بین الاقومی منظر نامے پر روس اور یوکرائن کا معاملہ طول اختیار کر گیا ہے جس کے باعث تیل کی قیمتیں عدم استحکام کا شکار ہیں۔ یورپ کو گیس کی سپلائی متاثر ہونے لگی ہے۔ امریکا اور یورپ کے معاشی ماہرین اسے عالمی معیشت کے لیے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی تو اسے جلد ختم کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ یوکرائن کے معاملے پر روس کا پیچھے ہٹنا تقریباً ناممکن ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ روس یوکرائن کو اس کی مرضی کے مطابق اپنے داخلی فیصلے کرنے کی اجازت کیوں نہیں دے رہا؟ کیوں عالمی امن کو ایک ملک کے لیے دائو پر لگایا جارہا ہے؟ اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وجوہات معاشی کے ساتھ سیاسی بھی ہیں۔ صدر پوتن نے روسی عوام کو متحدہ روس کا خواب دکھا رکھا ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اسے دوبارہ جوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنانے کا یقین دلایا گیا ہے۔ اس معاملے پر وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ صدر پوتن کے طویل دورِ اقتدار کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ آذربائیجان، ترکمانستان، قازقستان، بیلا رس سمیت تقریباً تمام وسطی ایشیا کی ریاستیں روس کی مرضی کے تحت کام کرتی ہیں۔ ان کی پالیسیوں پر روس کا اثر واضح دکھائی دیتا ہے لیکن 1991ء میں یوکرائن کے آزاد ہونے کے بعد سے اب تک وہاں روس کا معاشی اور سیاسی کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ 2014ء کی روس‘ یوکرائن جنگ کے بعد سے حالات زیادہ کشیدہ ہیں۔ شاید یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہتا لیکن یوکرائن کے نیٹو فورسز میں شامل ہونے کی خواہش نے صدر پوتن کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اگر یوکرائن نیٹو میں شامل ہو گیا تو متحدہ روس کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ امریکا یوکرائن کے ذریعے بہ آسانی روس پر حملہ آور ہو سکے گا جبکہ یوکرائن کے نایاب اور قیمتی معدنی ذخائر بھی امریکا کے قبضے میں چلے جائیں گے۔ اس کے علاوہ روس‘ یوکرائن پچھلی جنگ نے صدر پوتن کی حکومت کو کافی سیاسی فائدہ بھی پہنچایا تھا۔ روسی عوام نے اس جنگ کی کامیابی پر صدر پوتن کو بھاری اکثریت سے دوبارہ کامیابی دلائی تھی۔ روس میں عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کر چکی ہے کہ کسی بھی قیمت پر یوکرائن کو روس کا حصہ بنایا جائے۔ ان حالات کے پیش نظر صدر پوتن کے لیے یہ جنگ لڑنا اور جیتنا انتہائی ضروری دکھائی دیتا ہے لیکن اس کا گہرا اثر عالمی معیشت کے ساتھ ساتھ خود روس پر بھی پڑ سکتا ہے۔ تیل اور گیس کی سپلائی بند ہونے سے روسی برآمدات پر فرق پڑ سکتا ہے۔
2020ء میں روس چار فیصد کے ساتھ یورپ کو اشیا کی برآمدات کے حوالے سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک تھا۔اسی طرح درآمدات میں بھی تقریباً ساڑھے پانچ فیصد کے ساتھ پانچواں بڑا ملک تھا۔ جرمنی روس کے ساتھ تجارت کے حوالے سے سب سے بڑا یورپی ملک ہے۔ 2021ء کے دستیاب اعدادو شمار کے مطابق روس یورپی یونین کو سالانہ 188 ارب ڈالر کی اشیا برآمد کرتا ہے۔2014ء اور 2015ء کی روس‘ یوکرائن جنگ کی وجہ سے روسی برآمدات اور درآمدات میں تیزی سے گراوٹ دیکھی گئی تھی۔ یہی صورتحال 2022ء میں بھی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکا اور یورپ کی جانب سے روس پر پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔ جرمنی نے ''نارڈ سٹریم 2‘‘ گیس پائپ لائن منصوبہ ختم کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ آسٹریلیا نے روس پر پابندیوں کا اعلان ہونے کی صورت میں ان کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چینی میڈیا کے مطابق جاپان نے بھی روس پر پابندیوں کی ڈیمانڈ کی ہے‘ حتیٰ کہ چین نے بھی یوکرائن کے معاملے کو سفارتکاری اور گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی تجویز دی ہے۔
عالمی رہنمائوں کی روس‘ یوکرائن معاملے پرپریشانی واضح ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم اس مدعے کو لے کر کہاں کھڑے ہیں۔ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے کیا تجاویز دیتے ہیں۔ گو کہ روس اور پاکستان کے تعلقات ماضی میں زیادہ اچھے نہیں رہے اور یوکرائن کو روس سے علیحدہ کرانے میں پاکستان کا کردار سب سے زیادہ اہم تھا لیکن پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے جس کے پاس دنیا کی بہتر معیشت تو نہیں لیکن بہترین فوج اور جنگی حکمت عملی موجود ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم عمران خان کا روس جانے کا فیصلہ بہت سے سوالوں کو جنم دے رہا ہے۔ کیا اس دورے کے ذریعے امریکا کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان کو کمزور نہ سمجھے؟ برا وقت آنے پر روس بھی پاکستان کی معاشی کمر کو سہارا دینے کے لیے کھڑا ہو سکتا ہے۔ جنگ کے ماحول میں چین کے حق میں بیانات کے بعد روس کا دورہ دنیا کو یہ پیغام دیتا دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان کی معیشت اور مالی پالیسی کمزور ہو سکتی ہے لیکن خارجہ پالیسی بہترین ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتوں کی ساتھ تعلقات متوازن رکھنے میں پاکستان ید طولیٰ رکھتا ہے اور دنیا کو اس معاملے میں پاکستان سے سبق سیکھنا چاہیے۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی برآمدات کی بڑی منڈی امریکا اور یورپ ہیں۔ ایک کمزور فیصلہ پاکستان کے لیے مالی مشکلات کو بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔ امید ہے کہ دورۂ روس کے دوران کوئی غیر ضروری بیان نہیں دیا جائے گا اور یہ دورہ کامیاب رہے گا۔ ممکنہ طور پر پاکستان روس سے ایک ارب ڈالر قرض لے سکتا ہے۔ دورۂ روس کے کیا معاشی نتائج سامنے آتے ہیں‘ ان کا علم جلد ہی ہو جائے گا لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ حکومتی حلقوں میں عوام سے سونا ادھار لینے کا منصوبہ بھی زیرِ غور ہے۔شنید ہے کہ اس منصوبے کے تحت حکومت عوام سے سونا لے کر اانہیں منافع کے عوض ایک سرٹیفکیٹ جاری کرے گی جسے دکھا کر وہ کسی بھی بینک سے قرض لے سکیں گے۔ حکومت اس سونے کو ڈالر ذخائر میں تبدیل کرکے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھے گی تا کہ پاکستان میں ترسیلاتِ زر کی صورتحال بہتر ہو سکے۔ پاکستانی ڈالر ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں‘ سعودی عرب سے لیاہوا تین ارب ڈالر کا قرض‘ سکوک بانڈز سے حاصل کیا گیا ایک ارب ڈالر اور آئی ایم ایف سے لیا گیا ایک ارب ڈالر‘ یہ کل ملا کر تقریباً پانچ ارب ڈالر بنتے ہیں جو پچھلے دو ماہ میں ترسیلاتِ زر کو بہتر بنانے کے لیے ادھار لیے گئے لیکن نہ ترسیلاتِ زر میں استحکام آ رہا ہے اور نہ ڈالر کی قیمت پر کوئی قابو ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ جب پانچ ارب ڈالر کا قرض ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے مددگار ثابت نہیں ہو سکا تو عوام سے بھاری شرحِ سود پر سونا لے کر معاشی حالت کو کس طرح درست کیا جا سکتا ہے؟ یہاں میں بتاتا چلوں کہ سرکار پہلے ہی بیرونِ ملک پاکستانیوں سے روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کے ذریعے تین ارب ڈالرز سے زائد رقم پاکستان منگوا چکی ہے اور مختلف سکیموں کے ذریعے تقریباً 7 فیصد تک شرحِ سود ڈالرز پر دی جارہی ہے۔ عوام سوچتے ہیں کہ جب اس رقم سے معیشت کو سہارا نہیں ملا تو سونا ادھار لینے سے کس طرح مدد مل سکے گا۔ اس سکیم کے تحت سرکار سونے کے زیورات نہیں لے گی بلکہ سونے کے بسکٹوں کے عوض سرٹیفکیٹ جاری ہوں گے۔ پاکستان میں سونے کی خالص بار عمومی طور پر سونے کا کاروبار کرنے والے افراد کے پاس ہوتی ہیں‘ جو کسی ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں۔ سکیم یہ ہے کہ سونے کو ڈکلیئر کرنے کے لیے پہلے ایمنسٹی سکیم لائی جائے‘ اس کے بعد ڈکلیئر شدہ سونے کو سنیاروں سے ادھار لیا جائے لیکن اس معاملے میں کامیابی ملنا مشکل ہے کیونکہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 4600 ٹن سونے کے بسکٹ ہیں اور 35ہزار 8 سو سنیاروں میں سے صرف 50 سیلز ٹیکس کے حوالے سے ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ عوام سرکار پر اعتماد کر کے اسے سونے کے بسکٹ بطورِ قرض دیں گے یا نہیں‘ اس بارے میں کوئی بھی دعویٰ قبل از وقت ہے؛ تاہم امید کی جارہی ہے کہ منافع کی شرح اچھی ہونے کی صورت میں ممکنہ طور پر عوام حکومت پر اعتماد کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں۔