دنیا کا کوئی بھی خطہ کالے دھن کی علت سے پاک نہیں اور یہ ملکی معیشتوں میں خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں اسی لیے انہوں نے ''ٹیکس ہیونز‘‘ کے نام سے دنیا بھر سے کالا دھن اپنے ملکوں میں لانے کا باقاعدہ نظام بنا رکھا ہے۔ اگر ان ممالک میں سے غیر قانونی پیسہ نکال لیاجائے توان کی اکانومی کریش کر سکتی ہے۔ پاناما، برٹش ورجن آئی لینڈ، سوئٹزرلینڈ، سنگاپور اور دبئی سمیت کئی ممالک اور ریاستیں دنیا بھر سے ارب پتی لوگوں اور کمپنیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ پیسہ ان کے ملک میں لائیں، پراپرٹی خریدیں یا کاروبار شروع کریں‘ ان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ پوری دنیا سے لوگ ان ممالک میں غیر قانونی طریقے سے سرمایہ لے کر جاتے ہیں اور اپنے ملک کی ترقی میں حصہ ڈالنے کے بجائے دوسرے ممالک کی معیشتوں کو سہارا دینے کا کام کرتے ہیں جبکہ دوراندیش حکمران یہ پیسہ باہر جانے سے روک کر اپنے ہی ملک میں استعمال کی پالیسی بناتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو یورپ، امریکا اور برطانیہ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ انہیں ملک کا پیسہ اپنے ہی ملک میں ہی رکھنے کے لیے ایمنسٹی سکیمیں لانچ کرتے رہنا چاہیے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ٹیکس کلچر کو فروغ نہ دیا جائے یا پھر کرپشن کرنے والوں کو کھلی چھٹی دے دی جائے۔ ملکی نظام سخت معاشی پالیسیوں کے ساتھ چلتا رہنا چاہیے لیکن جب ضرورت محسوس ہو‘ پریشر ککر میں سے ہوا نکالنے کا راستہ بنا دینا ہی عقل مندی کے زمرے میں آتا ہے ورنہ پریشر ککر پھٹنے کا اندیشہ رہتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں تین ایمنسٹی سکیمیں لانچ کی ہیں۔ پہلی دو سکیموں کے مثبت اثرات سامنے آئے۔ سب سے پہلے 2019ء میں ٹیکس ایمنسٹی سکیم لائی گئی‘ اس کے بعد 2020ء میں کنسٹرکشن ایمنسٹی سکیم لائی گئی اور اب 28 فروری 2022ء کو کابینہ سے منظوری کے بعد انڈسٹری ایمنسٹی سکیم لانچ کی گئی ہے۔ انڈسٹری ایمنسٹی سکیم سے متعلق میں کئی سالوں سے لکھ رہا ہوں۔ پچھلی دونوں سکیموں کی لانچ پر میں نے اس امر پر زور دیا تھا کہ پراپرٹی کے بجائے ملک میں صنعتیں لگانے کے لیے عوام کو کھلی چھوٹ دی جائے‘ انہیں یقین دلایا جائے کہ اگر وہ ملک میں فیکٹریاں لگائیں گے تو ان سے نہیں پوچھا جائے گا کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ اس کے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ روزگار بڑھے گا، برآمدات میں اضافہ ہو گا، مہنگائی کم ہو گی، معیشت کا پہیہ تیز چلے گا، فی کس آمدن بہتر ہو گی اور ملک کی شرحِ نمو میں ریکارڈ اضافہ ہو گا۔ وزیراعظم صاحب! دیر آید درست آید! اس وقت ملک میں ٹیکسٹائل کی صنعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے‘ پاکستان نے بنگلہ دیش اور بھارت کی ٹیکسٹائل برآمدات کو ٹکر دی ہے حتیٰ کہ چین بھی پاکستان کی مہریں لگا کر ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کر رہا ہے۔ اس صورتحال میں ایمنسٹی سکیم ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مزید پھیلاؤ کا سبب بن سکتی ہے اور ملک کا پیسہ غیر قانونی طریقے سے باہر جانے کے بجائے ملک میں ہی استعمال ہو سکے گا۔
وزیراعظم صاحب نے بیرونِ ملک پاکستانیوں کو بھی اس سکیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سکیم کے مطابق بیرونِ ملک سے سرمایہ لانے والوں کو کاروبار شروع کرنے پر پانچ سال کے لیے ٹیکس چھوٹ دی جائے گی۔ مقامی کمپنیوں کے ساتھ الحاق کر کے نئی انڈسڑی لگانے والوں کو بھی ٹیکس چھوٹ کی سہولت ملے گی۔ اس وقت پاکستان کی مینوفیکچرنگ بیس 13 فیصد ہے جسے 25 فیصد تک لے جانے کا عزم کیا گیا ہے۔ ایمنسٹی کا ریٹ 5 فیصد رکھا گیا ہے جس سے یکمشت اربوں روپے ٹیکس اکٹھا ہونے کی امید ہے۔ آئی ٹی سیکٹر اور فری لانسرز کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 10 روپے اور بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 5 روپے کمی کا فیصلہ بھی خوش آئند ہے۔ سرکار نے جون میں پیش کیے جانے والے سالانہ بجٹ تک قیمتوں میں ردو بدل نہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ گو کہ یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے فنڈز کہاں سے آئیں گے لیکن شوکت ترین صاحب کے مطابق‘ حکومت کے پاس ٹیکس لیوی اور سیلز ٹیکس کی مد میں رقم موجود ہے جسے استعمال کر کے اس نقصان کو پورا کیا جائے گا‘ اگر حکومت کو سبسڈی دینا پڑی تو وہ بھی دی جا سکتی ہے۔
اس حوالے سے جب میں نے ظفر پراچہ صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ایمنسٹی سکیم کو کامیاب کرنے کے لیے حکومت کی نیت درست دکھائی دیتی ہے اور آئی ایم ایف سے منظوری بھی لے لی گئی ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر من و عن عمل کیا ہے۔ منی بجٹ کے ذریعے 375 ارب روپے سے زیادہ ٹیکس لگائے گئے ہیں‘ سٹیٹ بینک کو آزاد کر دیا گیا ہے‘ ایف بی آر نے سات ماہ میں اہداف سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کر لیا ہے اور ممکنہ طور پر مالی سال 2021-22ء کے اختتام سے پہلے ہی سالانہ ٹیکس اہداف حاصل ہو جائیں گے۔ منی بجٹ میں تقریباً ہر چیز پر سیلز ٹیکس لگنے سے آمدن کے ذرائع بڑھ گئے ہیں۔ حکومت کا یہ موقف ہے کہ آئی ایم ایف ہمیں یہ نہ بتائے کہ کس مد میں ٹیکس لگانا ہے اور کس پر نہیں! ہم اپنی مرضی سے ٹیکس لگا کر آئی ایم ایف کے اہداف حاصل کر لیں گے۔ ظفر پراچہ صاحب کی رائے محترم ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شاید حکومت نے صحیح معاشی سمت کا تعین کر لیا ہے لیکن اپوزیشن اب بھی نالاں دکھائی دیتی ہے۔ کبھی یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ رعایت عارضی ہے‘ مارچ کے مہینے سے سعودی عرب کے ڈیڑھ ارب ڈالر ادھار تیل معاہدے پر عمل درآمد شروع ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ریٹس کم کیے گئے ہیں اور کبھی یہ کہا جا رہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے ریٹ کم کر کے‘ آئندہ حکومت کے لیے مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں بلکہ کچھ اپوزیشن ارکان نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ تیل کی قیمتیں کم کر کے ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ان دعووں پر اگر ایک نظر دوڑائی جائے تو سعودی عرب سے ادھار تیل ملنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تیل سستا مل رہا ہے۔ اس کا فرق ڈالر کی رسد اور طلب پر تو پڑ سکتا ہے لیکن تیل کی قیمتوں پر اس کا اثر نہیں پڑ سکتا۔ مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں 100 ڈالر فی بیرل سے بڑھ گئی ہیں‘ اگر سرکار تمام ٹیکسز عوام سے وصول کرے تو فی لیٹر پٹرول کی قیمت 220 روپے سے تجاوز کر سکتی ہے۔
پیٹرول کی قیمتیں کم کرنا‘ آئندہ حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا بیان مضحکہ خیز دکھائی دیتا ہے۔ عام انتخابات میں ابھی تقریباً ڈیرھ سال کا وقت ہے۔ سرکار کے پاس اتنے ذخائر نہیں کہ وہ اتنے لمبے عرصے تک اربوں ڈالر کی سبسڈی برداشت کر سکے۔ یقینا حکومت نے کوئی بہتر حل تلاش کر رکھا ہوگا۔ اس کے علاوہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا بیان بھی سمجھ سے بالا تر ہے۔ قومی خزانے میں پیسہ عوام کے ٹیکس سے جمع ہوتا ہے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے قومی خزانے کا استعمال نقصان کے مترادف ہرگز نہیں ہو سکتا۔ البتہ انڈسٹری ایمنسٹی سکیم سے جی ڈی پی میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن مشینری کی درآمدات سے ڈالر پر دبائو بڑھ سکتاہے۔ جب بھی ملکی معیشت 5 فیصد شرحِ نمو تک پہنچتی ہے تو کرنٹ اکائونٹ خسارے میں بھی ریکارڈ اضافہ ہو جاتا ہے لیکن یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ ترقی کی ابتدائی صورتحال ایسی ہی ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمام اشاریے ایک ہی مرحلے میں مثبت ہو جائیں۔ ایک مرتبہ مشینری درآمد کر لی گئی تو اسے مقامی سطح پر تیار کرنے کے پلانٹس میں بہ آسانی لگائے جا سکتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے صنعت کاروں کو جانتا ہوں جو ٹیکسٹائل مشینری کے درآمد کیے گئے پارٹس اب پاکستان میں مینوفیکچر کر رہے ہیں۔ وہ معیار میں بہتر اور قیمت میں بھی کم ہیں۔ ان حالات میں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دن ماضی سے بہتر ہوں گے اور عام پاکستانی معاشی اعتبار سے بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے گا۔