سیاسی کھچڑی پک رہی ہے۔ دیگ چولہے پر چڑھا دی گئی ہے۔ کوئی چاول کا دانہ لایا ہے تو کوئی دال کا۔ کسی نے چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں اکٹھی کی ہیں، تو کسی نے دیگ کا بندوبست کیا ہے۔ بڑے جغادری سیاسی باورچی اب تمام مسالے تیار کر کے دیگ میں ڈال چکے ہیں۔ چولہے کی آنچ کبھی کم اور کبھی تیز کی جا رہی ہے تاکہ دیگ پک کر تیار ہو تو اس کا ذائقہ سب کی زبان پر چڑھے۔ دیگ میں شامل اجزا کو بڑے باورچی باری باری کف گیر سے ہلا جلا کر دیکھ رہے ہیں کہ سب درست انداز میں یکجا ہو رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں انتہائی رازداری سے کام بھی لیا جا رہا ہے۔ دیگ کا منہ ڈھکن سے بند ہے، صرف سینئر سیاسی باورچی ہی وقفے وقفے سے ڈھکن اٹھا کر دیکھ رہے ہیں کہ دیگ چولہے سے اتار کر کب بانٹنی ہے۔
اپوزیشن پہلے بھی کئی بار اپنی سیاسی کھچڑی پکانے کی کوشش کر چکی ہے تاہم اس سے پہلے جتنی بار یہ کوشش کی گئی تو خوب ہڑبونگ مچائی گئی۔ جلسے جلوسوں میں رونق لگائی گئی اور حکومت کے جانے کی تاریخیں بھی دی گئیں۔ اب کی بار جو ہو رہا ہے اس میں سب سے اہم بات صرف خاموشی ہے۔ اپوزیشن رہنما میڈیا کے سامنے آتے ہیں‘ بات کرتے ہیں چلے جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ فروری کے آغاز سے اب تک مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے سرکردہ رہنما آپس میں کئی بار ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ اپوزیشن کے یہی رہنما حکومت کی اتحادی جماعتوں اور ناراض ارکان سے بھی رابطوں میں ہیں۔ ان ملاقاتوں کے بعد روایتی طور پر کوئی پریس کانفرنس نہیں کی گئی بلکہ ملاقاتوں کا اعلامیہ ہی جاری کیا گیا۔ رازداری کا یہ عنصر بتاتا ہے کہ سیاسی کھچڑی کی دیگ میں کچھ ایسے مسالے ضرور ڈالے گئے ہیں جن کا ذائقہ حکومت کے لیے تلخ ہو سکتا ہے۔ تا دم تحریر یہ دیگ کتنی پک چکی ہے اس کا تو علم نہیں‘ البتہ اس کی خوشبو اب حکومتی کیمپوں تک بھی جا پہنچی ہے۔ شہر اقتدار اسلام آباد کی بات کریں تو کیمروں کے سامنے کھڑے ہونے والے حکومتی ترجمان ابھی تک تو ایسی ملاقاتوں کو کرپٹ ٹولے کا اجتماع قرار دے رہے ہیں، وہ بظاہر پُر اعتماد نظر آنے اور یہ تاثر قائم رکھنے میں مصروف ہیں کہ سب اچھا ہے۔ ان کے مطابق ناراض ارکان کی ناراضی ایسی نہیں کہ کوئی بڑی بغاوت ہو جائے۔ اتحادیوں کے تحفظات بھی دور کئے جائیں گے، اپوزیشن نہ جانے کتنی بار حکومت جانے کی تاریخیں دے چکی ہے، اب کی بار عدم اعتماد کی کوشش بھی کر کے دیکھ لے، انہیں ناکامی کا سامنا ہی کرنا پڑے گا، حکومت اپنی مدت پوری کرے گی‘ تمام اہم سٹیک ہولڈر ایک پیج پر ہیں، اس لیے اپوزیشن کی دیگ پھیکی پڑ جائے گی وغیرہ وغیرہ‘ لیکن پاور کوریڈورز تک رسائی رکھنے والے ''واقفان حال‘‘ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں بارش اور خنکی میں اضافے کے باوجود سیاسی گرمی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کپتان کی کابینہ میں شامل کھلاڑی اندر خانے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ وہ ناصرف آپس میں بلکہ اپنے دوست صحافیوں کے حلقے میں بھی اس کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ پریشان بھی ہیں۔ صرف سیاستدان ہی نہی، سردیوں کے موسم میں ہیٹر چلا کر اپنے کمروں کو گرم رکھنے والے سرکاری بابو بھی موجودہ سیاسی صورت حال کا جائزہ لینے، اس پر سیر حاصل بحث کرنے اور پھر اپنا اپنا تجزیہ پیش کرنے میں مصروف ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت سے ہمدردی رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے 41 مہینوں میں اپوزیشن سیاسی طور پر حکومت کے لیے کبھی کوئی بڑی پریشانی کا باعث نہیں بن سکی۔ حکومت کے لئے کوئی مسئلہ پیدا کرنا تو دور کی بات ہے، اپوزیشن تو عوام کو کسی ایک ایجنڈے پر اکٹھا بھی نہیں کر سکی۔ دوسری طرف بہت سے لوگوں کے خیال میں مہنگائی اور بے روزگاری کے شکار عوام، اب تنگ آ گئے ہیں، آٹا، چینی، گھی، سبزی، دال کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے اس مہنگائی کے طوفان کو شدید کر دیا ہے، بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی عام آدمی کے لیے سوہان روح ہیں اور وہ اس ساری صورت حال کا ذمہ دار تبدیلی سرکار کی بیڈ گورننس کو دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے ان اقدامات نے عوام کی اکثریت کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ اس موقف کو کمزور بنانے کے لئے حکومتی ترجمان یہ بیانیہ لے کر چل رہے ہیں کہ مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں پوری دنیا میں ہے، اس کو حکومت کی نااہلی نہیں قرار دیا جا سکتا۔
حکومتی ترجمان چاہے جتنے بھی دعوے کریں، سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں میں کچھ ایسا ضرور ہوا ہے کہ جس نے اپوزیشن کو ایک پیج پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدم اعتماد کی کھچڑی انتہائی اعتماد کے ساتھ تیار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں باضابطہ واپسی تو نہیں ہوئی؛ تاہم اب سب ایک پیج پر ہیں اس لیے 27 فروری کو جب پیپلز پارٹی اپنا لانگ مارچ شروع کرے گی تو پی ڈی ایم اس کا استقبال کرے گی۔ اپوزیشن کے ایک پیج پر ہونے کا اشارہ بلاول بھٹو زرداری پشاور میں واضح انداز میں دے چکے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین کا ماننا ہے کہ مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ میں اچھی اکثریت رکھتی ہے‘ ایسے میں تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں اگلا وزیر اعظم مسلم لیگ (ن) کا ہو گا۔ بلاول بھٹو نے یہ بھی اعتراف کیا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو بھی پریشانی کی بات نہیں ایک بار پھر کوشش کریں گے۔ مولانا فضل الرحمن چند دن پہلے جب میڈیا کے سامنے آئے تھے تو تب انہوں نے بھی واضح کیا تھا کہ سندھ کے علاوہ مرکز، پنجاب، بلوچستان، خیبرپختونخوا جہاں موقع ملا تحریک عدم اعتماد لائی جائے گا۔
''واقفان حال‘‘ کے مطابق مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی قیادت اب یہ جزئیات طے کر رہی ہے کہ عدم اعتماد کہاں سب سے پہلے لائی جائے۔ ملاقاتوں اور رابطوں کے سلسلوں میں تیزی اس بات کا اشارہ کر رہی ہے کہ سیاسی کھچڑی کافی حد تک پک چکی ہے، دیگ کو جلد چولہے سے اتارنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد انتہائی باخبر سیاست دان ہیں؛ تاہم وہ بھی سیاسی منظر نامے پر انتشار اور خلفشار دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے وارننگ دی ہے کہ سیاسی عمل کو کوئی بڑا دھچکا لگا تو اس کی ذمہ دار اپوزیشن ہو گی۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اگر اپوزیشن نے اپنے کارڈز چھپا کر رکھے ہیں تو عمران خان بھی اپنے پتے شو نہیں کر رہے۔ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو بھی مشورہ دیا کہ اپنے پرانے ساتھی جہانگیر ترین سے رابطہ کریں؛ تاہم انہوں نے یہ مشورہ میڈیا پر آ کر دیا۔ ایسے مشورے عموماً علیحدگی میں رازداری سے دئیے جاتے ہیں، سیاسی منظر نامے پر کچھ نہ کچھ لکھا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو اسے تحریر کر رہے ہیں، کچھ اس تحریر کو صاف صاف پڑھ رہے ہیں اور رازداری سے کام لے رہے ہیں۔ باقی سب انتظار میں ہیں کہ کب دیگ چولیے سے اترے، ڈھکن ہٹے اور کھچڑی کا مزہ چکھا جائے۔ ایسے میں ''امپائر‘‘ کا غیر جانبدار ہو جانے کا تاثر دینا اپوزیشن اور اتحادیوں کو قریب لا کر کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔