جو ذرا بھی صاحبِ اختیار ہے وہ نہ پاکستان میں رہنا چاہتا ہے، نہ عام پاکستانیوں کے ساتھ مرنا چاہتا ہے۔ جو پاکستان کی راہنمائی اور اس سے درد مندی کا دعویٰ کرتے ہیں ان کا بھی اپنا کچھ بھی پاکستان میں نہیں۔ اشرافیہ، انٹیلیجنشیا،اُمراء، طاقت ، اہلیت، اور سہولت رکھنے والے بے شمار پاکستانی پاکستان سے پاکستانی ریاست سے پاکستان کے مستقبل سے مایوس نظر آتے ہیں۔اگر کوئی مایوس نہیں ہے تو وہ عام ریڑھی بان، مزدور، نائی، بڑھئی، موچی، چند ہزارو روپے کمانے والا مجبور پاکستانی مایوس نہیں جس کے آبائو اجداد کی قبریں اس دھرتی پہ ہیں اور جو میری اور آپ کی طرح اپنے پرکھوں کی اسی زمین میں دفن ہونا چاہتا ہے۔ تمام تر ظلم تمام تر درد سہنے کے باوجود ہر طرح کی توہین وتذلیل برداشت کرنے کے باوجود اگست آتا ہے تو سینے پر اور گھر کی چھت پر پاکستان کا جھنڈا سجا دیتا ہے۔ سو آج کا کالم پاکستان کو لوٹنے و الے کسی ’’دلیر ‘‘ کیلئے نہیں ہر اس عام پاکستانی کیلئے جس کا جینا مرنا پاکستان ہے صرف پاکستان! تحریر کا ہر لفظ اس عام پاکستانی کے نام جو پاکستان کو آج بھی پروردگار کی رحمت وبرکت و عنایت سمجھتا ہے زحمت نہیں، جس کے لیے پاکستان مال بنانے کے لیے جنت اور رہنے کے لیے دوزخ نہیں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved