تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     27-02-2022

یوکرین تنازع‘ امریکی حکمت عملی اور پاک چین تجارت

امریکہ نے یوکرین معاملے پر روس کے خلاف جنگ نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر ملکوں کا ملا جلا رد عمل سامنے آ رہا ہے لیکن اکثر امریکی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ الزام لگایا جا رہا ہے کہ امریکہ نے مشکل وقت میں یوکرین کا ساتھ نہیں دیا۔ جس کی وجہ سے سینکڑوں جانوں کا نقصان ہوا اور یوکرین کی معیشت مزید تباہ حالی کا شکار ہو رہی ہے۔ کچھ دعوؤں کا فیصلہ آنے والا وقت کرتا ہے۔ ان پر فوری حتمی رائے دینا زیادہ مناسب نہیں‘ لیکن آج کے عالمی حالات کو دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں کہ امریکہ نے روس کے خلاف جنگ میں حصہ نہ لے کر دنیا کو تیسری عالمی جنگ سے بچا لیا ہے۔ کورونا کی وجہ سے دنیا کی بڑی معیشتیں ابھی تک سنبھل نہیں پائی ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے نئے ریکارڈ قائم ہوچکے ہیں۔ فیکٹریاں اور بندرگاہیں بند ہونے کے وجہ سے ڈیمانڈ اور سپلائی میں واضع فرق پیدا ہو چکا ہے۔ ان حالات میں ایک عالمی جنگ چھیڑ لینا کسی بھی طرح سے عقلمندی نہیں ہو سکتی۔
جوبائیڈن کے دانشمندانہ فیصلے کو بزدلی قرار دیاجا رہا ہے‘ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ نے روس کے ڈر کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس طرح کے بیانات داغنے والے دراصل حقائق سے بے خبر ہیں۔ امریکہ کا دفاعی بجٹ 778 بلین ڈالر ہے جبکہ روس کا دفاعی بجٹ 62 بلین ڈالر اور چین کا دفاعی بجٹ 252 بلین ڈالر یعنی روس اور چین کے دفاعی بجٹ ملا لیے جائیں تب بھی امریکہ کے بجٹ کا نصف نہیں بنتا۔ ملکوں کی طاقت کا اندازہ اگر ان کے دفاعی بجٹ سے لگایا جاسکتا ہے تواس پیمانے پر امریکہ سب سے مضبوط ملک ہے۔ 80 کی دہائی میں سرد جنگ میں امریکہ نے سوویت یونین کا خاتمہ کر دیا تھا تو آج بھی اس کامقابلہ مشکل نہ تھا‘اس وقت امریکہ روس کی نسبت پہلے سے زیادہ مضبوط ملک بن چکا ہے اور اسے نیٹو ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔ آسٹریلیا‘ اٹلی‘ جنوبی کوریا‘ جاپان‘ فرانس‘ جرمنی‘ سعودی عرب‘ برطانیہ‘ روس‘ بھارت اور چین کے دفاعی بجٹ کو اکٹھا کیا جائے تو یہ 761 بلین ڈالر بنتا ہے جبکہ امریکہ کا دفاعی بجٹ 778 بلین ڈالر ہے یعنی ان تمام ممالک کا مجموعی دفاعی بجٹ امریکہ سے کم ہے۔ امریکہ کا روس کے خلاف جنگ کا حصہ نہ بننے کو ہار کے ڈر سے قرار دینا مناسب نہیں۔ اس حوالے سے یورپ کی حکمت عملی بھی دیر پا امن کی طرف راغب دکھائی دیتی ہے۔ 27 یورپی ممالک نے یوکرین کا ساتھ دینے سے انکار کیا ہے اور کسی بھی ملک نے روس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا اعلان نہیں کیا بلکہ اس بات کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ یہ معاملات مذاکرات سے حل کئے جائیں۔ شاید دنیا نے دو عالمی جنگوں سے سبق سیکھ لیا ہے۔ تیسری عالمی جنگ ایٹمی ہو گی جس کے نقصان کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ میں یہ واضع کر دینا چاہتا ہوں کہ ان حقائق اور دلائل کا مقصد ہر گز یہ ثابت کرنا نہیں کہ روس جو کچھ یوکرین میں کر رہا ہے وہ درست ہے اور نہ ہی یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جب کمزور کو کچلا جا رہا ہو تو کوئی اس کا ساتھ نہ دے بلکہ اس بات کی اہمیت پر زور دیا جا رہا ہے کہ نزدیک کے فائدے کو دیکھنے سے پہلے دور کا نقصان دیکھنا زیادہ ضروری ہے۔ اس وقت تیل کی قیمتیں تقریبا ً100 ڈالر فی بیرل کے قریب ہیں جو کہ 2014ء کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔ اگر یہ جنگ جاری رہتی ہے توپٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 125 ڈالر فی بیرل تک بڑھ سکتی ہیں۔ اس کے بعد غربت اور مہنگائی میں کس قدر اضافہ ہو گا یہ سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ پچھلے دو سال سے دنیا کی معیشتوں میں اتار چڑھاؤ کے بعد ملک کا عام شہری بھی متوقع مہنگائی اور غربت کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ یہ وقت جذبات سے کام لینے کا نہیں ہے بلکہ عقل اور شعور کے ساتھ پھونک پھونک کر قدم رکھنے کا ہے۔ فی الحال یوکرین کو کتنا معاشی نقصان پہنچ چکا ہے اس حوالے سے اعدادوشمار پیش نہیں کئے گئے لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ نقصان کم ہو یا زیادہ جنگ زدہ علاقوں میں معاشی سرگرمیاں بحال کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔
چین کے سرکاری ٹیلیویژن کے مطابق روسی صدر نے چینی صدر کو یقین دلایا ہے کہ یوکرین معاملے پر اعلیٰ سطحی مذاکراتی میٹنگ بلائی جا سکتی ہے اور معاملہ جنگ کی بجائے امن سے بھی حل ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ اور یورپ یوکرین میں اسلحہ ذخیرہ کرنا بند کریں اور اسے نیٹو میں شامل کرنے کے دعوے سے دستبردار ہوں۔ امید کی جا رہی ہے کہ چین کے تعاون سے آنے والے چند دنوں میں کوئی مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے جس کے بعد تیل اور گیس کی قیمتوں میں بھی کمی واقع ہو سکے گی۔
ایک طرف روس نے چین کو امن کا گرین سگنل دیا ہے اور دوسری طرف پاکستان نے بھی قومی معاشی ترقی کے لیے چین کی دوستی کا بھرپور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزرات منصوبہ بندی نے اسد عمر کی قیادت میں 2025ء تک کے ملکی اہداف طے کئے ہیں جن کے مطابق شرح نمو 6 فیصد‘ برآمدات 56 ارب ڈالر‘ صنعتی ترقی تقریبا ً8 فیصد اور فی کس آمدن 2100 ڈالر فی کس تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے چین کی طرف سے دی گئی سہولتوں اور چینی مارکیٹ کا بھرپور استعمال کیا جائے گا۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کی سہولت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ دنیا کے کئی ممالک چین کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے تحت کام کرنے کے خواہاں ہیں لیکن چین سخت شرائط پر یہ سہولت فراہم کرتا ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ چین نے فری ٹریڈ ایگریمنٹ سائن کر رکھا ہے۔ جس کے تحت تقریبا ً36 ارب ڈالر کی مصنوعات کی برآمدات پر ٹیکس صفر ہے لیکن پاکستان صرف 742 ملین ڈالرز کی مصنوعات برآمدات کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2020ء میں ٹیکس سے مستثنیٰ 174 اشیا کی برآمدات ہی نہیں کی گئیں۔ وزرات منصوبہ بندی کے مطابق دیگر ممالک سے درآمدات کرنے اور برآمدات بڑھانے کے بجائے زیادہ تر درآمدات اور برآمدات چین کے ساتھ کی جائیں گی۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم کے حالیہ دورہ چین میں دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کے کئی منصوبوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ موجودہ پیش رفت کو اسی تناظر میں دیکھنا ضروری ہے‘ لیکن اس معاملے کی تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھا جاناچاہیے۔ اس وقت چین سے دنیا کو براہ راست برآمدات متاثر ہو رہی ہیں۔ میڈ ان چائنا برینڈ میں یورپ اور امریکہ کی دلچسپی کم ہوئی ہے؛چنانچہ چائنیز پاکستان میں کمپنیاں رجسٹرڈ کروا رہے ہیں جن سے درآمدات کر کے میڈ ان پاکستان کی مہر لگا کر دنیا کو برآمد کی جائے گی یعنی سب کام چینی کریں گے‘ ہم صرف حالات کا فائدہ اٹھائیں گے۔ ممکن ہے کہ یہ خدشہ غلط ثابت ہو اور پاکستانی کاروباری حضرات اس سے صحیح معنوں میں فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ سرکار نے منصوبہ پیش کر دیا ہے لیکن ابھی تک صوبوں کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا‘یہ اہداف حتمی نہیں ہیں۔ شاید اسی لیے نیشنل اکنامک کونسل کے سامنے نہیں رکھا گیا ۔ عندیہ دیا جا رہا ہے کہ دو ماہ میں منصوبہ بندی مکمل کر کے نیشنل اکنامک کونسل میں پیش کیا جائے گا اور تحریک انصاف کی حکومت کے آخری سال میں اس پر عمل درآمد شروع ہو گا تا کہ بڑھتی ہوئی شرح نمو ‘ روزگار اور کاروبار کے حوالے سے تحریک انصاف کا آخری سال بطور ماڈل پیش کیا جا سکے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved