کوئی بھی کام کسی واضح مقصد کے بغیر کیا جائے تو بیکار دکھائی دیتا ہے۔ کسی سے بھی پوچھ دیکھیے کہ مقصد کے بغیر کچھ کرنا چاہیے تو جواب نفی میں ملے گا مگر یہ بات بس کہنے کی حد تک ہے! ہم‘ آپ اپنے ماحول میں اکثریت اُن کی دیکھتے ہیں جو پوری کی پوری زندگی کسی واضح مقصد کے تعین کے بغیر گزار دیتے ہیں اور اِس صریح خسارے کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ لکھنا ایک ایسا فعل ہے جو صرف ذاتی تشفی کا سامان نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو بھی بہت کچھ دیتا ہے۔ لکھنے سے دوسروں کو کچھ بھی اُسی وقت مل سکتا ہے جب کوئی واضح مقصد متعین کیا جائے اور فکر کو مثبت رجحانات کے دائرے میں رکھا جائے۔ اب لکھنے کی بھی آسانی ہے اور لکھے ہوئے کو پھیلانے کی بھی۔ ایسے میں لازم ٹھہرا ہے کہ بہت سوچ سمجھ کر‘ پوری توجہ اور احتیاط کے ساتھ لکھا جائے۔
ایک دور تھا کہ لکھنے والوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کسی خاص موضوع پر لکھتے وقت اعداد و شمار آسانی سے نہیں مل پاتے تھے۔ ابلاغ کے ذرائع محدود تھے۔ متعلقہ ٹیکنالوجی آئی نہیں تھی۔ محض ریڈیو اور کسی حد تک ٹی وی پر انحصار تھا۔ ریڈیو کے ذریعے بہت کچھ سُننے کو ملتا تھا اور لکھنے والے ریڈیو کے خبرناموں اور تجزیوں کے کلیدی نکات لکھ کر اپنے لیے کچھ بہتر لکھنے کی راہ ہموار کرتے تھے۔ ایسی حالت میں لکھنے پر بہت محنت کرنا پڑتی تھی کیونکہ پڑھنے والے بھی کسی نہ کسی امید کے تحت پڑھتے تھے۔ وہ معیار سے گری ہوئی یا طے کردہ ڈگر سے ہٹی ہوئی چیز پسند نہیں کرتے تھے۔ آج معاملہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی لکھ ماریے، بہت سے لوگ پڑھ ہی لیتے ہیں اور سراہتے بھی ہیں! تب ایسا نہیں تھا۔ لوگ لکھنے والے کو خوب پرکھتے تھے۔ اگر وہ معیار پر پورا نہ اترتا تو اُسے پڑھنا چھوڑ دیتے تھے۔ لکھنے والوں کو بعض نکات بتائے جاتے تھے تاکہ وہ لکھتے وقت قارئین کی پسند و ناپسند کا خیال رکھیں۔ پھر ایڈیٹنگ ہوتی تھی۔ آج نفسِ مضمون کو چھیڑنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ لکھنے والوں کا معاملہ یہ ہے کہ اگر اُن کے کسی جملے کو درست کرنے کی کوشش کی جائے تو بُرا مان جاتے ہیں۔ تب ایسا نہیں تھا۔ اگر کسی کی تحریر میں رہ جانے والا نقص دور کیا جاتا تھا تو وہ نہ صرف یہ کہ بُرا نہیں مانتا تھا بلکہ شکریہ ادا کرتا تھا۔ آج یہ جذبہ ناپید ہے۔
خیر فی زمانہ لکھنا بہت آسان اور بہت مشکل ہے۔ آسان اس حوالے سے کہ اب کوئی بھی لکھ سکتا ہے‘ شائع کرسکتا ہے۔ اگر کسی جریدہ میں شائع نہ ہو تو مضمون کو از خود نوٹس کے تحت بھی شائع کیا جاسکتا ہے یعنی ڈیسک ٹاپ پبلشنگ کی راہ پر گامزن ہوا جاسکتا ہے۔ ای جرنلنگ عام ہے۔ بلاگز اور وی لاگز کے ذریعے انٹرنیٹ پر سرفنگ کرنے والوں کو کچھ بھی پڑھایا اور سُنایا جاسکتا ہے۔ لوگ جو کچھ بھی جی میں آئے‘ لکھ مارتے ہیں اور پھیلانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ اچھی بات ہے کہ لوگ کسی نہ کسی طور لکھنے کی طرف آئے ہیں۔ جو لکھ نہیں پاتے وہ بولنے پر گزارہ کرتے ہیں۔ آڈیو فائل اُن کی مشکل آسان کردیتی ہے۔ اگر کوئی پڑھ نہیں سکتا تو سُن کر بہت کچھ پاسکتا ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر ایک بات کا دھیان رہے کہ سوچے سمجھے بغیر کچھ بھی لکھنے یا ریکارڈ کرکے پیش کردینے سے بات نہیں بنتی۔ جب لکھنا ہی ٹھہرا تو کیوں نہ پوری توجہ کے ساتھ لکھا جائے؟ اگر آڈیو یا وڈیو فائل کے ذریعے دنیا کو کچھ دینا ہے تو تھوڑی بہت تیاری کرنے میں کیا حرج ہے؟ آج ادارتی صفحات پر بھی شائع ہونے والے مضامین میں گہرائی اور گیرائی نہیں پائی جاتی۔ جب وسائل کی شدید کمی تھی‘ تب لوگ لکھنے پر محنت کرتے تھے۔ آج اعداد و شمار اور بنیادی حقائق آسانی سے مل جاتے ہیں تو لوگ لکھنے پر زیادہ توجہ دینے کو تیار نہیں۔ یہ بات بہت عجیب لگتی ہے مگر کیا کیجیے کہ ایسا ہی ہے۔
فی زمانہ لکھنے کو بہت آسان کام سمجھ لیا گیا ہے اور کچھ بھی لکھ مارنے کو لکھنا قرار دینے کی ضد کی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے! لکھنا وہی کام کا ہے جو معیاری ہو، کسی کو کچھ دیتا ہو۔ جب انسان اپنے لکھے سے کسی کو کچھ فیض پہنچانے میں کامیاب ہوتا ہے تب دل کی تشفی قابلِ دید ہوتی ہے۔ فی زمانہ ایسے لکھنے والے کم ہیں جو کسی واضح مقصد کے تحت لکھتے ہوں، اپنے پڑھنے والوں کو کچھ دینا چاہتے ہوں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ محض دل پشوری کے لیے لکھتے ہیں یا اپنی ایک خاص روش قائم کرکے اُسی پر گامزن رہتے ہیں۔ اُنہیں اس بات سے بظاہر کچھ خاص غرض نہیں ہوتی کہ پڑھنے والوں کو اُن کی تحریر سے کیا ملا اور وہ کیا تھا جو ملنا چاہیے تھا۔ جب ٹیکنالوجی نے ترقی نہیں کی تھی تب اُصولی طور پر‘ جرائد وغیرہ کو قدرے غیر معیاری ہونا چاہیے تھا کیونکہ لکھنے والوں کو مطلوب اعداد و شمار آسانی سے میسر نہ تھے۔ حوالوں کے لیے بھی بہت مغز پاشی کرنا پڑتی تھی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تب اخباری مضامین، تجزیے اور کالم خاصے معیاری تھے اور لوگ بھی پڑھ کر سُکون محسوس کرتے تھے۔ آج بہت سی سہولتیں میسر ہیں مگر لکھنے والوں نے اپنی کارکردگی کا گراف بلند کرنے کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ کسی بھی موضوع پر تیاری کے بغیر‘ محض قلم برداشتہ لکھ مارنے ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ مستقل مزاجی کا فقدان ہے۔ لوگ کم وقت میں بہت کچھ لکھنا چاہتے ہیں اور جو وقت بچ رہتا ہے اُسے فضولیات میں ضائع کردیتے ہیں۔ یہ روش پڑھنے والوں کی عادت بھی خراب کر رہی ہے۔ وہ اب سطحی چیزیں پڑھنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں اگر پوری تیاری کے ساتھ کوئی چیز اُن کے سامنے آتی ہے تو بوجھل محسوس ہوتی ہے۔ یہ بالکل ایسی بات ہے کہ کسی کو غیر معیاری چیزیں کھانے کی عادت پڑ جائے تو ڈھنگ کا کھانا اُس سے ہضم نہیں ہو پاتا۔ ایسی حالت میں معیاری کھانا برا لگتا ہے اور گھٹیا کھانے ہی سے رجوع کرنے کی سُوجھتی ہے۔
میڈیا کے حوالے سے تربیت فراہم کرنے والے بیشتر اداروں میں نئی نسل کو یہ بات سکھانے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ لکھنے کا فن اُسی وقت بار آور ثابت ہوسکتا ہے جب اُس کے تمام لوازم کا خیال رکھا جائے۔ لوگوں کو سرسری اور عامیانہ سی چیزیں پڑھنے کا عادی بنانے کے بجائے معیاری چیزیں پڑھنے کا عادی بنانا ہے تو لکھنے کا معیار بلند کرنا پڑے گا۔ اِس وقت لکھنے سے متعلق ہر شعبے میں بالکل casual انداز سے کام ہو رہا ہے۔ لوگ معیار کو اہمیت دینے کے بجائے اس بات کو ترجیح دے رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طور جلد از جلد کام مکمل کرکے جان چھڑائی جائے۔ ایک ڈیڑھ صفحے کا آئٹم بھی لکھنا ہو تو وقت اور توجہ دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ کسی سے گفتگو کی جائے تو اُس کی ٹرانسپکرپشن ایسی بے دِلی سے کی جاتی ہے کہ پڑھنے والے کو لطف محسوس ہوتا ہے نہ اُسے جس کی گفتگو شائع کی گئی ہو۔ تھوڑی سی توجہ سے تحریر کو بامعنی، بامقصد، دل کش و دلچسپ اور معیاری بنایا جاسکتا ہے۔ اگر کسی کو میڈیا کی تعلیم و تربیت کے ادارے میں کچھ زیادہ سیکھنے کو نہیں مل سکا تب بھی کوئی بات نہیں۔ ''آن دی جاب ٹریننگ‘‘ بھی تو ہوتی ہے نا! انسان چاہے تو کام کے دوران بھی بہت کچھ سیکھ کر اپنے کام کا معیار بلند کرسکتا ہے۔ یہ پہاڑ کھودنے جیسی مشقت نہیں۔ ذہن کو تازہ ترین صورتِ حال، بنیادی حقائق اور اعداد و شمار سے لیس رکھنے کی صورت میں تحریر کا جاندار بنانا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہتا۔
جب انسان طے کرلے کہ اُسے کسی نہ کسی مقصد کے تحت لکھنا ہے تو پھر معیار کا بلند کرنا سہل ہو جاتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں پڑھنے کا رجحان کمزور ہوچکا ہے۔ معیاری تحریروں کے ذریعے ہی اُنہیں دوبارہ پورے ذوق و شوق کے ساتھ مطالعے کی طرف لایا جاسکتا ہے۔ اہلِ قلم اس کام کو مشن سمجھیں۔