پیارے حجامو! آپ کا صفحہ شروع کرنے سے پہلے ہم کافی عرصے تک اسی شش وپنج میں رہے کہ آپ کو کس نام سے پکارا جائے کیونکہ موتراش یا زلف تراش سے ذہن فوراً جیب تراش کی طرف چلا جاتا ہے جبکہ باربر کہنے سے باربیرین ازم کی طرف دھیان چلا جاتا ہے۔ لفظ نائی کو ہم ویسے ہی مناسب نہیں سمجھتے حالانکہ کسی زمانے میں اسے باقاعدہ ایک ادارے کی حیثیت حاصل تھی۔ جب دعوتی کارڈ وغیرہ رائج نہیں ہوئے تھے تو شادی کی دعوت دینے نائی ہی گانٹھ لے کر جایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ نائن کی ایک اپنی شخصیت ہوا کرتی تھی جو برات کے ہمراہ جایا کرتی۔ اسی ضمن میں منقول ہے کہ ایک بار جب حق مہر وغیرہ کے موضوع پر دونوں فریقوں میں جھگڑا ہوگیا، اور براتی اٹھ کر جانے لگے تو نائن انہیں یہ کہہ کہہ کرمنانے کی کوشش کرتی رہی کہ کم ازکم میرے منہ کی طرف ہی دیکھو اس کے علاوہ نائی کو ایک باقاعدہ جراح کی بھی حیثیت حاصل تھی اور پیچیدہ سے پیچیدہ آپریشن بھی اس کے بائیں ہاتھ کا کرتب ہوا کرتا تھا حتیٰ کہ سرجری کی بدعت نے اس سارے کاروبار پر قبضہ ہی کر لیا جبکہ گرم حمام کی روایت اب تک چلی آرہی ہے، حتیٰ کہ اب تو آپ لوگوں نے جگہ جگہ بیوٹی پارلر کھول لیے ہیں اور اس پیشے نے باقاعدہ ایک ادارے کی حیثیت اختیار کرلی ہے اور یہ اجتماعی ترقی کی ایک شکل ہے جبکہ نائنوں نے الگ سے زنانہ پارلر کھول لیے ہیں اور شادی سے پہلے ہردلہن اسی حسن کدے سے کندن ہوکر نکلتی ہے۔ امید ہے اپنے نام یا لقب کے سلسلے میں بھی آپ ہماری رہنمائی کریں گے اور ہماری اس کاوش کے بارے بھی اپنی قیمتی رائے سے نوازیں گے ۔ سبق آموزواقعات ٭ گائوں میں ایک زمیندار لڑکے اور حجام زادے میں دوستی ہوگئی اور زیادہ تر وہ اکٹھے ہی دیکھے جاتے ایک دن زمیندار زادے نے اسے کہا کہ شہر میں چل کر چند دن رہنا اور وہاں کی رونقیں دیکھنی چاہیں، چنانچہ دونوں شہرچلے گئے۔ ایک دن زمیندار زادے نے کہا کہ بال ہم دونوں کے بڑھ گئے ہیں، کہیں سے حجامت کروانی چاہیے۔ حجام زادے نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور ایک باربر شاپ جاپہنچے ۔ پہلے زمیندار زادے نے کٹنگ کروائی۔ اس کے بعد جب حجام زادے کی باری آئی تو زمیندار زادے نے باربر سے کہا کہ ان کے بال ذرا دھیان سے کاٹنا۔ باربر نے وجہ پوچھی تو زمیندار زادے نے کہا، اس لیے یہ کام کو ذرا سمجھتے ہیں۔ ٭ ایک صاحب کے سر کے بال کافی حدتک اڑ چکے تھے جو حجامت کروانے گئے۔ جب فارغ ہوئے تو انہوں نے حجام سے معاوضہ پوچھا جس نے معمول سے زیادہ بتادیا۔ وجہ پوچھنے پر حجام نے کہا کہ آپ کی اجرت اس لیے زیادہ ہے کہ آپ کے بال مجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کاٹنا پڑے ہیں ! ٭ ایک بیوٹی پارلر کے باہر اس عبارت کا نوٹس چسپاں تھا کہ ہمارے پارلر سے باہر نکلتی ہوئی کسی خاتون کو آنکھ مارنے کی کوشش نہ کریں، ہوسکتا ہے وہ آپ کی ساس ہو! پسندیدہ اشعار گاہک کی ہوگئی حجامت ایسا تھا دکاندار نوا پھر پرستش جراحت دل کو چلا ہے عشق سامان صدہزار نمکداں کیے ہوئے مصحفی میں نے تو سوچا تھا کہ ہوگا کوئی زخم تیرے دل میں تو بڑا کام رفو کا نکلا! بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جوچیرا تو اک قطرۂ خون نہ نکلا سبزۂ خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا یہ زمرد بھی حریف دم افعی نہ ہوا شاہ کے ہے غسل صحت کی خبر دیکھیے کب دن پھریں حمام کے ایڈیٹر کی ڈاک مکرمی! آپ کے مؤقر ہفت روزہ کے ذریعے اپنے طبقے کی چند شکایات گوش گزار کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ اپنے کسی ادارے کے ذریعے ان کے تدارک کی کوئی صورت نکال سکیں۔ پیشگی شکریہ! پہلی تو یہ ہے کہ ہمیں اردو کے چند محاوروں پر سخت اعتراض ہے، مثلاً سرمنڈاتے ہی اولے پڑے ۔اس پرہمارا اعتراض یہ ہے کہ اس طرح ہمارے گاہکوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جونہی وہ سرمنڈائیں گے۔ فوراً اولے پڑنا شروع ہوجائیں گے۔ یہ بہت زیادتی ہے اور ہماری روزی پر لات مارنے کی ایک براہ راست کوشش۔ اس کے علاوہ ایک محاورہ ہے اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ آدمی ننگا ہی نہاتا ہے نہ کہ کپڑے پہن کر، علاوہ ازیں ایک محاورہ ہے بندر کے ہاتھ میں استرا تھما دینا ۔ یہ بھی خلاف واقعہ ہے کیونکہ کوئی بھی حجام اپنا ہتھیار کسی کو تھمانے کا روادار نہیں ہوا۔ اور پھر وہ بھی ایک بندر کو، جوشیوکرنا بالکل نہیں جانتا۔ ایک محاورہ ہے، دھیلے کی بڑھیا ٹکا سرمنڈائی۔ یہ بھی ہمارے کاروبار کے لیے سخت نقصان دہ ہے کیونکہ اس سے ہماری اجرت صرف ایک ٹکا بتائی گئی ہے جو سراسر زیادتی ہے، اگرچہ بڑھیا تو دھیلے کی ہوسکتی ہے بلکہ بعض ازکاررفت بڑھیائیں تو دھیلے میں بھی مہنگی پڑتی ہوں گی۔ پھر، ایک محاورہ ہے زبان کا قینچی کی طرح چلنا۔ اس پر ہمارے علاوہ درزی حضرات کو بھی اعتراض ہوسکتا ہے۔ مزید برآں بغلیں جھانکنے والا محاورہ بھی قابل اعتراض ہے جس کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ بغلیں جھانک کر دیکھی جائیں کہ وہ صاف ہیں یا ان پر بال اگے ہوئے ہیں جبکہ یہ حرکت آدمی کی پرائیویسی کے بھی خلاف ہے۔ علاوہ ازیں۔ فرنچ کٹ داڑھی بھی ہماری اپنی ایجاد ہے جس کا فرانس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور ہماری اس کاوش کو خواہ مخواہ فرانس کے کھاتے ہی ڈال دیا گیا ہے۔ امید ہے آپ ان معروضات پر ہمدردانہ غور فرمائیں گے۔ فقط : ایک ستم رسیدہ حجام آج کا مقطع جن گلیوں سے گزرا تھا وہ کبھی ظفرؔ اب تک ان میں آیا جاتاکرتا ہوں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved