روس کی جانب سے یوکرین پر حملے سے ثابت ہورہا ہے کہ تقریباً 3 دہائیوں تک سویا رہنے والا ریچھ اپنی توانائیاں بحال کرکے نہ صرف جاگ چکا ہے بلکہ اپنی دھاک بٹھانے کے لیے اپنے ارد گرد شکار بھی شروع کرچکا ہے۔ روس یوکرین کے شہروں اور فوجی اڈوں پر فضائی حملوں اور 3 اطراف سے فوج اور ٹینک بھیج کر اس کے دفاع کو بری طرح روند رہا ہے۔
ویسے تو پاکستان کا روس اور یوکرین کی جنگ سے کو ئی براہ راست تعلق نہیں لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین پر حملے والے دن پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی روس میں موجودگی نے تاثر قائم کیا ہے‘ جیسے پاکستان اب روس کے کیمپ میں چلا گیا ہے۔ اسی بنیاد پر وزیر اعظم کے دورۂ روس اور تحریک انصاف حکومت کی خارجہ پالیسی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ بعض تجزیہ نگار اسے ایک ٹھیک اقدام سمجھتے ہیں اور بعض تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی بے رخی کے بعد پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ علاقائی سطح پر اپنے تعلقات بہتر بنائے، اور خاص طور پر روس کے ساتھ بھی کیونکہ وہ ایک بڑی علاقائی طاقت ہے۔ حکومتی ناقدین کے مطابق خارجہ پالیسی کا اہم نکتہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض حالات میں آپٹکس بہت اہم ہوجاتی ہیں۔ جب روس ایک دوسرے خود مختار ملک پر حملہ کررہا ہے جس کے نہ صرف پاکستان سے سفارتی تعلقات ہیں بلکہ وہ پاکستان کے ساتھ تعاون بھی کرتا رہا ہے، پوری عالمی برادری یا تو اس حملے کی مخالفت کر رہی ہے یا پھر اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھے ہوئے ہے، ایسے وقت میں پاکستان کے وزیر اعظم کا وہاں موجود ہونے کا اچھا تاثر نہیں جائے گا‘ چاہے ہماری نیت کتنی ہی صاف اور اچھی کیوں نہ ہو۔ اس سوچ کے حامل تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس موقع پر حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے بہتر یہی تھا کہ وزیراعظم روس جانے سے اجتناب کرتے یا کم از کم یہ دورہ اس وقت تک کے لیے موخر کر دیتے جب تک یہ مسئلہ کسی منطقی انجام کو نہ پہنچ جائے۔
امریکا سے دوری اور روس سے قربت کی خواہش میں ہمیں کوئی ایسی حماقت نہیں کرنی چاہیے جس کی وجہ سے ہم صرف ایک ملک سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کئی دیگر عالمی طاقتوں سے تعلقات بگاڑ لیں کیونکہ یاد رکھیں کہ صرف امریکا ہی نہیں یورپی یونین بھی روس کے حملے کی مخالف کررہی ہے۔ پاکستان کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں موجود ایک طبقہ روس کے یوکرین پر اس حملے کو ایک خاص انداز میں پیش کرکے جائز ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی ذی شعور کوئی بھی جواز پیش کرکے جنگ کی حمایت نہیں کر سکتا اور دوسرا چاہے صورتحال کی جو مرضی منظر کشی کی جائے‘ حقیقت یہ ہے کہ ایک طاقتور ملک دوسرے نسبتاً کمزور ملک پر پر حملہ آور ہوا ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں سینکڑوں جانیں ضائع ہوئی ہیں اس لیے آپ کوئی بھی جواز پیش کرکے کسی صورت حملہ آور ملک کی حمایت نہیں کرسکتے۔ یاد رکھیں جتنا غیرضروری روس کا افغانستان یا امریکہ کا افغانستان پر حملہ تھا اتنا ہی غیرضروری اور ناجائز روس کی جانب سے یوکرین پر حملہ بھی ہے۔ جو تجزیہ نگار صرف اس لیے روسی حملے کی حمایت کررہے ہیں کہ ہوسکتا ہے مستقبل میں ہمیں روس کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے پڑیں، وہ شاید انسانی اقدار سے بہت دور جا چکے ہیں۔ بطور انسان ہم کسی جارح کا دفاع صرف اس لیے نہیں کر سکتے کہ ہم مستقبل میں اس حملہ آور کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
مارٹن لوتھر کنگ جونیئر لکھتے ہیں ''پُرامن مستقبل تراشنے کے لیے جنگ ناقص اوزار ہے‘‘
جنگ بے رحم اور سفاک ہوتی ہے۔ جنگ صرف ان لوگوں کے لیے خوش کن تصور رکھتی ہے جنہیں کبھی اس کا تجربہ نہ رہا ہو‘ ورنہ جو لوگ کبھی جنگ کی ہولناکیوں سے گزرے ہوں‘ وہ اس کا نام سن کر کانپ اٹھتے ہیں۔ بندوق سے نکلی گولی، بم اور میزائل برساتے جہاز، گولہ باری کرتے ٹینک کسی کا نام پتہ شناخت نہیں پوچھتے۔ آتش و آہن چشم زدن میں ہنستی کھیلتی زندگی کو موت بنا دیتے ہیں۔ جو خوش قسمتی سے بچ جائیں جسم اور روح پر لگے گھاؤ انہیں زندہ لاشیں بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ چہل پہل سے بھرپور شہر پل بھر میں کھنڈر بن جاتے ہیں۔ لوگ اپنے ہی وطن میں بے گھر ہوجاتے ہیں۔ رنگ و نسل کی مخالفت ہو یا مذہب وجہ بنے، زمین اور وسائل پر قبضے کا خواب ہو یا دوسروں کو زیر تسلط کرنے کا جنون، جنگ نے صرف خون بہایا ہے۔
روس یوکرین جنگ کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اس حملے نے مغربی ممالک کی منافقت ایک بار پھر سے عیاں کردی ہے۔ وہ ممالک جنہوں نے یوکرین کا دفاع کرنے کا وعدہ کیا تھا اس وقت صرف زبانی مذمت تک محدود ہو چکے ہیں۔ اس حملے نے مغربی ممالک اور امریکا کے بارے میں ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ قابل بھروسہ اتحادی نہیں ہیں۔
ایک بات تو طے ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ مسئلے کا حل مذاکرات کی میز پر ہی نکلے گا۔ مذاکرات کی میز پر کب آنا ہے‘ یہ طاقتور فریق ہی طے کرے گا۔ روس خطے میں اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہتا ہے۔ عالمی منظرنامے پر بھی طاقت اور اختیار کی جنگ میں خود کو اہم کھلاڑی کے طور پر منوانا چاہتا ہے۔ اب کی بار یوکرین میں مداخلت کے ذریعے روس کچھ اہداف حاصل کرنا چاہ رہا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ روس کیا چاہتا ہے؟ روس کے اس دعوے کو تو ہرگز کوئی سنجیدہ نہیں لے سکتا کہ اس نے یوکرین پر حملہ اپنے دفاع میں کیا۔ روس اور یوکرین کی فوجی صلاحیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پورا یوکرین روس کا ہدف ہے یا صرف لوہانسک اور دونیستک کو آزاد ریاست دیکھنے کے لیے یہ سارا بکھیڑا کیا گیا ہے جنہیں وہ آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان بھی کرچکا ہے۔ اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یورپ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک بڑی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ یہ بات خارج از امکان نہیں۔ اگر کوئی اور طاقت بھی لڑائی میں کود پڑتی ہے تو یوکرین ایک فلیش پوائنٹ بن سکتا ہے، جنگ پھیل بھی سکتی ہے۔
آخر میں ایک اہم مسئلے پر بات کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ روس کے حملے کے بعد جیسے لاکھوں یوکرینی شہری دربدر ہیں ویسے ہی وہاں موجود پاکستانی بھی محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ پاکستانی شہریوں کو شکوہ ہے کہ پاکستانی سفارتخانے نے انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ پہلے سفارتحانے نے انہیں دارالحکومت کیف بلایا، جب وہ لوگ اپنی بچی کھچی رقم خرچ کرکے کیف پہنچے تو سفارتخانے نے ہاتھ کھڑے کردیے اور اب دوسرے شہر ٹرنوپل جانے کا مشورہ دے دیا۔ایک اطلاع یہ ہے کہ یوکرین میں موجود تمام شہری محفوظ ہیں اور زیادہ تر طلبا کو پولینڈ منتقل کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی شہریوں نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے پاس پیسے ختم ہوگئے اور انہیں کھانے پینے تک کے حوالے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ ایک ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے شہریوں کو یوکرین سے محفوظ طریقے سے نکالے اور پاکستان واپس لے کر آئے۔