کچھ تو خیال ہے‘ پُرانی ختم کب ہوئی تھی۔ سوویت یونین ٹوٹی‘ کمیونزم کا غلبہ ختم ہوا‘ مشرقی یورپ کی ریاستیں آزاد ہوکر مغرب کا حصہ بن گئیں اور امریکہ نے فتح کے جشن منائے۔ نئے نظریات سامنے لائے گئے اور پُرانے مغربی نظریۂ حیات کی تصدیق کے ترانے لکھے جانے لگے۔ 'لبرل ازم زندہ باد‘ کے نعروں کی گونج دنیا کے ہر کونے میں سنی جانے لگی۔ صدر بش سینئر تھے جنہوں نے 'سٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب میں نئے عالمی نظام کی نوید سنائی تھی۔ پُرانا ختم‘ نیا شروع۔ نئے نظام میں امریکہ کو کوئی حریف نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ تقریباً تیس سال پہلے کی بات ہے۔ تب چین کی ترقی کی منزلیں ابتدائی مرحلوں میں تھیں اور امریکی منڈی سے وابستہ۔ روس زخم خوردہ‘ پریشان حال اور شاندار ماضی کے غم میں اپنی نئی شناخت کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ گوربا چوف اور بورس یلسن نے یکے بعد دیگرے روس کی عالمی حیثیت کو آسمان سے اتارکر حقیقت پسندی کی زمین پر لانے کی کوشش میں خفیہ طاقتور حلقوں میں ہلچل مچارکھی تھی۔ روسی ریاست کا انتظامی ڈھانچہ تووہی تھا جو سوویت یونین کے دور میں تھا۔ اپنے تاریخی دھارے میں زاروں کے زمانے سے روس پھیلا اور سوویت یونین بنی‘ ایک وسیع سلطنت اور عالمی طاقت کے طورپر ابھری‘ مگروہ مغرب کے جمہوری‘ آئینی اور آزاد رو نظریات سے کوسوں دور رہی۔ روس کی تاریخی شناخت نظام کے حوالے سے ہمیشہ آمرانہ رہی ہے۔ اس میں غالب رنگ روسی قومیت پرستی کا رہا‘ جس میں عسکری طاقت بنیادی عنصر تھا‘ اور اب بھی ہے۔ نظام کا بحران پیدا ہوا تووہ اتنا بڑھ چکا تھاکہ اس کا توازن سنبھل نہ پایا۔ نظام سے جڑے پُرانے طاقتور حلقے سوچتے رہ گئے کہ آخرکیا ہوا؟ اس موضوع پر روس اور مغرب میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ہرطرح کی باتیں ہیں‘ جو سرد جنگ کے زمانے میں بھی کہی جا رہی تھیں کہ کمیونزم انسان کی آزاد فطرت سے متصادم ہے‘ جبر‘ تشدد اور خوف کا راج تھا‘ اور لوگوں کے دل و دماغ میں اس کیلئے جگہ نہ بن سکی۔ سوویت یونین ٹوٹی تو اندر سے ہی تھی‘ مگر اس کے اسباب صرف اندر نہ تھے۔ توسیع پسندانہ پالیسیاں‘ دفاعی اخراجات‘ ہرجگہ ٹانگ اڑانے کی روش اور افغانستان کا معرکہ۔ آٹھ سالہ جنگ نے بھی اسے نفسیاتی طورپر مفلوج کردیا تھا۔ سوویت یونین کے دوست ہمارے ہاں بھی کہتے تھے کہ جہاں روس گیا‘ وہاں سے کبھی نکلا نہیں۔ ہنگری اور چیکوسلواکیہ کی مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ کس بیدردی سے انہوں نے فوجی چڑھائی کرکے ''بغاوت‘‘ کوکچل دیا تھا۔ افغانستان میں روس خود کچلا تو نہیں گیا تھا‘ مگر افغانوں کو کچلنے کی بیکار جنگ میں زخم بہت گہرا لگا تھا۔ بہت خون ریاست کا بہا تھا اور جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔
ریاست کے خفیہ اداروں میں سے موجودہ صدر پوتن نکلے اور روسی قومیت پرستی کا جھنڈا اٹھا کر ملک کو ایک بار پھر عظیم طاقت بنانے کی گردان کرنے لگے۔ مغرب کی کوشش تھی کہ روس کو مغرب کا حصہ بنایا جائے۔ سرمایہ دارانہ نظام‘ آزادیاں‘ میل جول اور لین دین میں اضافہ اس قدر ہوکہ باہمی انحصاریت روس کو مغربی معیشت اور معاشرت میں جکڑدے۔ پوتن اور ان کے اردگرد موجود قومیت پرستوں کی ترجیحات کچھ اورتھیں۔ طاقت کے ذریعے اردگرد کے ممالک میں پُرانا اثرورسوخ بحال کرنا اولین مقاصد میں سے تھا۔ مشرقی یورپ تو ہاتھ سے نکل چکا تھا‘ مگر جارجیا اور یوکرائن تو سرحدوں پہ تھے۔ وہاں روسی آبادکاروں اور حکومت مخالف لسانی دھڑوں کو ساتھ ملاکر لشکرکشی کی۔ جارجیا کے خلاف جارحیت کو دنیا نے ہضم کرلیا‘ مگر یوکرائن کی بات کچھ اورہے۔ ابھی تو کشمکش کا دوسرا مرحلہ ہے‘ اور فیصلہ کن بھی ہوسکتا ہے۔ روس بھرپور حملہ کرے گا یا اندر سے سیاسی تبدیلی لاکر ماسکو نواز قیادت پیدا کرے گا‘ یا پھر علیحدگی والی نئی چھوٹی ریاستیں بنانے پر اکتفا کرے گا؟ یہ وہ سوال ہیں جو اس وقت زیرِ بحث ہیں۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ صدرپوتن یورپی یونین اور نیٹوکے بڑھتے ہوئے سائے کو یوکرائن سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ اوراس کے حلیف ''بعداز سرد جنگ‘‘ کے یورپی سلامتی کے نظام کے توازن کواپنے حق میں برقرار رکھنے پہ تُلے ہوئے ہیں۔ دونوں جانب سے صف بندی ہے‘ مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت روس کے ساتھ کون کھڑا ہے۔ ایک طرف امریکہ اوریورپ کی طاقت‘ دوسری طرف روس مجھے تنہا دکھائی دیتا ہے۔ پابندیاں پہلے سے بھی ہیں‘ مگر جن کا آغاز اب کیا جارہا ہے‘ روس کی معیشت بری طرح متاثر ہونے کے واضح خدشات موجود ہیں۔ پہلی سرد جنگ کا 'وارسا پیکٹ‘ توہوا میں تحلیل ہوگیا‘ مگر نیٹو کی عددی اور عسکری طاقت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
اب عالمی طاقت کے توازن میں ایک تیسرا فریق ابھر کرسامنے آیا ہے۔ وہ ہے‘ ہمارا دوست ملک چین۔ زمانے نے کیا کیا کروٹیں لی ہیں کہ ایک وہ وقت تھا جب چین سوویت یونین کی طرف امداد کیلئے دیکھتا تھا‘ اب وہ وقت ہے کہ مغرب کی پابندیوں کے پیشِ نظر روس کیلئے کھلا راستہ چین بحیثیت دوسری بڑی عالمی معیشت ہے۔ کچھ عرصہ سے‘ بلکہ چند سال پہلے سے نئی سرد جنگ کا حوالہ تو ابھرتا ہوا چین تھا‘ مگر اب روس بھی اس میں شامل ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ دونوں کے نظام آمرانہ‘ شخصی اور آزادروی کے مغربی نظریوں کے خلاف ہیں۔ مغربی دانشور حلقوں اور میڈیا میں پُرانی سرد جنگ والی باتیں دہرائی جارہی ہیں کہ انسانی حقوق کا ان ملکوں میں براحال ہے‘ حزبِ اختلاف تو سانس ہی نہیں لے سکتی‘ بلکہ منظم طریقے سے حکومت مخالف آوازوں کودبا دیا جاتا ہے۔ میڈیا آزاد نہیں اور جمہوریت کے پرندے کا وہاں داخلہ ممنوع ہے۔ بیانیہ یہ پُرانا ہے مگراس کی تشریح نئے رنگ اورزیادہ موثر ذرائع ابلاغ سے ہورہی ہے۔ چین پربھی کچھ پابندیاں ہیں اوراس کے خلاف تو جنوب مشرقی ایشیا میں نیا اتحاد قائم کیا جا چکا ہے‘ جس میں ہمارے پڑوسی بھارت نے بھی موقع شناسی سے کام لیتے ہوئے امریکہ کے ساتھ تزویراتی رشتے پکے جوڑ لئے ہیں۔ ویسے عالمی سیاست میں سب رشتے کچے دھاگوں سے بندھے ہوتے ہیں۔ قومی مفاد سے رشتہ پکا ہوتا ہے۔ راتوں رات دوست دشمن اوردشمن دوست بن جاتے ہیں۔ کل کی توبات ہے۔ امریکہ کی افغان جنگ کی گھن گرج اس خطے میں ہر طرف سنائی دیتی تھی۔ آخر کار پسپائی اختیارکی۔ اچھا کیا کہ جنگ کو ختم کیا اور گھرکا راستہ لیا۔ ہمارے لئے ہوا وہی جس کا ذکر ہم اکثر اپنی علمی اور پالیسی ساز اداروں کی نشستوں میں کرتے تھے‘ کہ امریکہ جب جائے گا تو بس ایسے جائے گا‘ جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ بہت سے لڑاکا افغان حلیفوں کو تو ساتھ اڑا کرلے گیا‘ بہت ہیں کہ وقت اور موقع کے انتظارمیں ہیں‘ مگر تاریخ کب اپنے آپ کودہراتی ہے۔
ایک بات تو طے ہے کہ امریکہ ہم سے بہت ناراض ہے‘ اپنی شکست اور ہزیمت کے اسباب تلاش تو وہ کہیں اور بھی کررہا ہے مگر پاکستان تو بالکل سامنے ہے اور جو بیانیہ جنگ کے دوران تھا‘ وہی دہرایا جارہا ہے۔ ہم اپنی اندرونی تقسیم‘ سیاسی لڑائیوں اور موقع پرستانہ سیاست کی بدولت بہت کمزور ہوچکے ہیں۔ ہمارے سیاسی کھلاڑیوں کی گرم جوشیاں‘ پُرتکلف عشائیوں پر عشائیے‘ مذاکرات پہ مذاکرات‘ محلاتی سازشیں اور توڑپھوڑ کی سیاست‘ یہ سب خلا میں تو نہیں ہو رہا۔ کوئی برہم‘ کوئی ناراض‘ کسی کو خدشات‘ نزدیک اور دور‘ ہیں۔ ایسی روس مغرب کشیدگی کی فضا میں عمران خان کے روس کے دورے اور اس سے پہلے کئی دفعہ افغان جنگ کے حوالے سے بیانات نے تاک میں بیٹھے شکاریوں کے حوصلے بلند کئے ہیں۔ یہ رابطوں کی دنیا ہے۔ اتحاد ہمارے رشتوں کی طرح کہیں آسمان میں بنتے ہیں۔ ستاروں کی گردش کے زمینی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہونے میں‘ بہت کچھ سات پردوں میں ہوتا ہے۔ نئی سرد جنگ دیکھتے ہیں کیا رنگ بکھیرتی ہے۔