تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     24-02-2022

سرخیاں، متن اور اوکاڑہ سے علی صابر رضوی

تحریک عدم اعتماد کے حق میں 172سے
زائد ووٹ پڑیں گے: محمد زبیر
سابق گورنر سندھ اور مسلم لیگ نواز کے رہنما محمد زبیر نے کہا ہے کہ ''تحریک عدم اعتماد کے حق میں 172 سے زائد ووٹ پڑیں گے‘‘ جنہیں ہم کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ یہ بہت زیادہ ہیں اور ہم یہ تحریک مناسب ووٹوں سے کامیاب کرنا چاہتے ہیں جبکہ اتنے زیادہ ووٹوں سے بدہضمی بھی ہو سکتی ہے؛ اگرچہ معدے ماشاء اللہ لکڑ ہضم‘ پتھر ہضم سے بھی آگے جا چکے ہیں جس کا اندازہ دورانِ اقتدار بسیار خوری سے بھی لگایا جا سکتا ہے حالانکہ کوئی پھکی وغیرہ بھی استعمال نہیں کی جاتی تھی‘ دراصل یہ معدے خاص ترکیب سے بنائے گئے ہیں جس کے آثار و شواہد اندرون و بیرونِ ملک‘ ہر جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
اپوزیشن اپنے ارکانِ اسمبلی کی خبر لے
جو غائب ہو جاتے ہیں: فرخ حبیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن اپنے ارکان اسمبلی کی خبر لے‘ جو غائب ہو جاتے ہیں‘‘ حتیٰ کہ ہمارے ان ارکانِ اسمبلی کی بھی خبر نہیں ملتی جو اندر خانے اپوزیشن سے ملے ہوئے ہیں‘ اس لئے شرافت اور خوش اخلاقی کا تقاضا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت‘ دونوں ایسے ارکانِ اسمبلی کی اطلاع ایک دوسرے کو دے دیں؛ اگرچہ ہمارے ایسے ارکانِ اسمبلی کی فہرستیں اپوزیشن کے پاس پہلے سے ہی موجود ہیں جو اپوزیشن کے ساتھ ساز باز کیے ہوئے ہیں اور جن کا ہم اپنے طور پر بھی سراغ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ انہیں راہِ راست پر لایا جا سکے جن کا اپنا خیال یہ ہے کہ وہ اب ہی راہِ راست پر آئے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریکِ گفتگو تھے۔
پی ٹی آئی ممبران کو دھمکیاں مل رہی ہیں کہ حکومت
کے خلاف ووٹ نہ دیں: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی ممبران کو دھمکیاں مل رہی ہیں کہ حکومت کے خلاف ووٹ نہ دیں‘‘ جبکہ ہم ایسا نہیں کر رہے اور اپنے ایسے ممبران کی منت سماجت کر رہے ہیں کہ پہلے ہی ہمارے پلّے کچھ نہیں‘ اس لیے ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں جنہوں نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ ساتھ نبھانے کی پوری کوشش کریں گے ورنہ ہم اُنہیں دھمکی دیں بھی تو کس بات کی کیونکہ ہمارے پاس اُنہیں دینے کے لیے ہے ہی کیا جبکہ پیسے بھی ہم بہت احتیاط سے خرچ کر رہے ہیں کہ مستقبل میں پیسے آنے کی کوئی امید بھی نہیں ہے اس لیے اُن سے نیکی کے طور پر ہی تعاون کی درخواست کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
ممبرز پورے تھے تو اپوزیشن دربدر ٹھوکریں
کیوں کھا رہی ہے: حسان خاور
وزیراعلیٰ پنجاب کے معاونِ خصوصی اور حکومت پنجاب کے ترجمان حسان خاور نے کہا ہے کہ ''ممبرز پورے تھے تو اپوزیشن در بدر ٹھوکریں کیوں کھا رہی ہے؟‘‘ شاید اس لیے کہ ان کے پاس کھانے کے لیے کوئی اور چیز ہے ہی نہیں جبکہ ہماری پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں اور یہ سارے کا سارا گھی بھی ہم نے ٹیڑھی نہیں بلکہ سیدھی انگلیوں سے نکالا ہے اور عوام کی دُعاؤں سے ہم سب کے منہ میں گھی شکر ہے؛ اگرچہ زیادہ تر ذیابیطس کے مریض ہیں لیکن قوم کی خدمت کرتے ہوئے ہم کسی بیماری کی بھی پروا نہیں کرتے؛ اگرچہ بعض مخالفین کے بقول حکومت بھی ایک بیماری کی طرح قوم کو لاحق ہے ؛تاہم خدا سے قوم کو شفا کی توقع ہی رکھنی چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور سے اپوزیشن رہنماؤں کے بعض بیانات کا جواب دے رہے تھے۔
آئین، قانون، جمہوریت کے دفاع کی جنگ
پوری قوت سے لڑیں گے: مریم اورنگزیب
ترجمان مسلم لیگ نواز‘مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''ہم آئین، قانون اور جمہوریت کے دفاع کی جنگ پوری قوت سے لڑیں گے‘‘ جبکہ ایک منتخب حکومت کو کام نہ کرنے دینا‘ اُس کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جانا اور اسے گرانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے سے بڑھ کر آئین، قانون اور جمہوریت کے دفاع کی جنگ اور کیا ہو سکتی ہے لیکن اس کے باوجود آئین، قانون اور جمہوریت کو ہمارا کوئی خیال نہیں اور ہم ان کے دفاع کی جنگ میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور سب اطمینان سے اپنی موجیں مان رہے ہیں اور ہماری روز بروز بڑھتی ہوئی غربت کا بھی انہیں کوئی خیال نہیں جسے دُور کرنے کے لیے ہمیں کسی کی ضرورت نہیں اور اس کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں جبکہ کمی صرف اقتدار کی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پیکا آرڈیننس کے خلاف ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں اوکاڑہ سے علی صابر رضوی کی غزل:
بے چہرگی سے چہرہ چھپا کر کھڑا رہا
میں آئنے سے آنکھ بچا کر کھڑا رہا
وہ خوف تھا کہ آنکھ اُٹھائی نہ جا سکی
سینے میں کوئی حشر اُٹھا کر کھڑا رہا
دریا نے میرے کُشتوں کے پُشتے لگا دیے
میں ساحلوں پہ خواب سجا کر کھڑا رہا
ہر صبحِ نو خراج ہے اُس شخص کے لیے
جو بام پر چراغ جلا کر کھڑا رہا
پاؤں زمیں کی تہہ میں اُترتے چلے گئے
میں آسمان سر پہ اُٹھا کر کھڑا رہا
کشتی بنائی جائے گی اب اُس کو کاٹ کر
جو پیڑ مجھ سے ٹیک لگا کر کھڑا رہا
کھڑکی میں جس چراغ کا پہلا ظہور تھا
ہر سایہ اُس کو آڑ بنا کر کھڑا رہا
آج کا مطلع
چلو اتنی تو آسانی رہے گی
ملیں گے اور پریشانی رہے گی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved