تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     28-02-2022

گائوں وہ نہ رہے

سب کچھ دیکھتے ہی دیکھتے بدل چکا ہے۔ لگتا ہے کل کی بات ہے کہ اپنے گائوں کے سب گھرانوں کے نام یاد تھے‘ اور یہ بھی کہ ہر ایک کے کتنے بچے تھے۔ لوگ اسے تب بھی شہر کہتے تھے۔ درمیان میں ایک بازار تھا‘ تقریباً چالیس‘ پچاس دکانیں تھیں۔ قریب کے دیہات سے عورتیں اور مرد پارچہ جات‘ تیل صابن‘ گھی‘ شکر اور ضرورت کی دیگر چیزیں خریدنے آتے۔ رونق میلہ لگا رہتا۔ شام ہوتے ہی سب کچھ بند ہو جاتا۔ تب بجلی اور پکی سڑک نہ تھی‘ نہ ہی گھروں میں نہانے دھونے کیلئے ہر دم چلتے پانی کے نلکے تھے۔ مختلف حصوں میں تقریباً پانچ کنویں تھے۔ یہاں ایک خاندان تھا جو گھروں میں پانی سپلائی کرنے کا کام کرتا۔ مہینے کے آخر میں چند روپے ہر گھر سے انہیں موصول ہو جاتے تھے۔ پہلے تو ہاتھ سے چلنے والے نلکے‘ یاد پڑتا ہے‘ صرف دو تھے۔ ایک مڈل سکول میں اور دوسرا اس فقیر کے گھر میں۔ وہ دن میں کبھی نہیں بھولا جب زمین میں بور کرنے والے مستری نے مسلسل مشقت کے بعد تیسرے یا چوتھے دن اعلان کیا تھا کہ پانی نکل آیا ہے اور ساتھ ہی لوہے کے پائپ ڈالنے شروع کر دیے تھے۔ شام ہوتے ہوتے نلکے سے تازہ پانی بالٹی میں تھا۔ کیا خوشی تھی اور کیا نیک بختی کہ گھر کے اندر صاف پانی ہر وقت میسر تھا۔ ارد گرد کے ہمسایے بھی کنویں سے پانی بھرنے کی زحمت سے بچنے کیلئے ہمارے گھر سے ہی پانی لے لیتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد‘ دیکھا دیکھی نلکا عام ہونے لگا تو گھر گھر یہ سہولت بھی آ گئی۔ آبادی محدود اور پانی کا استعمال ضرورت کے مطابق ہوتا تھا۔ پورے شہر میں کوئی نالی نہ تھی‘ اس لیے کہ پانی گھر کے صحن میں ہی خشک ہو جاتا تھا۔ گندگی کہیں نظر نہ آتی۔ پلاسٹک کے تھیلے ابھی ہماری زندگیوں میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ بازار میں سبزی‘ پھل یا کوئی اور چیز خریدتے تو اپنے ساتھ کپڑے کا کوئی تھیلا ہوتا۔ بار بار اسے استعمال کرتے۔
تقریباً ہر گھر میں گائیں اور مرغیاں تھیں۔ گھروں کے احاطے بڑے تھے۔ ہماری اپنی جگہ دوکنال سے کہیں زیادہ تھی۔ گائیں‘ بھینسیں رکھنا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ دودھ‘ دہی‘ مکھن اور لسی عام تھے۔ مل کر رہنے اور بانٹ کر کھانے پینے کا رواج تھا۔ بچے‘ کتے اور مرغیاں کسی کی چاردیواری کا لحاظ نہیں کرتے تھے۔ ایک گھر سے نکلے تو دوسرے گھر چلے گئے۔ کسی کی مرغی یا بکری شام تک واپس نہ آتی تو مسجد میں اعلان کرایا جاتا۔ صحیح سلامت واپس ہو جاتی۔ کوئی کوڑا کرکٹ جمع نہ ہوتا‘ صرف گوبر اور چولہوں سے روزانہ نکلی راکھ گھروں سے دور خالی جگہ پر ہر کوئی ڈال آتا۔ ضرورت مند کاشت کار اس روڑی سے فیضیاب ہوتے۔ کچھ گھروں میں اُپلے بھی بنائے جاتے جو ایندھن کا کام دیتے۔ زندگی سادہ‘ پُرلطف اور بھرپور تھی۔ دیہات میں کنوئوں کے پانی سے سبزی کاشت ہوتی۔ تعلق داری میں تو مفت مل جاتی مگر بازار میں تازہ بھی بکتی تھی۔ گوشت خوری کا رواج تب اتنا زیادہ نہیں تھا۔ ہمارا کسان معاشرہ تھا۔ سبزی اور دال روزانہ کا معمول تھا۔ کھانا ضرور دو دفعہ پکتا تھا‘ صبح اور شام کے وقت۔ سالن صرف شام کے کھانے کیلئے تیار ہوتا تھا۔ صبح کے وقت ہم ناشتہ رات کے بچے ہوئے سالن‘ تازہ روٹی‘ مکھن اور لسی سے کرتے تھے۔ دوپہر کو کوئی مہمان آ جاتا تو کھانا تیار کیا جاتا۔ جمعہ کے دن ایک‘ دو قصائی کوئی بکرا ذبح کرتے تو عام طور پر لوگ پائو بھر گوشت خرید لیتے اور اس میں بھی دال یا سبزی کا اضافہ کرتے۔ بسیار خوری کا بھی کہیں کوئی نام و نشان نہ تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ تب کسی کو شوگر یا فشارِ خون جیسی کوئی بیماری تھی۔ کسی کی توند نکلی ہوئی نظر نہ آتی تھی۔ بہت کم‘ آٹے میں نمک کے برابر‘ فربہ آدمی کبھی کبھار نظر آ جاتے‘ زمین دار قسم کے لوگ ہوتے۔
لوگ ایک دیہہ سے دوسرے دیہہ‘ دیہات سے قصبوں اور شہروں تک کا سفر پیدل کرتے تھے۔ بائیسکل بھی بہت کم لوگوں کے پاس تھیں۔ کوئی نئی سائیکل خریدتا تو پورے علاقے میں خبر بن جاتی۔ ملک میں چار کمپنیاں سائیکل بناتی تھیں۔ رستم‘ پیکو اور ایگل بائیسکلوں کے درمیان مقابلہ ہوتا۔ انگریزی دور کے ہرکولیس بھی کچھ شوقین مزاجوں نے سنبھال کر رکھے تھے۔ پرانی طرز کے لوگ گھوڑے پالتے جو عزت اور زمینداری کی علامت تھے۔ شہر میں بھی لوگ گھوڑوں پر ہی آتے تھے۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر بارات اونٹوں پہ جایا کرتی تھی۔ اونٹوں اور ان پر رکھے کجاووں کی سجاوٹ کی جاتی تھی۔ پہلی موٹر سائیکل یہاں میں نے 1968 ء میں دیکھی تھی۔ میرا ہی ایک مرحوم دوست بارہ سو روپے میں کہیں سے پرانی خرید لایا تھا۔ لوگ اس واحد موٹر سائیکل کو دیکھتے اور اس کی تعریف کرتے تھے کہ انگریزوں نے کام کتنا آسان کر دیا ہے کہ عام سائیکل کے برعکس یہ خود چلتی ہے اور پائوں سے پیڈل بھی نہیں گھمانے پڑتے۔ ہوا سامنے سے تیز بھی آئے تو اس کی رفتار میں کمی نہیں آتی۔ دیہاتیوں کی حیرانی اور تعجب کے آثار آج بھی ذہن میں کبھی گردش کر جاتے ہیں۔ بجلی ہمارے شہر میں ستر کی دہائی کے آغاز میں آئی۔ بتا نہیں سکتا کہ لوگ کتنے خوش تھے۔ ہر طرف بھاگ دوڑ کہ پنکھا اور بلب خریدو‘ اور پھر ہاتھ سے چلنے والے نلکوں پر موٹریں فٹ ہونا شروع ہوگئیں۔ اب بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔
بہت عرصہ بعد کل ہی شام کو اپنے پرانے گائوں اور اب ہر طرف بے ہنگم پھیلتے ہوئے شہر میں آیا ہوں۔ مٹی کی محبت کھینچ لاتی ہے‘ مگر ایک اجنبیت کا بھی احساس ہے۔ میرے بچپن کے سب دوست اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ جن کے ساتھ یہاں کی گلیوں کی خاک چھانتے تھے اب انہوں نے مٹی کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ چند سال پہلے تک‘ ہماری شامیں‘ دن اور صبحیں اکٹھی ہوتیں‘ ناشتہ ایک ساتھ اور شام کا کھانا بلاناغہ ایک ہی میز پر۔ ایک دوسرے کے آموں کے باغوں کے چکر بھی لگاتے رہتے تھے۔ قسمیں گنوائی جاتیں‘ درختوں کی بیماریوں کا علاج تلاش کرتے۔ میرے دو باغبان دوست‘ جن کے ساتھ مل کر درویش نے اپنے باغ کی بنیاد رکھی تھی‘ اب وجودی طور پر تو نہیںمگرجب اس دھرتی پر قدم رکھتا ہوں تو میرے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔قدرت عزیز مزاری اور حاجی لعل بخش ملانہ۔ سوچتا ہوں کتنا کام وہ کر گئے۔ آنے والی نسلیں ان کے لگائے پیڑوں سے اترے آم کھاتی رہیں گی۔ سیانے سچ ہی تو کہتے ہیں کہ بس اپنے حصے کا کام ضرور کر جائو‘ اور درخت اور باغات لگانے سے بہتر کام اور کیا ہو سکتا ہے۔ نو ماہ بعد آج صبح جب باغ میں قدم رکھا تو ہر سو پھیلی آموں کے پھولوں کی خوشبو نے زندگی کے سب غم بھلا دیے۔ ویسے ہمارے غم ہی کون سے ہیں۔
آبادی بہت بڑھ چکی ہے۔ ہر طرف شور‘ موٹر سائیکلوں کی ختم نہ ہونے والی غوں غوں‘ ہئو ہئو کی سیٹیاں اور صبح سویرے گھروں اور دکانوں کے سامنے کوڑا کرکٹ جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں سینے میں پیوست ہو جاتا ہے۔ صبح گھر سے باغ تک دو کلومیٹر کے پیدل سفر کے دوران ہر جگہ صفائی کا یہ پاکستانی طریقہ نظر آتا ہے۔ ملک کے دیگر حصوں کے شہروں یا دیہات‘ ہر جگہ پلاسٹک کے تھیلوں کو جلایا جاتا ہے اور ان کی بدبو گھنٹوں تک ہوا میں معلق رہتی ہے۔ سادے زمانے گزر گئے۔ شہر میں کئی چائے کی دکانیں ہیںجہاں صبح سے شام بلکہ رات گئے تک چائے دانیاں بھاپ اگلتی رہتی ہیں۔ پکوڑے‘ سموسے اور مرغیاں تلی جاتی ہیں۔ کئی بیکریاں اور مٹھائی کی دکانیں ہیں۔ اب لسی بھی کسی دکان سے منگوائی جاتی ہے۔ دال چاول کے ناشتے والی ریڑھیاں ہیں جو اکثر میں نے ادھر ادھر گھومتی دیکھی ہیں۔ ہر دوسرے آدمی کا وزن بڑھا نظرآتا ہے اور موجودہ دور کی شہر والی سب بیماریاں مقامی آبادی میں موجود ہیں۔ گھروں کے سامنے گلیاں لوگوں نے قبضے کرکے تنگ کر دی ہیںاور نالیوں میں سیوریج کا بدبودار پانی بہتا ہے۔ بچوں کو کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر کھیلتے دیکھا تو اپنے دور کے پاکیزہ دیہات کا تصور موہوم ہوا‘ ایسے کہ وہ کوئی اور زمانہ تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved