تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     27-02-2022

یوکرائنی ماں کا المیہ

ہم جو خود کو تسلی دیئے بیٹھے ہوتے ہیں کہ اب ایسے نہیں ہوگا‘ بس جو ہونا تھا وہ ہوچکا‘ وہ سب کچھ عرصے بعد غلط نکلتا ہے۔1989 میں جب سویت یونین ٹوٹا اور سرد جنگ کا ماحول ختم ہوا تو اس وقت بھی یہی سمجھا گیا تھا اب دنیا میں سرد جنگ لوٹ کر واپس نہیں آئے گی۔ دنیا کو ایک ہی سپر پاور چلائے گی۔ جنگوں کا دور گزر گیا۔ اب امریکہ روس لڑائی بند ہوجائے گی۔ کمیونزم اور کیپٹلزم میں جاری کشمکش ختم۔ دنیا بہتر جگہ بن جائے گی۔ پراکسی جنگوں کا دور ختم ہوگا‘ لیکن جو کچھ یوکرائن میں ہورہا ہے اس سے لگتا ہے ہم سب غلط نکلے۔ ایسا کچھ نہیں ہونا تھا۔ روس کے زوال کے بعد ہی بڑی جنگیں لڑیں گئیں اور لاکھوں لوگ مارے گئے۔ روس کے بعد ہی یوگوسلاویہ میں توڑ پھوڑ ہوئی اور ہزاروں لوگ مارے گئے۔ افغانستان میں برسوں خانہ جنگی رہی اور آخرکار امریکہ نے وہاں حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ عراق، یمن، لیبیا، شام کی باری بعد میں لگی۔ مطلب یہ کہ کوئی عشرہ ایسا نہ گزرا جب دنیا کے کسی خطے میں کوئی نہ کوئی جنگ نہیں چل رہی تھی۔
کچھ برس پہلے میری اپنی ایک رشتہ دار خاتون سے افغانستان میں جاری خانہ جنگی اور اس میں مارے گئے انسانوں پر بات ہورہی تھی۔ میرا کہنا تھا: تشدد اور خونریزی انسانی فطرت میں ہے۔ ہر دور میں انسان لہو بہاتا چلا آیا ہے۔ جب ہم انسانی قاتلوں کو ہیروز بنا کر پیش کرتے ہیں جنہوں نے معصوم انسانوں کو جنگوں میں مارا تو پھر ان قاتلوں کا کیا قصور؟ آج بھی تاریخ کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیں جنہوں نے انسانی تہذیبیں ختم کیں، لاشوں کے انبار لگائے، شہر تباہ کیے‘ انہیں آج تاریخ میں بڑا فاتح سمجھا جاتا ہے۔ سکندر اور سائرس اعظم کے ساتھ گریٹ لکھا جاتا ہے۔ فہرست طویل ہے۔
جن قوموں پر انہوں نے حملے کیے، قتل و غارت کی یا جنہوں نے حملہ آور ہونے والوں کے خلاف مزاحمت کی انہیں کوئی ہیرو نہیں مانتا۔ اس کی بڑی مثال پوٹھوہار دھرتی کے ہیرو راجہ پورس کی ہے۔ ایرانی فوج سکندر کی فوج کا میدان میں سامنا کرنے کے بجائے بھاگ کر اپنے سردار دارا کا سر کاٹ لائی تھی تاکہ سکندر سے جنگ نہ لڑنی پڑے‘ لیکن جب سکندر کی فوج پوٹھوہار پر حملہ آور ہوئی تو راجہ پورس ڈٹ گیا تھا۔ جنگ میں ہار جیت ہونا الگ بات ہے‘ لیکن آج اسی راجہ پورس کو بہادر سمجھنے کے بجائے پورس کے ہاتھی کا محاورہ ایجاد کر لیا گیا تاکہ اس کے قد کاٹھ کو چھوٹا کرکے دکھایا جائے۔ آج آپ کو پورے پوٹھوہار میں راجہ پورس کی یادگار نظر نہیں آتی کہ کیسے ایک بہادر پوٹھوہاری سکندر کی فوج سے ٹکرا گیا تھا۔
بات ہورہی تھی میری خاتون رشتے دار سے بحث کی۔ جب میں نے کہا کہ یہ انسانی بربریت اتنی ہی پرانی ہے جتنا انسان خود تو انہوں نے خوبصورت بات کی تھی جس پر میں چپ کرگیا تھا۔ وہ کہنے لگیں: اگر یہ بربریت اس طرح جاری ہے جس طرح ایک ہزار یا پانچ سو سال پہلے تھی تو پھر انسان کیوں دعویٰ کرتا ہے کہ وہ تہذیب یافتہ ہوگیا ہے؟ جس دور کی آپ بات کررہے ہیں اسے ہم ڈارک ایجز کہتے ہیں اور خود کو جدید اور مہذب سمجھتے ہیں۔ پھر یہ ساری انسانی ترقی کس کام کی اگر ہم نے آج اکیسویں صدی میں بھی وہی بربریت دکھانی ہے جو ہزار سال پہلے کا انسان دکھاتا تھا۔ کیا فائدہ ہوا ترقی اور تہذیب کا‘ اگر ہمارے اندر کا وحشی پن وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ مجھے ان کی باتوں میں وزن محسوس ہوا۔
انسانی مزاج ہے یہ کہ طاقتور سے مرعوب ہوتا ہے۔ ہر انسان طاقت حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ دوسروں پر راج کرسکے۔ اپنی برتری ثابت کرنے کا جنون اسے اپنے جیسے انسانوں کا لہو بہانے پر آمادہ کرتا ہے۔ اگر انسان خود طاقت حاصل نہ کرسکے تو ان لوگوں کو اپنا ہیرو بنا لیتا ہے جو طاقتور ہوں۔ ہم خود وہی بنناچاہتے تھے نہ بن سکے تو ہم نے انہیں اپنا ہیرو بنا لیا۔
کچھ عرصہ پہلے ایک کتاب پڑھ رہا تھا جس میں مصنف نے بڑی محنت اور ریسرچ کے ساتھ یہ ثابت کیا تھاکہ اگر دیکھا جائے تو آج کی دنیا زیادہ محفوظ ہے۔ زیادہ پُرامن ہے۔ آج انسانی لہو اس طرح نہیں بہہ رہا جیسے دو تین صدیوں پہلے تک ہورہا تھا۔ وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ انسان زیادہ پُرامن ہوا ہے۔ ایک دور تھا جب کوئی سرحد نہیں ہوتی تھی۔ جس کا دل چاہتا اپنے ساتھ چند ہزار لوگ لے کر کسی بھی علاقے میں گھس کر لوٹ مار کرتا، عورتوں کو اٹھا کر لے جاتا، مردوں کو غلام بنا لیتا۔ ہر روز سرحد پر نئے حملہ آور موجود ہوتے جن کے ہاتھ میں تلواریں ہوتیں۔ جس کے پاس طاقت تھی وہی سب کچھ تھا‘ لیکن بدلتے وقت ساتھ حالات بدلے۔ ریاستیں بننا شروع ہوئیں اور ایک پُرامن دنیا نے جنم لیا۔ انسانی تکلیفیں کم ہونا شروع ہوئیں‘ لیکن یہ تکلیفیں جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم میں ہونے والی تباہی کے بعد کم ہونا شروع ہوئیں۔ دو عالمی جنگوں میں ہونے والی بربادی اور انسانی المیے نے معاشروں اور ملکوں کو پرامن بنانے میں مدد دی۔ لاکھوں لوگوں کی موت اور بربادی نے جدید انسان کو ڈرا دیا اور دنیا امن کی طرف لوٹی۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد کی دنیا بہتر تھی جب ایک کولڈوار کا منظر چھایا رہا۔ جنگوں کے بجائے پراکسی جنگوں کا کلچر ابھرا۔ انسان تو مررہے تھے لیکن بڑی جنگوں کے بجائے چھوٹی چھوٹی جنگیں لڑی گئیں۔ انسان مرنا کم ہوئے۔ کچھ عرصہ پہلے تک دنیا کے دو سو ملکوں میں سے صرف افغانستان، عراق یا شام میں جنگی ماحول چل رہا تھا‘ دنیا کے باقی دو سو ملکوں میں کوئی جنگ نہیں ہورہی تھی۔
اب ایک دفعہ پھر یورپ تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ یوکرائن پر حملہ ہوچکا۔ اس کی جو بھی وجوہ ہوں۔ اس کا ذمہ دار خود یوکرائن ہے یا روس یا امریکہ لیکن حملہ ہوچکا۔ یوکرائن کو کیا پڑی تھی کہ وہ نیٹو کی چھتری تلے جانے کی کوشش کرے؟ یورپ اور امریکہ اسے ایک نیوٹرل ملک کیوں تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے؟ یورپ اور روس کے درمیان ایک بفر ریاست۔ اسی طرح روس نے کیوں یوکرائن کو اتنا عدم تحفظ کا شکار کیا کہ وہ امریکہ اور نیٹو کی طرف دیکھے؟ روس اور امریکہ کو دنیا کو مرعوب کرنے کیلئے کبھی افغانستان تو کبھی عراق یا شام (یا اب یوکرائن) کی ضرورت پڑتی رہتی ہے تاکہ ان کی چودہراہٹ قائم رہے۔ دونوں سپر پاورز کی اپنی اپنی انا ہے، اسی کیلئے انہیں انسانی خون کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔
اگرچہ لوگ امریکہ اور نیٹو کو بزدلی اور کمزوری کے طعنے دے رہے ہیں کہ انہوں نے یوکرائن کو اکیلا چھوڑ دیا۔ روسی حملے کے جواب میں یوکرائن میں اپنی فوجیں اور جہاز نہیں بھیجے۔ کرنے کو نیٹو سب کچھ کرسکتا تھا۔ چند منٹ کا فاصلہ ہے روس نیٹو جہازوں کیلئے‘ لیکن شاید یورپ اب بھی جنگِ عظیم دوم کی تباہیوں کے نفسیاتی بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ آج بھی یورپ میں جنگِ عظیم دوم سے ہونے والی تباہیوں اور انسانی المیے پر فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ ان کی وہ نسل ابھی زندہ ہے جس نے قتل و غارت دیکھی، جو دربدر ہوئے، پیاروں کو اپنی آنکھوں سامنے دم توڑتے دیکھا۔ یورپ کا تیسری عالمی جنگ شروع نہ کرنا ان کی بزدلی سے زیادہ اس بوجھ کا نتیجہ ہے جو ان کی نسلوں نے کچھ دہائیاں پہلے WW2 میں اٹھائے تھے۔
یورپین جانتے ہیں‘ جنگ اپنی مرضی سے شروع کی جا سکتی ہے‘ مرضی سے ختم نہیں کی جا سکتی۔ انجام بھیانک ہوتا ہے۔ یہ دو سپر پاورز کا ایک ایسا کھیل ہے جس میں کبھی ایک تو کبھی دوسرے کی انا کا سوال پیدا ہوجاتا ہے۔ دونوں نے باریاں لگائی ہوئی ہیں‘ لیکن یہ بات یوکرائن کی اس ماں کو کون سمجھائے جو روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ وہ اپنے خوفزدہ چھوٹے بچوں کو چاروں طرف سے گرتے بموں کی خوفناک آوازوں اور جنگی جہازوں کی گڑگڑاہٹ میں کیا بتائے، کیا تسلی دے، کیا سمجھائے کہ اچانک یہ سب کیا ہورہا تھا اور اس بار کس کی عالمی پگ خطرے میں پڑ گئی تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved