کہا جاتا ہے کہ کئی دنوں سے قید‘ بھوکے پیاسے عباسی خلیفہ مستعصم باللہ (1242-1258ء عہد)کو ہلاکو خان نے سامنے رکھے خوان کا ڈھکن اٹھانے کو کہا تو وہ ہیروں اور جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔ ہلا کو خان نے مستعصم باﷲ کو کہا کہ انہیں پیٹ بھر کر کھائو ‘عباسی خلیفہ نقاہت سے بولا: نہیں کھایا جاتا‘ جس پر ہلاکو خان کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ پھر یہ جمع کیوں کئے تھے؟ اس سے جنگ کا سامان تیار کراتے‘ اس خزانے سے لڑاکا فوجی بھرتی کرتے تو شایدمیں دجلہ عبور نہ کر پاتا اور تم آج عورتوں کی طرح رو نہ رہے ہوتے ۔ عباسی خلیفہ کو مغالطہ تھا کہ مراکش اور دیگر اتحادی ملکوں کی افواج انہیں بچانے آئیں گی لیکن وہ یہ بھول گئے کہ کوئی بھی کسی کی حفاظت نہیں کر تا ‘اپنی حفاظت خود کرنا پڑتی ہے‘ اپنی جنگ خود لڑی جاتی ہے ‘یہی تاریخ کا وہ نہ مٹنے والا سبق ہے جو آج یوکرین کو اقوام عالم کے سامنے دھاڑیں مارتے ہوئے‘ روتا بلکتا دیکھ کر سب کویاد آرہا ہے۔
1919ء میں روس کا حصہ بننے والا یہ ملک1991ء میں اس سے علیحدہ ہوا تو امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو نے اس کی بلائیں لینا شروع کر دیں ۔افغان جنگ کی وجہ سے معاشی طور پر مفلوج روس کے خلاف اپنی فتح کا جشن منانے والے امریکہ اور نیٹو افواج نے اسے پختہ یقین دلا دیا کہ '' ساڈے نال رہو گے تے عیش کرو گے‘‘ اور وہ اس راگ پر جھومتا ہواانہی کے اردگرد منڈلانے لگا ۔وہ یوکرین جو روس سے علیحدگی کے وقت ایک ایٹمی قوت تھا‘ اسے امریکیوں نے سہانے خواب دکھانا شروع کر دیے کہ اگر یہ نیو کلیئر پروگرام ختم کردو تو دنیا کی ہرد ولت تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دی جائے گی۔ تمہیں اور تمہارے عوام کو اقوام عالم میں اور خاص طور پر یورپ اور امریکی بلاک میں ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا اور کس کی مجال ہے کہ تمہاری طرف ٹیڑھی آنکھ سے بھی دیکھے ۔ دنیا کی بڑی فوجی قوت نیٹو ہی تمہاری فوج ہو گی ‘نیٹو ہی تمہاری دفاعی چھتری بن جائے گی ۔ یوکرین کا مخالف اور دشمن امریکہ اور نیٹو کا مخالف اور دشمن تصور کیا جائے گا ۔اس طرح یوکرین ان کے جھانسے میں آ گیا اور آج اس کے در و دیوار اپنی بے چارگی پر ماتم کناں ہیں ۔کوئی اس کے زخم د یکھنے والا نہیں کوئی اس کے آنسو پونچھنے والا نہیں۔ یوکرین کی رکن پارلیمنٹ جیکی ہینرچ کا ٹویٹ ان پاکستانیوں کیلئے جو اپنے پیٹ سے سوچتے اور عیش و آرام میں مست رہنے کیلئے نیو کلیئر پروگرام کو ایک بوجھ اور خوشحالی کے گلے کا طوق سمجھ کر اس سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرنے کی تلقین کرتے نہیں تھکتے وہ دیکھیں کہ کس طرح جیکی ہینرچ فاکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے رندھے ہوئے گلے کے ساتھ کہہ رہی تھی کہ یوکرین دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو 1994ء تک ایک بہت بڑی ایٹمی قوت تھا لیکن امریکہ‘ برطانیہ اوریورپ کی اس یقین دہانی پر کہ وہ سب مل کر اس کی قوت اور بازو بنیں گے‘ اس نے اپنے تمام ایٹمی اثاثے اور بم متروک قرار دے دیے اور انسانی تاریخ کی یہ اپنی طرز کی وہ پہلی حماقت تھی جس کے نتیجے میں یوکرین تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ فاکس نیوز پر انٹرویو دیتے ہوئے جیکی نے رندھے ہوئے گلے کے ساتھ سوال کیاWhere are those guarantees? Now we are bombed and killed ۔یہ ٹویٹ اور انٹرویو دنیا بھر کی ان کی قوموں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے جو اپنی بندوق دوسرے کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے سمجھ لیتے ہیں کہ وہ اب محفوظ ہیں۔
پاکستان کو سی ٹی بی ٹی اور ایٹمی اثاثے منجمد کرنے کیلئے زرو جواہرات کے سپنے دکھائے گئے اوریارلوگوں کی باچھیں کھلنا شروع ہو گئیں مگر آج جب مڑ کر دیکھتے ہیں تومختلف کونوں میں براجمان حلقوں کی ایسی ایسی منطقیںیاد آنے لگتی ہیںجو امریکہ‘ یورپ اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے یوکرین کی طرح پاکستان کو بھی اپنے ایٹمی پروگرام سے پیچھے ہٹنے اورا سے منجمد کرنے کے لیے یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ عوام کی خوش حالی اور دولت کی ریل پیل ہی اصل قوت ہوتی ہے۔ اسی دھوکے ا ور فریب کا یوکرین بھی شکار ہو ا اوراپاہج ہو گیا۔اس کوایٹمی پروگرام رول بیک کرنے پردنیا کی ہر دولت اس پر نچھاور کرنے کے سبز باغ دکھائے گئے اور وہ اس نشے میں ایسا مدہوش ہوا کہ حقیقت کی دنیا سے بیگانہ ہو گیا۔ سب سے پہلے بڑے ہی پیار سے میٹھی میٹھی باتوں کا نشہ دیتے ہوئے ایک ایک کرتے ہوئے اس کے ناخن کھینچے گئے‘ پھر اس کے ہاتھوں کی انگلیاں کاٹی گئیں‘ اس کی قوت سماعت کو خوش حالی اور نیٹو کی چھتری تلے محفوظ ہو جانے کے راگ سنائے گئے‘ خون مہیا کرنے والی اس کی ہر رگ کو کاٹا گیا‘ انگلیوں سے کٹے ہوئے بازئوں کی رہی سہی قوت کو لاڈ پیار اور نیند آور میٹھی میٹھی لوریاں دے کر کمزور کیا اور پھر اس طرح روس کو اس پر چڑھ دوڑنے کی سبز جھنڈی دکھا دی کہ کل تک نیو کلیئر طاقت سے مالا مال یوکرین اپنے چہرے پر پڑنے والے زوردار تھپڑوں کو درد سے رونے پیٹنے لگا اور ایسا پاہج ہوا کہ اپنا اور اپنے عوام کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں ہی نہ رہا
دنیا کے بڑے بادشاہوں نے تھپکیاں دیتے ہوئے اسے یقین دلا دیا کہ اپنے میزائل پھینک دو‘ اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کر دو ‘اپنی فوج کم کر دو‘ بس اپنی دولت میں اضافہ کرو ۔آج وہ د ولت کہاں گئی؟ وہ بہترین گروتھ انڈکس کیا ہوا ؟ پورے مغرب اور امریکہ سمیت اس کے ایک ایک اتحادی کے منظور نظر کو کس کی نظر بد لگ گئی کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی قوت کے ہجوم بے کراں میں تنہا کھڑا ''مجھے بچائو‘‘ ،''مجھے بچائو‘‘کی چیخ و پکار کئے جا رہا ہے اور کوئی اس کی مدد کو نہیں آ رہا۔ اس کے پیاس سے کانٹوں کی طرح سوکھتے ہونٹوں پر کوئی پانی کی ایک بوند ڈالنے کیلئے آگے نہیں بڑھ رہا سوائے اس کے کہ دور کھڑے ہو کر روس کو کوسنے اور طعنے دیے جا رہے ہیں ۔ روس کے ایک ہی جھٹکے سے سب ملیا میٹ ہو گیا اور اب سب دیکھ رہے ہیں کہ اقوام متحدہ میں یوکرین کا سفیر کھڑے ہو کر دہائیاں دیتا پھرتا ہے کہ ہمیں بچائو‘ ہماری حفاظت کرو۔
پاکستان کو گزشتہ تیس چالیس برسوں سے ایک ہی سبق دیا جارہا ہے کہ اپنی فوج کم کرو‘ اپنا دفاعی بجٹ کم کرو‘ تمہاری غربت کی وجہ یہ نت نئے دفاعی اخراجات ہیں۔ خلیفہ مستعصم کے وزیر ابو علقمی کی طرح ہمارے کچھ سابق حکمران اور لیڈر پارلیمان کی عمارت میں کھڑے ہو کر ملکی دفاعی بجٹ پر بے جا تنقید کرتے ہیں اور ان کے ساتھی‘ بھاڑے کے ٹٹو اور کچھ گوئبلز ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ تواتر سے ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ مہنگائی ‘مہنگی بجلی اور ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت زار کی وجہ سیا ستدان نہیں بلکہ کچھ اور اخراجات ہیں‘جو سب کچھ چاٹ رہے ہیں۔ تمہاری بیماریوں اور تنگدستی کی وجہ بھی یہ ہے کہ تمہارا اسی فیصد بجٹ تو اسی مد میں چلاجاتا ہے۔بھارتی فوج ہم پر اچانک پل پڑنے کیلئے تیار بیٹھی ہوتی ہے اور یہ لوگ اسی طرح ہمیں اپنا دفاعی بجٹ کم کرنے کا کہہ رہے ہیں جیسے ابو علقمی نے خلیفہ کومشورہ دیا تھا کہ ہماری اتنی بڑی فوج بیکار بیٹھی رہتی ہے کیوں نہ اسے مختلف علاقوں کے سرداروں کے پاس بھیج دیا جائے تاکہ وہاں ان سے پیداواری اور تعمیری کام لئے جائیں اور یہ اطلاع پاتے ہی ہلا کو خان کی فوج بغداد پر چڑھ دوڑی۔