محمد اقبال ایک مدت سے خلیجی ممالک میں ملازمت کی مشکلات اٹھا رہا تھا۔ دس سال اکیلے گزرے، کچھ تنخواہ اور آسودگی بڑھی تواپنے گھر والوں کو بھی وہیں بلالیا۔ پورے گھرانے کے بہت اخراجات تھے لیکن کسی طرح پورے کرتا رہا۔ وہ تیس پینتیس سال اس پہاڑ کی چڑھائی چڑھتا اور رقم جوڑتا رہا۔ خواب یہ تھا کہ اپنے شہر میں اپنی چھت اور اپنی زمین ہوجائے۔ یہ گنجائش پیدا ہوئی تو ایک متوسط آبادی میں ایک چھوٹا سا پلاٹ لے کر ڈال دیا۔ خیال تھاکہ مزید گنجائش نکلے گی توتعمیر بھی ہوجائے گی ۔پلاٹ ایک بڑی آسودگی تھی۔ اسی آسودگی کے احساس کے ساتھ وہ دو سال بعد واپس پاکستان آیا اور پلاٹ دیکھنے گیا تو دل دھک سے رہ گیا۔ وہ پلاٹ نہیں، غلاظت خانہ تھا۔ ہرطرح کے کوڑے کرکٹ کا انبار جگہ جگہ لگا ہواتھا۔ پلاٹ کے آخری سرے پر کچھ مشکوک افراد منڈلی جمائے بیٹھے تھے جو شکل ہی سے نشئی لگتے تھے۔ پتہ چلاکہ اس خالی پلاٹ کا مطلب پورے محلے کے نزدیک فلتھ ڈپو تھا۔ سب اپنے گھروں کا کوڑا یہیں پھینک جاتے تھے یہ سوچے بغیرکہ اس کا تعفن اور اس کی بیماریاں پھر محلے والوں ہی میں گردش کریںگی۔ اقبال کے پاس یہی حل تھاکہ پلاٹ کی ایک چاردیواری بنا دے۔ اس نے اپنی چھٹیاں اسی کام میں گزاریں۔ دیوار اونچی ہونے لگی تو ٹھیکیدار نے صائب مشورہ دیا کہ اسے اتنی اونچی کیجیے کہ کوئی پھلانگ بھی نہ سکے، اور کوئی دیوار کے اوپر سے کوڑا بھی نہ پھینک سکے۔ اتنی اونچی دیوار میں خرچہ زیادہ آتا تھا لیکن اقبال نے خون کے گھونٹ بھر کر یہ کام بھی کیا۔ دیوار بن چکی اور اقبال واپس چلا گیا لیکن پلاٹ پر کوڑا پھینکنا ختم نہ ہوا۔ دائیں بائیں اور پیچھے بنے ہوئے گھروں کے لیے یہ کام آسان تھا کہ وہ اپنی چھت پر سے اس پلاٹ میں گند ڈالتے رہیں۔ اس کا کوئی حل اقبال کے پاس نہیں تھا۔ ایک ہی حل تھا کہ وہ پلاٹ بیچ دے، اور پھر پیسے جمع کرکے کسی ایسی آبادی میں پلاٹ لے جو پوش کہلاتی ہو اور جہاں یہ تکلیف نہ ہو۔ اس حل تک پہنچنے میں کئی سال اور لگ گئے اور وہ تمام رقم جو بیٹیوں کی شادیوں کیلئے جوڑی تھی‘ اسی کی نذر ہوگئی۔ یہ زندگی کی بہت سی تکلیفوں میں ایک اور تکلیف تھی اور یہ تکلیف قدرت کی طرف سے نہیں تھی‘ ان لوگوں کی طرف سے تھی جن کے درمیان وہ رہتا بستا تھا۔ یہ معاشرے کی طرف سے اپنے ہی ایک ساتھی کو دی ہوئی تکلیف تھی۔
شہباز ہکا بکا اور شرمندہ کھڑا تھا۔ کچھ دن پہلے کی الگ آزمائش تھی اور آج کی مصیبت الگ۔ کچھ دن پہلے مسئلہ یہ تھاکہ بیٹی کی شادی سرپر تھی اور شادی ہال ابھی تک بک نہیں ہوا تھا۔ لڑکے والے کم حیثیت علاقے میں شادی ہال پر راضی نہیں تھے اور شہر کے پوش علاقوں میں شادی ہال شہباز کے بس سے باہر تھے۔ شہباز نے جتنی بھی رقم اس تقریب کے لیے سوچی تھی، شادی ہال کے مطالبات اس سے کہیں زیادہ تھے۔ ون ڈش کا خرچہ بھی اس کی بساط سے باہر تھا، اس لیے کہ نہ ہال والے نہ باہر سے کیٹرنگ کے بندوبست کی اجازت دیتے تھے، نہ ہال اور سٹیج کی سجاوٹ کے لیے باہر کے کسی آدمی کو اجازت دیتے تھے۔ نہ نرخ کم کرتے تھے۔ اس معاملے میں سب ہال والوں کا ایکا تھا۔ لڑکے والوں کی خوشنودی زیادہ عزیز تھی اس لیے شہباز نے قرض لے کر بارات کی تقریب کا انتظام کیا۔ تقریب کا دن آیا اور اس وقت وہ پریشان کھڑا تھا کہ کیا کرے۔ کھانا کم پڑ گیا تھا۔ شروع میں ایک بار ڈشز بھری گئیں اور پھر بس انتظار ہی مہمانوں کے حصے میں آیا۔ میزبان بار بار ہال کے منیجر سے شکایت کرتے کہ بوفے ڈشز خالی پڑی ہیں۔ پہلے منیجر انہیں وعدوں پر بہلاتا رہا۔ پھر اس نے کہا کہ ہمارا کھانا پورا تھا، آپ کے مہمان زیادہ ہیں۔ یہ سراسر غلط بات تھی۔ مہمان اتنے ہی تھے جتنے بتائے گئے تھے لیکن ہال والے اس کام میں ماہر تھے، انہوں نے اپنا حساب کتاب لگا کر بتایاکہ 50 لوگ زیادہ ہیں۔ اس نے یہ حل بتایا کہ ایک اور تقریب کیلئے کھانا موجود ہے لیکن آپ کو اس کی رقم الگ سے دینی ہوگی۔ شہباز کے پاس نہ لڑنے کا وقت تھا، نہ بحث کرنے کا، نہ وہ تقریب کو بدمزگی کی نذر کرنا چاہتا تھا۔ اس کے پاس ایک ہی حل تھا کہ وہ یہ زائد رقم ادا کردے۔ سو اس نے ایسا ہی کیا۔ اس کی تکلیفوں میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا تھا اور یہ تکلیف قدرت کی طرف سے نہیں تھی ان لوگوں کی طرف سے تھی جن کے درمیان وہ رہتا بستا تھا۔ یہ معاشرے کی طرف سے اپنے ہی ایک ساتھی کو دی ہوئی تکلیف تھی۔ یہ تکلیف قدرتی سے زیادہ ہے، اس لیے کہ اس میں جلن کڑھن بھی زیادہ ہوتی ہے۔
منصور اپنے ہمسائے سے تنگ تھا۔ وہ کئی بار اس سے کہہ چکا تھا کہ اس کے گھر کے سامنے پارکنگ کی جگہ پر وہ اپنی گاڑی کھڑی نہ کرے‘ لیکن بار بار کہنے کے باوجود یہ مسئلہ اسی طرح تھا۔ منصور دفتر سے گھر واپس آتا تھا تواس کی گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ ہمسایوں سے الجھنا اس کا مزاج نہیں تھا‘ لیکن یہ تکلیف بھی مسلسل تھی‘ اور اب اس تکلیف میں اضافہ اس طرح ہوچکا تھاکہ وہ ہمسایہ اپنی گاڑی اس کے گھر کے سامنے کھڑی کرکے دھوتا تھا اور کیچڑ اور گندے پانی کا ایک تالاب اس کے دروازے کے سامنے بن جاتا تھا۔ روز روز لڑا بھی نہیں جاسکتا تھا اور یہ عذاب سہا بھی نہیں جاتا تھا۔ سو منصور نے وہی کیا جو ایسے میں کوئی شریف آدمی کرسکتا ہے۔ اس نے مکان بیچا اور اپنی رہائش دوسری جگہ منتقل کرلی۔ یہ زخم اس کے سینے میں رہ گیا کیونکہ یہ قدرتی تکلیف نہیں تھی۔ معاشرے کی طرف سے تھی اور اس کی جلن کڑھن اور آگ دوسری تکلیفوں سے زیادہ ہوتی ہے۔
سچ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو تکلیف پہنچا کر خوش ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ دوسرے ہمیں تکلیف پہنچا کر تسکین حاصل کرتے ہیں۔ یہ ہر ایک کو روز پیش آ نے والے مسائل ہیں۔ ان مسائل کا سرا پکڑا جائے تو کیسے؟ بات حکومتی نااہلی کی ہو یا معاشرے کی بے حسی کی دونوں ہی برحق اور سچ ہیں۔ یہ مسائل جو ہمارے یہاں روز کا معمول ہیں، باہر کے ممالک میں کیوں نہیں ہیں؟ خلیجی ممالک میں کوئی کسی کے گھر کے سامنے گند کیوں نہیں ڈال سکتا؟ راستے پر تنبو قناتیں لگا کر کیوں راستہ بند نہیں کرسکتا؟ گاڑی غلط طریقے سے آپ کی گاڑی کے سامنے لگا کر راہ مسدود نہیں کرسکتا؟ سب کو علم ہے کہ ایسا کریں گے تو جرمانہ ہوگا،جیل بھی جائیں گے اور ملازمت بھی جائے گی‘ اور مغربی ممالک میں تو یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ یہ تو ترقی پذیر ممالک یا برصغیر پاک و ہند کے باسیوں کے ہی مسئلے ہیں۔ باقی دنیا کے معاشرے انہیں بہت پہلے ختم کرکے آسودہ ہوچکے ہیں۔
ہر معاشرے کے پاس دو ہی راستے ہیں یا جنگل کے قانون پر عمل کیا جائے یا ملک کے قانون کو اختیار کیا جائے۔ وہ معاشرے جو مذہب کو بہت پہلے ترک کرچکے، انہوں نے قانون کو مضبوطی سے تھام لیا، اس لیے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں تھا۔ جہاں قانون مضبوطی سے تھام لیا جاتا ہے، وہاں انصاف ہوتا بھی ہے اور نظر بھی آتا ہے لیکن ہم ان میں ہیں جو نہ دینی ہدایات کو مضبوطی سے تھامتے ہیں، نہ قانون کو مانتے ہیں اور جب یہ دونوں آپ کی زندگیوں سے نکل جائیں توپھر ایسی ہی کہانیاں وجود میں آتی ہیں جو کہانیاں نہیں، پوری حقیقت ہوتی ہیں۔