تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     28-02-2022

کھیل انجوائے کریں

پاکستانی قوم مجموعی طور پر کھیلوں کو پسند کرتی ہے اور اپنے قومی ہیروز سے بڑا پیار کرتی ہے۔ اگرچہ کرکٹ کا جنون زیادہ ہے مگر عوام صرف کرکٹ ہی نہیں‘ اتھلیٹکس، ہاکی، کبڈی اور کشتی سمیت تمام روایتی اور غیر روایتی کھیلوں کے مقابلے بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ کرکٹ میں عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم، شاہد آفریدی، شعیب اختر اور بابر اعظم سمیت سینکڑوں کھلاڑی عوام میں بے پناہ مقبولیت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف اتھلیٹکس میں عبدالخالق نے دنیا کے ہر میدان میں سبزہلالی پرچم سربلند کیا اور اپنے آپ کو اس طرح منوایا کہ دشمن بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا اور انہیں ''فلائنگ برڈ آف ایشیا‘‘ کاخطاب دیا۔ اسی طرح حال ہی میں اولمپین ارشد ندیم تمغوں کے ساتھ عوام کا دل بھی جیت رہے ہیں۔ ہاکی میں شہباز سنیئر، شہناز شیخ، حسن سردار، سمیع اللہ، کلیم اللہ اور حنیف خان سمیت متعدد کھلاڑیوں نے شہرت پائی اور وہ بلندیاں دیکھیں جو شاید کسی کرکٹر کے حصے میں بھی نہ آئی ہوں گی۔ سکواش میں قمر زمان، جہانگیر خان اور جان شیرخان سمیت کئی پاکستانی ورلڈ چیمپئن بنے اور دہائیوں تک سکواش کے عالمی میدان میں سبز ہلالی پرچم کو سربلند کرتے رہے۔ کشتی (ریسلنگ) میں جھارا سے لے کر انعام بٹ تک متعدد پہلوانوں نے خاصا نام کمایا۔ ویٹ لفٹنگ میں نوجوان اولمپین طلحہ طالب نے وطن عزیز کانام روشن کیا، سنوکر میں محمدآصف، باکسنگ میں محمد وسیم اور سپیشل اولمپکس میں حیدر علی سمیت اس دھرتی کے کئی سپوت آج بھی اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ یہ کھلاڑی عوام کی آنکھوں کا تارہ ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے عوام کھیل اور کھلاڑیوں سے ہمیشہ پیار کرتے آئے ہیں۔
آج کل ملک میں سپورٹس کے ساتھ سیاسی کھیل بھی عروج پر ہے۔ کوئی حکومت کی مضبوطی کے دعوے کر رہا ہے تو کوئی اقتدار کے ایوانوں میں دراڑیں ڈالنے کے لیے جوڑ توڑ میں مصروف ہے۔ کوئی لانگ مارچ کر رہا ہے تو کوئی تحریک عدم اعتماد کی منصوبہ بندی میں لگا ہوا ہے۔ غرض ہر طرف سیاسی کھیل گرم ہے۔ اگر اس ساری مشق کا جائزہ لیا جائے تو تصویر کا کوئی رخ بھی ایسا نظر نہیں آتا جس سے عوامی فلاح و بہبود، مشکلات میں کمی، مسائل کے حل یا قومی اتحاد و اتفاق کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ میری نظر میں تمام تر سیاسی چپقلش کا محور اور مرکز صرف کرسیٔ اقتدار ہے۔ حکمرانوں کی بات سنیں تو یہی سننے کو ملتا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر گزشتہ دورِ حکومت تک‘ تمام سابق حکومتوں نے صرف ملک کو لوٹنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ ملک میں تعمیر و ترقی، معاشی استحکام، عوامی فلاح و بہبود، ادارہ جاتی قیام اور سماجی انصاف پر کسی نے توجہ نہیں دی اور بدعنوانی سے قومی دولت بیرونِ ملک منتقل کرکے ذاتی اثاثہ جات بنائے گئے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ صرف موجودہ حکومت ہی ملک کو تمام بحرانوں سے نکال رہی ہے۔ اب یہ الگ معاملہ ہے کہ موجودہ کابینہ کے ستر فیصد ارکان گزشتہ کئی حکومتوں کا حصہ رہے اور آج بھی اپنے مشن میں کسی سے پیچھے نہیں۔ عوام چیخ رہے ہیں کہ مہنگائی میں کئی سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے لیکن حکمران طبقہ معاشی گورکھ دھندوں کے ذریعے اسے قومی ترقی سے تعبیر کر رہا ہے۔ وزرا سمجھتے ہیں کہ سڑکوں پر گاڑیاں رواں دواں ہیں‘ موٹر سائیکلوں کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کی قوتِ خرید میں اضافہ ہو رہا ہے اور معیشت ترقی کر رہی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن کی بات سنیں تو بتایا جاتا ہے کہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن تھا، ہر طرف ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھا ہوا تھا، توانائی بحران ختم ہو چکا تھا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مناسب حد میں تھیں، بجلی کی اضافی پیداوار کے ساتھ نرخوں میں بھی کمی کی جا رہی تھی، ملکی کرنسی مستحکم تھی، عوام خوشحال اور مطمئن تھے، ہر طرف امن و امان کا دور دورہ تھا مگر جب موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی تو ترقی کا پہیہ رک گیا، مہنگائی کا ایسا سیلاب آیا کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا، ڈالر بے قابو ہو چکا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، بجلی اورگیس کے نرخ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، امن و امان کا مسئلہ پھر سے سر اٹھانے لگا ہے، ملکی ترقی اور معاشی استحکام کے لیے موجودہ حکومت سے چھٹکارا پانا ضروری ہو گیا ہے۔ ملک میں جاری اس سیاسی کھیل میں حزبِ اقتدار و اختلاف‘ دونوں ہی تمام تر حالات کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرا رہے ہیں۔ الزام تراشی کی سیاست عروج پر ہے۔ ہر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ صرف وہی ملک و قوم کے لیے ناگزیر ہے اور اس کے سیاسی مخالفین قومی تعمیر و ترقی کے دشمن ہیں۔ حکمرانوں کا کہنا ہے کہ حکومت مدت پوری کرے گی، اپوزیشن صرف سیاسی طور پر زندہ رہنے کے لیے کبھی لانگ مارچ کی بات کرتی ہے تو کبھی دھرنے دینے کا اعلان کیا جاتا ہے، کبھی تحریک عدم اعتماد کا شور اٹھتا ہے تو کبھی کوئی اور الزام لگایا جاتا ہے جبکہ اپوزیشن رہنمائوں کے بیانات اور تقریریں سنیں تو پتا چلتا ہے کہ حکومت چند گھنٹوں کی مہمان ہے، لانگ مارچ ہوا تو اسلام آباد پہنچنے سے قبل ہی اقتدار کے ایوان خالی ہو جائیں گے یا جب تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی تو حکومت کی اتحادی جماعتوں کے علاوہ اس کے ارکان بھی اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔ غرض ہر کوئی اپنے اپنے مفاد کے مطابق دعوے کر رہا ہے۔ نہ تو حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے سمیت عوامی مسائل و مشکلات پر قابو پانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی اپوزیشن نے آج تک متحد ہو کر مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر پبلک ایشوز پر کوئی مؤثر آواز اٹھائی ہے۔ اپوزیشن تو ابھی تک یہ بھی بتانے سے قاصر ہے کہ حکومت کی رخصتی کے بعد اس کے پاس متبادل پلان کیا ہو گا؟ معیشت کو کس طرح بحال کیا جائے گا؟ پٹرول کی قیمتیں کیسے کم کی جائیں گی؟ ان سوالوں کا اپوزیشن کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ غرض دونوں طرف سے اٹھنے والا شور صرف اقتدار اور اختیارات کی جنگ نظر آتا ہے۔
سیاسی رائے ہر شہری کا بنیادی حق ہے، ہر شخص آزاد ہے کہ جس کوچاہے سپورٹ کرے‘ ووٹ دے۔ ان سطور کا مقصد نہ تو حکومت پر تنقید ہے اور نہ ہی حکمرانوں کا دفاع! نہ تو ہم اپوزیشن کے ترجمان ہیں اور نہ ہی ان کے سیاسی حقوق کے مخالف! بلکہ ہمارا مقصد عوام کو صرف بتانا ہے کہ اس وقت ملکی حالات انتہائی گمبھیر ہیں مگر حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں ہی حالات میں بہتری لانے کے بجائے سیاسی مخالفت میں مصروف ہیں۔ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے غیرجانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو عوام کی مشکلات فوری طور پر ختم ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی لہٰذا عوام کو چاہئے کہ اپنے کام دھندے پر ہی توجہ مرکوز رکھیں۔ یہ حکومت جانے اور اس کے مشیر‘ کہ کس طرح اپوزیشن کی چالوں کو ناکام بنانا ہے اور مدتِ اقتدار کو پورا کرنے کے بعد آئندہ عام انتخابات میں عوام کے سامنے کیا موقف اپنانا ہے جبکہ اپوزیشن کو بھی خود ہی فیصلہ کرنے دیں کہ اس نے اپنا ہدف کس طریقے سے حاصل کرنا ہے۔ عوام کے لیے یہ سب کچھ ایک کھیل تماشے سے زیادہ نہیں کیونکہ پہلے سات دہائیوں تک جتنی حکومتیں گزر چکی ہیں ان کے دوران بھی تو عوام نے اپنا ہی کمایا اور اپنا ہی کھایا ہے۔ یہی کچھ موجودہ دور میں چل رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی چلے گا۔ ہمارے عوامی نمائندوں کو مہنگائی کے تناسب سے اپنی تنخواہیں اورمراعات تو بہت کم لگتی ہیں لیکن جب ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی بات ہوتو انہیں قومی خزانے کی مخدوش حالت پر ترس آجاتا ہے لہٰذا عوام کو صبر، برداشت اور نہ گھبرانے کامشورہ دیاجاتاہے۔
آج کل ملک میں سپورٹس کے تگڑے مقابلے جاری ہیں۔ کل پاکستان سپرلیگ(پی ایس ایل) اپنے اختتام کوپہنچی۔ اب آسٹریلوی کرکٹ ٹیم آ گئی ہے۔ ملائیشیا کی خواتین کی بیس بال ٹیم بھی مارچ کے آخر میں پاکستان آرہی ہے، لاہور میں پنجاب گیمز اورہارس اینڈ کیٹل شو کی تیاریاں بھی مکمل ہیں جبکہ یوم پاکستان کی پریڈ بھی آرہی ہے، اس لیے عوام کسی قسم کی ٹینشن نہ لیں اور بیس بال، کرکٹ اور پریڈ سے جی بہلائیں اور ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی کو بھی کھیل سمجھ کر انجوائے کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved