تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     03-03-2022

ایک صدی جیسی رات‘ ایک عمر جیسا دن

کراچی کے ایک ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے باہر مریضوں کے ہمراہ لوگوں کے لیے بنی انتظار گاہ میں میرے لیے ایک ایک پل کاٹنا مشکل ہو رہا تھا۔ رات نے زمین کو اپنی آغوش میں لے لیا تھا، اور نیند زمین والوں کو اپنی آغوش میں لے چکی تھی، لیکن ہمارے شب و روز میں دن اور رات کی تقسیم واجبی سی رہ گئی تھی۔ جو بھی وقت تھا، ایک ہی مرکز اور محور کے گرد گھوم رہا تھا۔ اور وہ محور تھا میرے بھائی جان! مفتی محمود اشرف عثمانی، جنہیں ہم 26 فروری کی صبح تمام تر مایوسیوں کے باوجود امید کی ایک کرن کے ساتھ ایک ہمدرد ڈاکٹر فرخ عمیر صاحب کے مشورے پر ہسپتال لے آئے تھے۔ 26 فروری کا سارا دن امید و بیم کے عالم میں گزرا تھا اور عصر کے وقت اس بات نے امید کی شمع جگمگا دی تھی کہ بھائی جان نے کئی دن کی مسلسل غشی کی کیفیت کے بعد آنکھیں کھولی تھیں۔ اپنے بیٹے سجاد اشرف عثمانی سے اور ڈاکٹروں سے مختصر بات کی تھی۔ یہ کتنی بڑی خبر تھی‘ اس کا اندازہ وہ لوگ لگا سکتے ہیں جو اپنے کسی پیارے کی کسی آواز،کسی بات کے لیے کئی دنوں سے ترس چکے ہوں اور اب اس کی امید ہی باقی نہ رہی ہو۔
میں اپنے بھائی جان کو ان القابات، ان تعظیمی کلمات، ان خطابات کے ساتھ یاد نہیں کرتا اور کرنا نہیں چاہتا جس سے انہیں پوری دنیا کے اہل علم، ان کے شاگرد اور ان کے رفقائے کرام یاد کرتے تھے۔ بہت بڑے مفتی اور عالم، بہت بڑے استاد، بہت بڑے مصنف اور بہت بڑے مصلح کے القابات اور خطابات سے تو انہیں ایک دنیا یاد کرتی ہے اور کرتی رہے گی لیکن بھائی جان کہنے کا حق تو گنے چنے لوگوں کے پاس تھا اور میں بھی انہی گنے چنے لوگوں میں سے ایک ہوں۔ میں جب بھی انہیں دنیا بھر کی طرح ان القابات کے ساتھ یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے ان سے اجنبیت اور دوری کی بو آنے لگتی ہے۔ میں اس غیریت پر راضی نہیں ہوں۔ بھائی جان کے لفظ میں میرے لیے وہ سب کچھ ہے جو دراصل ہمارے بھائی جان تھے اور ہمارے لیے رہیں گے۔
کافی دن پہلے ہی سے بھائی جان کی صحت کی طرف سے تشویش ناک اطلاعات مل رہی تھیں۔ ایسے میں کراچی اور لاہور کی دوری کئی ہزار میل بڑھ گئی تھی۔ وہ جامعہ دارالعلوم کراچی میں مقیم تھے جہاں وہ سال ہا سال سے بخاری شریف کا درس دیا کرتے تھے اور دار الافتاء کی روح رواں تھے۔ بہت مدت سے ان کی زندگی کی دل چسپیوں میں اہم ترین یہی دو مصروفیات تھیں اور یہ بات سب جانتے تھے۔ بطور مفتی وہ میرے چچا مفتیٔ اعظم پاکستان جناب مفتی محمد رفیع عثمانی اور میرے دوسرے چچا، عالم اسلام کے محبوب عالم مفتی محمد تقی عثمانی کے معتمد ترین لوگوں میں تھے۔ وہ اپنے چچاؤںکے تربیت یافتہ ہی نہیں ان کے چہیتے بھی تھے۔ اور یہ تو محض دو نام ہیں۔ بھائی جان نے زندگی بھر تعلیم اور تربیت ان لوگوں سے حاصل کی تھی جن میں ہر ایک اپنی جگہ آفتاب و ماہتاب کے مانند روشن تھا۔ ایسی تعلیم اور ایسی تربیت کے ساتھ ایسی توجہ اور ایسی محبت ان کے ہم عمروں میں یا بعد کے لوگوں میں کس کو ملی ہو گی؟ ہے کوئی اور نام؟ ہے کوئی ان معاملات میں ان کا ہمسر؟ یہ توفیق تھی اور ایسی توفیق اور عطا تو خال خال ہی کسی کو ملتی ہے۔
ہم لاہور میں تھے اور لاہور سے کراچی کا فاصلہ کئی ہزار میل بڑھ گیا تھا۔ پل پل کی خبریں مل رہی تھیں اور زندگی چاہے کسی رخ پر بھی چل رہی ہو، اس کا رخ ایک ہی طرف تھا۔ آپ سب جانتے ہیں کہ کوئی پیارا، کوئی دلدار ایسی تشویشناک حالت میں ہو تو دوری برداشت کرنا ایک الگ تکلیف ہے۔ آنکھوں کے سامنے ہو‘ تو کچھ قرار تو آ ہی جاتا ہے۔ ہم اسی بے قراری میں دن رات کاٹتے تھے اور دن رات ہمیں کاٹتے تھے۔
پل پل کی خبروں میں یہ خبر بھی تھی کہ ڈاکٹر سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں لیکن پیچیدگیاں بڑھ گئی ہیں اور اب مکمل غشی کی کیفیت ہے۔24 فروری کی رات جب میں کراچی اترا، اور ان کے گھر پہنچا تو ہمیشہ پرجوش اور گرم جوش محبت بھری آواز کے ساتھ استقبال کرنے والے بھائی جان مشینوں، پلاسٹک کی نالیوں اور آکسیجن سلنڈروں میں گھرے ہوئے تھے۔ انہیں اس عالم میں دیکھنا کیسا روح فرسا تھا، آپ اندازہ کر سکتے ہیں، مگر شاید آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔ وہ اپنی خواب گاہ میں نہیں بلکہ اس کتب خانے، محبوب ترین کتابوں والے کمرے میں تھے۔ وہ کتابیں جن سے وہ ساری زندگی محبت کرتے رہے اور جو ان سے ساری زندگی محبت کرتی رہیں۔ ہم ان کے سرہانے کھڑے ہو کر بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ بس میں کچھ بھی نہ تھا سوائے ان دعاؤں کے جو ہمیشہ سہارا دیا کرتی ہیں۔ میں نے ان کے سرہانے کھڑے ہوکر انہیں پکارا اور کہا کہ بھائی جان! میں سعود ہوں تو حیرت انگیز طور پر انہوں نے میری طرف گردن موڑی اور آنکھیں کھولیں۔ 24 فروری کی رات سے 26 فروری کی صبح تک یہی ناشناس، صبر آزما وقت ہمیں قاش در قاش کاٹتا اور گزرتا رہا۔ ایک بار ہمارے محبوب چچا جناب رفیع عثمانی‘ جو خود سخت علیل ہیں‘ ان کے سرہانے تشریف لائے۔ اس موقع پر میں نے پھر بھائی جان کو پکارا۔ اپنا نام بتایا اور کہا کہ چچا رفیع تشریف لائے ہیں۔ تو حیرت انگیز طور پر انہوں نے پھر گردن موڑ کر اور آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا، اور دونوں ہاتھ بلند کرکے سب کو سلام کیا۔ مکمل غشی کے ان دو دنوں میں کم از کم چار بار ایسا ہوا جس کی کوئی تشریح میرے بس میں نہیں ہے۔
ان کے بچوں عزیزم سجاد اشرف عثمانی، عباد اشرف عثمانی اور وراد اشرف عثمانی نے خدمت کا حق ادا کیا۔ ایک دو دن نہیں اس طویل علالت کے پورے دورانیے میں۔ دوا اور ہر قسم کے ممکن علاج میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کے آرام کے لیے ہر ممکن انتظام کیا۔ نہ دن دیکھا نہ رات۔ وہ ہمہ وقت اپنے محبوب باپ کے پاس موجود تھے۔ اسی طرح گھر کی خواتین نے بے مثال خدمت کی جو ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ 26 فروری کی صبح ڈاکٹر فرخ عمیر نے ان کا تفصیلی معائنہ کیا۔ ان کا مشورہ تھا کہ اس مایوسی کی صورتِ حال میں ایک کوشش کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کے لیے انہیں ہسپتال لے جانا ضروری ہوگا جہاں ایک خاص جدید ترین مشین کے ذریعے ان کے گردوں کی صفائی کے ذریعے صورت حال کی بہتری کی کوشش کی جائے گی۔
اس صبح ہم امید و بیم کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ ہسپتال پہنچے۔ اور دوپہر کے بعد‘ ضروری ٹیسٹوں کے بعد صفائی کا یہ عمل شروع ہوا۔ عصر کے وقت یہ حوصلہ افزا خبریں آنا شروع ہوئیں کہ صفائی کا عمل بھی پورا ہوگیا ہے اور بلڈ پریشر، کے ساتھ ساتھ باقی چیزیں بھی بہتر ہوئی ہیں لیکن جب یہ خبریں آئیں کہ بھائی جان نے آ نکھیں کھولیں‘ اپنے بیٹے سجاد عثمانی سے بات کی‘ اسے پہچانا‘ ڈاکٹر کے کہنے پر اپنا نام بتایا اور اس کی ہدایت پر اپنا ہاتھ بلند کیا تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں‘ لیکن نہیں! آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved