تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     28-02-2022

’’کیا ملے گا؟‘‘ کی بحث

ہم ڈرتے آئے ہیں اور اب تک ڈر رہے ہیں۔ کئی ایسے مواقع آئے جب ہماری تھوڑی سی ہمت ہمیں بہت کچھ دلا سکتی تھی مگر کوئی نہ کوئی مصلحت ہماری راہ کی دیوار بن گئی۔ ہم بہت کچھ چاہ کر بھی کچھ نہ کر پائے۔ بین الریاستی تعلقات میں موقع شناسی، معاملہ فہمی اور ٹائمنگ کی اہمیت کس قدر ہے‘ یہ نکتہ کسی بھی اعتبار سے تشریح و توضیح کا محتاج نہیں۔ فیصلہ وقت پر نہ کیا جائے تو اُس کا کچھ فائدہ نہیں پہنچتا۔ قبل از وقت یا بعد از وقت کیے گئے فیصلے کو ایسا فیصلہ سمجھیے جو کیا ہی نہیں گیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا واضح طور پر دو بلاکس میں تقسیم ہو گئی۔ تب ہم نے روس (سوویت یونین) کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے امریکا اور یورپ کی طرف جھکنا قبول کیا۔ یہ فیصلہ ویسے تو بہت اچھا لگتا تھا مگر اِس سے ہمیں قدم قدم پر نقصان ہی پہنچا ہے۔ سوویت یونین نے اشتراکیت کی بنیاد پر اپنا قیام یقینی بنایا اور اشتراکیت ہی کا پرچار کیا۔ اشتراکیت یعنی تمام قدرتی اور انسانی وسائل ریاست کے ہوں، ذاتی ملکیت کا حق کسی کے لیے نہ ہو اور سب کی گزر بسر کا اہتمام ریاست کے ہاتھ میں ہو۔ یہ بات ہماری مذہبی تعلیمات اور مزاج دونوں ہی کے خلاف تھی۔ ایسے میں امریکا اور یورپ ہمیں زیادہ پُرکشش دکھائی دیے کہ وہ کھلے بازار کی معیشت پر یقین رکھتے تھے اور ''اہلِ کتاب‘‘ بھی تھے۔ ہم نے ''ملحدوں‘‘ کے مقابلے میں اہلِ کتاب کا ساتھ دینا زیادہ پسند کیا اور اِس کے صلے میں کیا پایا‘ یہ سب جانتے ہیں۔ مغربی بلاک کا حصہ بننے سے ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا۔ ہاتھ آتا بھی کیسے کہ ہر کمزور ریاست کا یہی انجام ہوا کرتا ہے۔ ہم نے ہمیشہ اپنے بیشتر معاملات میں امریکا اور یورپ کی طرف دیکھا۔ امریکا اور یورپ کے بلاک میں رہنا ہمارے لیے سراسر خسارے کا سودا ثابت ہوا ہے۔ خسارہ بھی ہمہ گیر نوعیت کا۔
بھارت نے بیک دو کشتیوں میں سفر کرنے کی روش اپنائی۔ وہ نام نہاد ''غیر جانبدار‘‘ بھی بنا رہا اور امریکا اور سوویت یونین‘ دونوں سے مزے لوٹتا رہا۔ جب تک سرد جنگ چلی، بھارت دونوں کیمپس میں رہا اور ضرورت کے مطابق فوائد بٹورے۔ یہ پنڈت جواہر لال نہرو کی کامیاب حکمتِ عملی تھی۔ ہم کچھ نہ پاسکے۔ امریکا اور یورپ نے جب چاہا ہمارے ساتھ تعاون بڑھایا اور کام نکل جانے پر ہمیں تنہا چھوڑ دیا۔ روسی ٹی وی سے انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ''ہم اصلاً تو امداد کے حصول کے لیے مغربی بلاک کا حصہ بنے‘ بیرونی امداد ملک کے لیے نقصاندہ ہے۔ اس کے باعث ہم آج تک کوئی باضابطہ نظام بناکر اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکے۔ اب ہم کسی بھی گروپ یا بلاک کا حصہ نہیں بنیں گے‘‘۔ یہ حقیقت دل خراش ہے کہ ہم کچھ حاصل بھی نہ کر پائے۔ یورپ نے بالعموم اور امریکا نے بالخصوص ہمیں برابری کا مقام نہیں دیا۔ جنہوں نے اِن دونوں طاقتوں سے اکڑ کر بات کی وہ بہت کچھ پاگئے اور ہم ان کا ساتھ دے کر بھی ہمیشہ محروم رہے۔
ترقی یافتہ دنیا باقی دنیا کو پس ماندہ رکھنے کے لیے جو ہتھکنڈے اختیار کرتی ہے‘ وہی ہتھکنڈے امریکا اور یورپ نے بھی اختیار کیے۔ دنیا بھر کے ڈکٹیٹرز اپنی اپنی قوم کو لوٹ کو ساری دولت امریکا اور یورپ پہنچاتے رہے۔ پس ماندہ ممالک کے کرپٹ سرکاری افسران اور سیاستدان اپنے مالیاتی اثاثے یورپ اور امریکا میں رکھنا پسند کرتے ہیں۔ چند دوسرے ممالک میں بھی کاروبار کیا جاتا ہے؛ تاہم ترجیح امریکا اور یورپ کو دی جاتی ہے۔ وزیر اعظم صاحب کہتے ہیں ''ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک سے ترقی یافتہ ممالک کو مالیاتی وسائل کی غیر قانونی منتقلی ایک بڑا اور تباہ کن ایشو ہے۔ اس سے پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں افلاس کی شرح بلند ہو رہی ہے۔ مغربی ممالک نے ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کے کرپٹ لوگوں کی دولت واپس کرنے کا نظام پیچیدہ بنادیا ہے۔ اس حوالے سے کوئی راہ نکالنی چاہیے‘‘۔ بالکل درست! امریکا اور یورپ نے آج بھی پس ماندہ دنیا کے سینکڑوں ارب ڈالر داب رکھے ہیں۔ اس حوالے سے بات کی جائے تو ٹکا سا جواب ملتا ہے۔ افغانستان ہی کی مثال لیجیے۔ گزشتہ برس طالبان نے جب اقتدار پر قبضہ کیا تو امریکا نے افغانستان کے اربوں ڈالر کے مالیاتی اثاثے منجمد کر دیے۔ اب تھوڑی بہت رقم دی جارہی ہے۔ پیسہ افغان عوام کا ہے مگر اُنہی کو دینے سے انکار کیا جارہا ہے۔
وزیر اعظم صاحب کے دورۂ روس کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ مغرب روس کے خلاف کھڑا ہے اور ہم روس کے ساتھ جا کھڑے ہوئے ہیں۔ بہت سوں کی نظر میں یہ سٹریٹیجک خود کشی ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے! امریکا اور یورپ کا ساتھ دے کر ہمیں کیا مل گیا تھا جو اب کچھ ہاتھ نہ آئے گا؟ خان صاحب کے دورۂ روس سے پاکستان کو اور کچھ ملے نہ ملے‘ یہ اطمینان تو ہو ہی گیا کہ امریکا اور یورپ کو کسی سطح پر کوئی پیغام دیا جاسکتا ہے۔ ہمارے بعض مبصرین اِسے غلط فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے وقت ہمارے وزیر اعظم صاحب کا روس کے دارالحکومت میں ہونا ایسی کون سی بُری بات ہوگئی کہ امریکا اور یورپ ہمارا جینا حرام کردیں گے؟ اُن کی تو اپنی نیندیں اُڑی ہوئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دورے کی ٹائمنگ تھوڑی عجیب ہے مگر یہ ذہن نشین رہے کہ یہ علامتی انداز بظاہر دانستہ اختیار کیا گیا۔
بھارت کی ڈیفنس اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے کہا ہے کہ عمران خان کا دورۂ روس اسلام آباد اور ماسکو کو قریب لے آئے گا‘ دونوں کے مابین فاصلے اور اجنبیت ختم کرنے میں چین نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ ہے ساری بات! ہم کب تک امریکا پر ہی تکیہ کرتے؟ اگر ساتھ دینا ہی ٹھہرا تو کیوں نہ اپنے بیک یارڈ میں واقع ملک کا دیا جائے اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ وہ مضبوط ہے، ہمارے مفادات کو بہت حد تک تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا سمیت بہت سے بھارتی اخبارات نے ایک ملکی تجزیہ کار کے الفاظ چراکر لکھا ہے کہ یہ دورہ پاکستان کے لیے خسارے کا سودا ثابت ہو سکتا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا لکھتا ہے کہ روس کے لیے بھارت آج بھی اہم ہے اور ولادیمیر پوتن پاکستان یا کسی اور ملک کی خاطر بھارت سے ہاتھ دھونا پسند نہیں کریں گے۔ یہ سب محض گپ شپ کا مواد ہے۔ بھارت یہ بات بھول گیا کہ کوئی کسی کے لیے سدا ناگزیر نہیں رہتا۔ اس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یوکرین کے بحران پر امریکا کی شدید مخاصمت کا سامنا کرنے کے لیے روس کو بھارت کی اشد ضرورت ہے! بھارتی میڈیا کے مطابق ذرائع نے بتایا ہے کہ روسی قیادت پاکستان میں چند بڑے منصوبے شروع کرنا چاہتی ہے۔ بہت سے مبصرین اِس معاملے کو ایک نیا بلاک بنانے کی تیاریوں کے روپ میں دیکھ رہے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اب امریکا اور یورپ سے دور ہٹ رہا ہے؟ امریکا اور متعدد یورپی ریاستوں نے سرمائی اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کیا مگر روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ عمران خان صاحب افتتاحی تقریب میں پُرجوش انداز سے شریک ہوئے۔ یہ بھی امریکا اور یورپ کے لیے پیغام کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہاں اہم سوال یہ بھی ہے کہ جو کچھ حکومت کر رہی ہیں کیا اُسے مقتدرہ کی منظوری حاصل ہے؟ اب تک تو کسی بھی مرحلے پر کوئی ایسی بات نہیں کہی گئی جس سے معاملات کے کثیف ہونے کا پتا چلتا ہو۔ امریکا اور یورپ نے آج تک کسی کو دائمی دوست رکھا ہے نہ دائمی دشمن۔ یہی روش ہمیں بھی اختیار کرنا ہے۔ عالمی سیاست و معیشت میں کوئی کسی کا مستقل حریف ہوتا ہے نہ حلیف۔ سب کچھ صورتِ حال پر منحصر ہوتا ہے۔
کیا ملے گا اور کیا نہیں ملے گا‘ یہ بحث لاحاصل ہے۔ سیاست و سفارت میں ٹائمنگ سے اہم کوئی بات نہیں۔ وزیر اعظم صاحب نے چین اور روس کی طرف جھکاؤ ظاہر کیا ہے۔ یہ کوئی جرم نہیں! امریکا اور یورپ ناراض ہوتے ہیں‘ تو ہوں۔ ہمیں اُنہوں نے دیا ہی کیا ہے کہ اب اُن کی ناراضی ہم سے کچھ چھین لے گی۔ وقت آگیا ہے کہ ہم حتمی طور پر طے کریں کہ ہمارے مفادات کا تحفظ کس کے ساتھ چلنے میں ہے۔ سہمے رہنے سے کچھ نہیں ملنے والا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved