آسانیاں پیدا کرنے والی کسی بھی چیز کو کثرتِ استعمال کے ذریعے مشکلات پیدا کرنے والی شے میں تبدیل کرنے والی ذہنیت دم توڑنے کا نام نہیں لے رہی۔ ہر ایجاد، دریافت یا اختراع اول و آخر اس لیے ہوتی ہے کہ ہم اپنے لیے چند ایک معاملات میں آسانی کا اہتمام کریں۔ معاملہ یہ ہے کہ ہم آسانی پیدا کرنے والی ہر چیز کے استعمال کے معاملے میں اپنے آپ کو بے لگام چھوڑ دیتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے معاملات ہمارے اختیار کے دائرے سے باہر نکل جاتے ہیں۔ آئی ٹی کے شعبے میں ہونے والی نمایاں پیش رفت نے ابلاغ کے ذرائع کو فقید المثال ترقی دے کر رابطے ایسے آسان بنادیے ہیں کہ کبھی کبھی تو سب کچھ خواب سا معلوم ہوتا ہے۔ سمارٹ فون، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کی مدد سے ہم نہ صرف یہ کہ تیزی سے رابطہ کرلیتے ہیں بلکہ انٹرنیٹ کی مدد سے پوری دنیا سے جڑے رہتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے باقی دنیا سے جڑے رہنے کی حالت (connectivity) نے آج کے انسان کو ذہنی مریض بنا ڈالا ہے۔ لوگ حقیقی دنیا چھوڑ کر ''سائبر سپیس‘‘ یا ''ورچوئل ورلڈ‘‘ کا حصہ بنے رہنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ کیوں؟ اِس کیوں کے جواب میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ طویل بحث کی تو یہاں گنجائش نہیں مگر ہاں! یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آج کے انسان کو یہ نشہ سا ہوگیا ہے کہ ہر وقت سب کی خدمت میں حاضر رہیے اور اپنے وجود کو بھول کر دوسروں میں گم ہو جائیے۔
سمارٹ فون کی مدد سے ہم دنیا سے جڑے رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں کسی سے بھی رابطہ کرنا اب کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ سوشل میڈیا پورٹلز نے پوری دنیا کو سمیٹ کر سمارٹ فون کے ذریعے ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ہم نے خود ہی آسانی کو مشکل بنا ڈالا ہے۔ سمارٹ فون کے ذریعے سوشل میڈیا ہماری زندگی میں یوں آیا کہ اب ہم بھی اپنے نہیں رہے۔ وقت کا قتلِ عام کرنے کے لیے جو چھرا درکار ہوسکتا تھا وہ سمارٹ فون کے ذریعے ہمیں دے دیا گیا ہے۔ اور ہم اس چھرے کو انتہائی بے ذہنی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ تصور ٹھونس دیا گیا ہے کہ دوسروں سے جڑے رہنا ہی زندگی ہے۔ دوسروں سے جڑے رہنے کا تصور اب یہ ہے کہ میڈیا پورٹلز کے ذریعے سب سے رابطے میں رہیے، اُن کی بھیجی ہوئی پوسٹس دیکھتے رہیے، اُن پر تبصرے کیجیے، خود بھی کچھ لکھئے، کچھ ریکارڈ کیجیے اور دوسروں کو بھیجئے۔ جو ایسا نہیں کرسکتے‘ وہ دوسروں کی بھیجی ہوئی پوسٹس کو آگے بڑھانے پر اکتفا کرتے ہیں۔
اب ہمارے معمولات کچھ کے کچھ ہوگئے ہیں۔ لیل و نہار کا انداز تبدیل ہوگیا ہے۔ زندگی کا رُخ ہی بدل گیا ہے۔ معاشرہ شدید بے ذہنی کی لپیٹ میں ہے۔ لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں زندگی صرف اس مقصد کے لیے عطا کی گئی کہ اِسے ''کنیکٹویٹی‘‘ کی نذر کردیا جائے۔ سمارٹ فون کے بڑھتے ہوئے استعمال نے دنیا بھر میں الجھنیں بڑھادی ہیں۔ معاشرتی معاملات بہت تیزی سے بگاڑ کی طرف جارہے ہیں۔ کئی پس ماندہ اور ترقی پذیر معاشرے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ لوگ دن رات سائبر سپیس یا ورچوئل دنیا میں جیتے ہیں۔ آن لائن رہنے کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ تصور راسخ ہوتا جارہا ہے کہ ہر وقت رابطے میں رہنا زندگی کی انتہائی بنیادی قدر ہے اور یہ کہ یہ جاننا بھی لازم ہے کہ دنیا کیا سوچ رہی ہے، کس طرف جارہی ہے۔ کیا دوسروں سے ہر وقت جڑے رہنا اور اُن کے خیالات جاننا ہمارے لیے لازم ہے؟ کسی بھی درجے میں نہیں! جاننا ضروری ہے بھی تو سب کچھ جاننا ضروری نہیں۔ جن معاملات سے ہمارا دور کا بھی تعلق نہ بنتا ہو اُن کے بارے میں جاننا تو بالکل بھی ضروری نہیں۔ دنیا میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہمارا ہے نہ ہمارے کام کا ہے۔ جو چیز ہمارے کام کی نہیں اُس کے بارے میں جاننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم سب کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ کوئی کچھ بھی کرلے‘ وقت طے شدہ ہے۔ جو وقت ضائع ہو جاتا ہے وہ واپس نہیں لایا جاسکتا۔ وقت ہی سب کچھ ہے۔ ایمان کے بعد یہی روئے ارض پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ زندگی یعنی وقت! وقت یعنی دنیا میں کچھ کرنے کی مہلت جس کا حساب حشر کے میدان میں لیا جائے گا۔ ہم نے روئے ارض پر بخشے گئے وقت کو جس طور خرچ کیا ہوگا اُسی کے مطابق حساب دینا پڑے گا۔ وقت ایسی نعمت ایسی ہرگز نہیں کہ سوشل میڈیا کی بے ہنگم اور بے مقصد پوسٹس پر ضائع کردی جائے۔ سمارٹ فون کی لت ہمارا وقت بُری طرح کھارہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ جاننے کی خواہش اور کوشش ہمیں اس قابل نہیں چھوڑتی کہ وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لاسکیں۔ جب ہم وقت کے استعمال کے معاملے میں لاپروائی کے مرتکب ہوتے ہیں تب بہت کچھ اُلٹ پلٹ جاتا ہے۔ یہ بالکل فطری بات ہے جس پر افسوس تو کیا جاسکتا ہے، حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ ملک بھر میں سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کی لت نے لوگوں کے ذہن اپنے شکنجے میں یوں کَس لیے ہیں کہ اب گلو خلاصی کی صورت نہیں نکل پارہی۔ یہ ایسی دلدل ہے جس میں ہم روز بروز دھنستے جارہے ہیں۔ وقت ہی سب کچھ ہے اور سمارٹ فون کی لت یا ڈجیٹل نشے نے ہمیں اپنا غلام بنالیا ہے۔ اس غلامی میں سب سے زیادہ نقصان یا ضیاع وقت کا ہو رہا ہے۔ نئی نسل دن رات سمارٹ فون کی سکرین سے چمٹی رہتی ہے۔ جب موبائل پر انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو تب وقت اِتنی تیزی سے اور اِتنا گزرتا ہے کہ کچھ اندازہ و احساس ہی نہیں ہو پاتا۔ جب ہوش آتا ہے تب تک پُلوں کے نیچے سے اچھا خاصا پانی گزر چکا ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا پورٹلز، ایپس، ویب سائٹس اور دوسرے بہت سے آن لائن جھمیلوں نے ہمیں گھیرلیا ہے۔ انٹرنیٹ کا عادی ہو جانے کا مطلب ہے اپنے وقت کو سوچے سمجھے بغیر ضایع کرنا اور اپنی زندگی کو یکسر نظر انداز کرنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ پر ہمارے لیے کام کا بہت کچھ ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک سمندر ہے جس میں ہمیں اپنی مرضی کا جزیرہ تلاش کرنا ہے۔ جو کچھ ہمارے کام ہے اُسے پہچاننا زیادہ مشکل نہ ہو تب بھی اُس سے بچنا غیر معمولی جہد و عمل چاہتا ہے۔ سائبر سپیس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے انہماک اور وقت کا ضیاع روکنا۔ مواد اتنا زیادہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو آسانی سے روک نہیں پاتا اور غیر متعلقات میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ نئی نسل کو یہ بات خاص طور پر سکھانے کی ضرورت ہے کہ سمارٹ فون کی لت سے بچ کر رہنا ہے کیونکہ یہ لت پوری زندگی کو غیر متوازن کر بیٹھتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے ذہن پر دباؤ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لازم ہوگیا ہے کہ زندگی بھرپور منصوبہ سازی کے تحت بسر کی جائے۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ ایسے میں وہی کامیاب ہوسکتے ہیں جو وقت کو نہ صرف سمجھتے ہوں بلکہ اُس کا احترام بھی کرتے ہوں۔ وقت کی ناقدری انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں حواس پر پڑنے والے دباؤ کے باعث ہمارے لیے وقت گھٹتا جارہا ہے۔ انسانی ذہن اس قدر الجھ گیا ہے کہ بہت سے اہم معاملات ایک طرف رہ جاتے ہیں اور وقت فضول سرگرمیوں میں ضائع ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے نشے سے بچنے کے بارے میں محض سوچ نہیں رہے بلکہ سوچ پر عمل بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان میں اب تک اس حوالے سے سوچنے کی ابتدا نہیں ہوئی۔ ماہرین بھی خاموش ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جارہا جس سے یہ اندازہ ہو کہ وہ لوگوں کو سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کی لت سے گلو خلاصی میں مدد دینا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے جنگی بنیاد پر کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آن لائن کلچر کا نشہ ہماری نئی نسل کو تباہ کر رہا ہے اور ملک کی افرادی قوت بھی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ لوگ پوری توجہ سے پڑھ پارہے ہیں نہ کام ہی کر پارہے ہیں۔ پوری قوم روزانہ کروڑوں گھنٹے ضائع کر رہی ہے۔ یہ وقت قومی تعمیر و ترقی کے لیے بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔