تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     04-03-2022

موقع کی تلاش

اب سارا زور پھر پارلیمنٹ پر ہے۔
ویسے ایک بات نواز شریف اور عمران خان میں کامن ہے‘ دونوں نے پارلیمنٹ کو اسی وقت تک اہمیت دی جب تک وہ وزیر اعظم نہیں تھے۔ حلف اٹھا لیا تو اس کے بعد وہ پارلیمنٹ میں کم ہی نظر آئے۔ کچھ دن پہلے خان صاحب کو چوہدری شجاعت حسین کے گھر گئے دیکھ کر خیال آیا کہ وہ ان برسوں میں پارلیمنٹ میں گئے ہوتے تو شاید اتنے لوگوں کے آگے نہ جھکنا پڑتا۔ قومی اسمبلی تو چھوڑیں خان صاحب سینیٹ میں بھی نظر نہیں آئے۔ نواز شریف نے اپنے چار سالوں میں صرف ایک دفعہ سینیٹ میں قدم رکھا تھا‘ وہ بھی اس وقت جب سینیٹ میں بہت احتجاج ہوا اور رضا ربانی صاحب نے باقاعدہ رولز میں تبدیلی کرائی تھی کہ وزیراعظم کا سینیٹ آنا ضروری ہے۔ عمران خان شاید کبھی سینیٹ گئے ہوں‘ مجھے یاد نہیں پڑتا۔ نواز شریف آٹھ ماہ تک قومی اسمبلی نہیں گئے تھے۔ وہ اسمبلی جس نے انہیں عزت دی‘ وزیراعظم بنایا‘ اسے مڑ کر نہ دیکھا۔ جب اسمبلی سے نکالے گئے تو کئی ماہ تک افسردہ رہے کہ مجھے پارلیمنٹ سے کیوں نکالا۔ جب آپکا پارلیمنٹ سے کوئی تعلق ہی نہیں تو آپ نے وہاں کیا کرنا تھا؟ آپ نے تو خود کو ویسے ہی نکالا ہوا تھا۔ آپ پارلیمنٹ کو اون کرتے تو پارلیمنٹ بھی آپ کو کرتی۔ آج کل پھر میاں صاحب پر پارلیمنٹ کی برتری کی دھن سوار ہے‘ وہی پارلیمنٹ جہاں انہیں بلانے کیلئے رضا ربانی صاحب کو قانون میں تبدیلی کرانا پڑی۔
اب خان صاحب میں بھی اس پارلیمنٹ کی محبت جاگ اٹھی ہے کیونکہ انہیں خطرہ پڑ گیا ہے کہ ان کے نیچے سے قالین کھینچا جارہا ہے۔ جب بھی کسی وزیراعظم کو جانے کا خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ فوراً پارلیمنٹ کی طرف دوڑتا ہے‘ جسے وہ خود کمزور کرچکا ہوتا ہے‘ لیکن اب وہ پارلیمنٹ اس قابل نہیں ہوتی کہ اپنے وزیراعظم کو بچا سکے کیونکہ وزیراعظم نے کبھی پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ہوتی۔ بھٹو صاحب کے ساتھ یہی کچھ ہوا تھا کہ انہیں پارلیمنٹ نہ بچا سکی کیونکہ وہ بھی اپنی اپوزیشن کو پارلیمنٹ سے زیادہ جیل کے اندر رکھنے کے قائل تھے۔ بینظیر بھٹو کے ساتھ دو دفعہ یہی کچھ ہوا۔ نواز شریف کے ساتھ تین دفعہ ہوا۔ عمران خان کے ساتھ پہلی دفعہ ہورہا ہے اور کوئی پتا نہیں کہ تاریخ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے اور وہ خود کو بینظیر بھٹو اور نواز شریف سے مختلف ثابت کر کے بچ جاتے ہیں یا نہیں۔
یہ ذہن میں رکھیں کہ جو وزیر اعظم اپنی پارلیمنٹ کو مضبوط نہیں کرے گا وہ خود ایک دن گرے گا۔ جوں جوں پارلیمنٹ کمزور ہوتی جائے گی اور وزیر اعظم اپنے پارلیمانی ساتھیوں کے بجائے غیر پارلیمانی طاقتوں پر بھروسا کرے گا وہ مشکلات کا شکار ہوتا چلا جائے گا۔ بھٹو صاحب اپنے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہونے کے بعد جب اپوزیشن سے مذاکرات کرنے جاتے تھے تو جنرل ضیاالحق کو ساتھ لے جاتے تھے تاکہ اپوزیشن کو اندازہ ہو کہ وہ کتنے سٹرانگ ہیں۔ نواب زادہ نصراللہ خان نے بھٹو سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ ہم آپ سے بات چیت کرنے آئے ہیں‘ آپ کے آرمی چیف سے نہیں۔ آخر ضیا صاحب کو اجلاس سے باہر بھیج دیا گیا۔ نواز شریف بھی جنرل ضیاالدین بٹ پر تکیہ کئے بیٹھے تھے۔ پھر جو بارہ اکتوبر کو ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اس سے پہلے جنرل آصف نواز اور نواز شریف کے مابین تعلقات خراب کرانے کا ذمہ دار بھی نواز شریف کے ڈی جی آئی بی کو سمجھا جاتا تھا۔ یہ الگ کہانی ہے کہ میجر عامر نے بعد میں جنرل آصف نواز اور بریگیڈیئر امتیاز کے تعلقات ٹھیک کرانے کی کیسے کوشش کی۔ بے نظیر بھٹو بھی اپنی مرضی کا ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شمس الرحمن کلو لے آئی تھیں لیکن چھ اگست 1990ء کو اپنی حکومت نہ بچا سکیں۔ بھٹو سے لے کر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف تک سب نے کوششیں کر کے دیکھ لیا کہ ہر جگہ اپنی مرضی کا بندہ ہونا چاہیے لیکن وہ اپنی حکومتیں نہ بچا سکے۔
لگتا ہے عمران خان بھی اسی تاریخی جبر اور سوچ کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ بھی سمجھتے رہے ہیں کہ اگر دو تین بڑی جگہوں پر ان کے اپنے بندے ہوں تو انہیں سیاست‘ سیاست دانوں‘ میڈیا یا عدالتوں کی فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ اپنے بندے سب کو ہینڈل کر لیں گے۔ اگر خان صاحب کے ان ساڑھے تین سالوں کی گورننس کو دیکھیں تو آپ کو حیران کن طور پر وہی پیٹرن نظر آئے گا کہ وہ بھی اپنے دو تین بندوں پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں‘ لہٰذا انہوں نے کبھی پارلیمنٹ یا اپنی حکومت کو سیاسی انداز میں چلانے کی کوشش نہیں کی۔ وزرا تک کو ڈرایا گیا کہ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ یہ شوق وزیر اعظم شوکت عزیز کو بھی تھا کہ وہ اپنے وزیروں کو دبانے کے لیے بائیں آنکھ دبا کر انہیں یہ بتانا نہیں بھولتے تھے کہ انہیں سب خبر ہے کہ وہ کل رات کس محفل میں کیا کر رہے تھے۔ مقصد وزیر کو ڈرانا تھا کہ ہمیں سب پتہ ہے‘ سب پر آنکھ ہے۔ یوں وزیر اس طرح ڈر کے رہتے جیسے کبوتر غلیل سے۔ یہی طریقہ اب بھی روا رکھا گیا ہے۔ اور تو اور وزیروں نے اگر کسی کمپنی بورڈ کے اجلاس کے لیے بھی نام دیے تو کہا گیا کہ پہلے سول انٹیلی جنس سے چیک کرا لیں۔ اس پر کئی وزیروں کے منہ بن گئے کہ مطلب ہمارے اوپر بھروسا نہیں کیا جا رہا۔
نومبر کے بعد عمران خان کی دنیا بدل گئی ہے۔ اب سب بھاگ دوڑ خود کرنا پڑ رہی ہے۔ تین سال تو مزے سے گزرے ہیں لیکن اب حالات قابو سے باہر ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ شاید اسی لیے اب اپوزیشن بھی کہہ رہی ہے کہ انہیں فون کالز آنا بند ہو گئی ہیں۔ مطلب جو مطالبہ اپوزیشن کر رہی تھی کہ کوئی نیوٹرل ہو جائے تو باقی وہ سب سنبھال لیں گے‘ وہ مان لیا گیا ہے۔ کبھی یہ مطالبہ عمران خان کرتے تھے‘ آج ان کے مخالفین کر رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے اس اہم موقع پر ایم این ایز کیا کریں گے جب اپوزیشن دعویٰ کر رہی ہے کہ وزیر اعظم کو ہٹانے کے لیے ان کے پاس نمبرز پورے ہیں۔ مجھے یاد آیا خان صاحب کے ایک وزیر خسرو بختیار پچھلی پارلیمنٹ میں نواز شریف کی پارٹی میں ایم این اے تھے۔ انہیں میں نے کبھی پارلیمنٹ میں بولتے نہ دیکھا۔ پارلیمنٹ میں کیا ہو رہا ہے‘ ایسا لگتا تھا کہ اس کی انہیں کم ہی پروا تھی۔ ان کے ساتھ کچھ اور ایم این ایز کا بھی یہی رویہ تھا۔ وہ خاموشی سے وقت کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک دن خسرو صاحب سے ایک کیفے میں ملاقات ہو گئی تو میں نے پوچھ لیا کہ کبھی آپ کے منہ سے کوئی بات نہیں سنی‘ کبھی اپنے علاقے کے لیے آواز نہیں اٹھائی‘ آپ بس چپ ہی پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے مسکرا کر کہا: سائیں ابھی وقت نہیں آیا۔ اور کچھ دنوں بعد وہ اپنا الگ گروپ بنا کر الیکشن لڑ رہے تھے ۔ آج وہی خان صاحب کے اہم وزیر ہیں اور ہر وقت ان کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ ان سیاسی لوگوں میں بہت اہم حس ہوتی ہے جو انہیں آنے والے خطرات سے پہلے خبردار کر دیتی ہے اور وہ خسرو صاحب کی طرح تین چار سال چپ‘ بیک بینچز پر بیٹھ کر انتظار کر سکتے ہیں کہ ابھی وقت نہیں آیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ خان صاحب کی پارٹی میں ایسے کتنے ایم این ایز ہیں جنہوں نے ساڑھے تین سال اس طرح چپ کر کے موقع کی تلاش میں گزارے ہیں جیسے کبھی خسرو بختیار نے نواز شریف کی پارٹی اور پارلیمنٹ میں گزارے تھے۔ میرے خیال میں ایسے سمجھدار ایم این ایز کی نظریں موجودہ سے زیادہ اگلی پارلیمنٹ اور اگلی حکومت پر ہوتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved