ستر سال نہ جانے کن مسافتوں میں بیت گئے۔ برسوں سے بھاگسر سکول میں طلبا اور اساتذہ سے خطاب کی دعوت اپنے ہی عزیز ہیڈ ماسٹر محمد اقبال رشید کی طرف سے تھی۔ یہی تو وہ سکول ہے جہاں الف‘ ب‘ پ‘ تختی پر املا‘ دو‘ تین کے پہاڑے اور حروف کی شناخت کی ابتدا کی تھی۔ پہلی تین جماعتیں ٹاہلی کے درخت کے سائے میں زمین پر بچھے ٹاٹ‘ دھوپ چھائوں اور سردی گرمی میں پاس کی تھیں۔ سکول فقط ایک کچے کمرے اور چھپر پر مشتمل تھا۔ دو اساتذہ اس پرائمری سکول میں درس دیتے تھے۔ سید کاظم حسین شاہ اوراستاد کرم دین میرے پہلے استاد تھے۔ ہمارا گھر سکول سے تقریباً تین کلومیٹرکے فاصلے پر تھا۔ اس سے قبل یہ سکول دریا کے کنارے پر واقع تھا۔ جب سکول جانا شروع کیا تھا تو دریائے سندھ کی موجوں نے ہمارے پُرانے سکول‘ بازار اور گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے کر اپنا حصہ بنا لیا تھا۔ وہ دن آج بھی یاد ہیں جب میں دریا کے کنارے کھڑا کٹائو اور درختوں و عمارتوں کی دریا بردگی کو دیگر آبادی کے ساتھ بے بسی سے دیکھ رہا تھا۔ اس وقت یہ سکول میرے چھوٹے سے گائوں سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پہ تھا۔ دریا نے اپنا راستہ بدلا‘ دامن پھیلایا تو سکول اور بھاگسر موجودہ جگہ پر دریا سے کچھ دور نسبتاً محفوظ جگہ پر منتقل ہوگئے۔ پہلی‘ دوسری کے سب پُرانے دوست‘ جن کے ہمراہ ہم دریا کے کم گہرائی والے پانیوں میں تیرتے‘ ڈبکیاں لگاتے اور طرح طرح کے کھیل سکول سے واپس آکے کھیلتے تھے‘ وہیں گئے۔
کئی بار اس سکول کی زیارت پہلے بھی کر چکا ہوں مگر تقریر کرنے کی سعادت اب کہیں جا کر نصیب ہوئی۔ چبوترے پر کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ میرے ساتھ ہیڈ ماسٹر صاحب اور اساتذہ تشریف فرما تھے جبکہ سامنے زمین پر سینکڑوں طلبا نیلی‘ کالی وردیوں میں ملبوس زمین پر بیٹھے تھے۔ سوچا‘ ستر سال پہلے اسی طرح ہم بھی فرش نشیں بیٹھے تھے۔ اب یہ بھاگسر ہائی سکول ہے۔ کئی پختہ کمرے ہیں۔ خوبصورت درخت اور سبز گھاس کے لان ہیں۔ کمروں کے اندر طلبا کے لیے بینچ اور میزیں ہیں‘ کمپیوٹر ہیں اور نو‘ دس اساتذہ۔ درویش نے ایک پُرانا قصہ سنایا تو نہیں مگر موضوع وہی تھا۔ امریکہ میں تعلیم کے دوران ہم کھانا خود بناتے تھے۔ ہر کوئی وہاں ایسا ہی کرتا ہے۔ کچھ سیکھنے کیلئے کھانا بنانے کے پروگرام بھی دیکھتے۔ ایک چینی کھانا بنانے کا ماہر آخر میں کہتا ''اگر میں یہ کھانا بنا سکتا ہوں تو آپ بھی ایسا کرسکتے ہیں‘‘۔ آپ اور میں کوئی آسمانی مخلوق تو نہیں۔ اگر ہم زندگی میں کچھ حاصل کرسکتے ہیں تو ہر شخص ایسا کرسکتا ہے۔ پہلا سبق‘ پہلا سکول‘ پہلے استادِ محترم اور پہلی جماعت کے بچپن کے دوست بھلا کون کافر بھلا سکتا ہے۔ ان کا گہرا نقش آج میری زندگی کے آخری حصے میں بھی ایسا دمکتا ہے‘ جیسا آج ہی تازہ تیارکردہ سیاہی سے لکھا گیا ہے۔ سب نام‘ چہرے اور بچپن کے ماہ و سال اپنے تعارف کے دوران ذہن میں گھوم گئے۔ نہ جانے وقت کے طوفان ہماری کشتیوں کو کہاں کہاں دھکیل کرلے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ بچھڑکر پھرہم بہت سے دوستوں سے نہ مل سکے۔ اب فقط یادیں اور مدہم روشنی میں بے ترتیب تیرتے بادلوں کی طرح کچھ چہرے ہیں۔
یہ سب غیرآباد علاقے تھے۔ شور زدہ زمین اور قدیم جنگلات والے۔ ایسے گھنے کہ ان میں سے گزرتے ڈر لگتا تھا۔ انہی جنگلات کے درمیان بنی پگڈنڈیوں سے گزر کر سہما سہما پیدل سکول جایا کرتا تھا۔ بھیڑیے تب عام تھے۔ جن بھوتوں کی کہانیاں بھی اس عمر میں بہت خوفزدہ رکھتی تھیں۔ سکول پہنچ جاتا یا جب گھر واپس آ جاتا تو ایک سکون سا ملتا۔ اکیلے سفر نہ صرف پہلی تین جماعتوں کے دوران کئے بلکہ میٹرک کرنے کی غرض سے داخلہ دریا کے مشرقی جانب گھر سے تیس کلومیٹر دور لیا تھا۔ دو سال تک نہ جانے کتنی بار یہ سفر پیدل اور کبھی کبھار بائیسکل پر سوار ہو کر کئے۔ سیلاب آتا تو اس کے بعد دریا کے قریبی علاقوں میں گندم‘ مٹر اور سرسوں کے کھیت جلوے دکھاتے‘ لیکن یہ سب نظارے دریا کے مشرقی کناروں پر تھے اور بہت وسیع علاقوں میں پھیلے کھیت اب تو کمال کی بہار کا نظارہ ہیں۔گندم کی جگہ اب زیادہ تر گنے کی فصل نے لے لی ہے۔ علاقے کے سب سے بڑے زمیندار گھرانے سیاسی کاروبار کے ساتھ چینی بنانے کے کارخانے بھی چلاتے ہیں۔ وہی مشہور اور محتاط کھلاڑی جن کے چرچے آج کل ہو رہے ہیں کہ وہ کس طرف اپنا وزن ڈالیں گے۔
ہمارے جنگلات ایک زمانے سے کاٹے جا چکے ہیں۔ جہاں سینکڑوں اونٹ گھومتے پھرتے تھے‘ وہاں اب کوئی ایک بھی نظر آ جائے تو بڑی بات ہے۔ ہیں تو سہی‘ لیکن بہت کم۔ تقریباً سب زمینیں آباد ہیں۔ اب پیدل چل کر دریا اور اس کے ساتھ ہر طرف پھیلے گندم کے کھیتوں کی سیر کرنا معمول نہیں۔ موٹر سائیکل اب مجھے کوئی نہ ادھار دیتا ہے اور نہ چلانے کی اجازت ہے کہ کئی بار اپنے کل پرزے زخمی کر چکا ہوں۔ موٹر سائیکل کے پرزے تو بازار میں عام ہیں‘ مگر میرے ادھر ادھر ہو گئے تو کہاں سے آئیں گے؟ دوسری سواری بن کر دریا پر پہنچ جاتا ہوں۔ اب میلوں تک پھیلے گندم‘ گنے اور سرسوں کے کھیت ہیں۔ وہ زمین‘ جہاں کچھ پیدا نہیں ہوتا تھا‘ اب سونا اگل رہی ہیں۔ ایسے وسیع گندم کے کھیت کبھی کیلیفورنیا میں دیکھا کرتا تھا‘ یا اب دریائے سندھ کے کچے کے علاقے میں دیکھتا ہوں۔ یہ سب ہمارے کسانوں‘ کاشتکاروں اور چھوٹے بڑے زمینداروں کی محنت کا ثمر ہے۔ ہمارے زرعی انقلاب میں بنیادی کردار گندم کے نئے بیجوں‘ ٹریکٹر اور پیٹر انجن کا ہے۔ ان ڈیزل سے چلنے والے چھوٹے انجنوں کی درآمد چالیس سال قبل چین سے ہوتی تھی‘ باقی گوجرانوالہ کا کمال ہے۔ ہر چھوٹے کاشتکار نے پانی کا اپنا انتظام کررکھا ہے۔ ہم نے وہ زمانہ دیکھا ہے جب ٹریکٹر نہیں تھے۔ صرف کسی بڑے زمیندار گھرانے کے پاس ہوتے تھے۔ باقی سب لوگ بیلوں سے ہل چلاتے‘ کنوئوں سے بیلوں کی مدد سے پانی نکالتے اور بہت ہی محدود پیمانے پر کاشتکاری ہوتی تھی۔ اب سب کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ اس پسماندہ ضلع کا کوئی ایسا گائوں نہیں جہاں تین چار ٹریکٹر موجود نہ ہوں‘ اور تین چار ایکڑ زمین کے مالک نے بھی اپنا ٹیوب ویل نصب نہ کررکھا ہو۔ نہری پانی کی کیا بات کریں کہ ایک اعلیٰ نظام کو منظم کرپشن نے تباہ کرڈالا ہے۔ اپنے طورپر ہمارے زمینداروں نے بہت کچھ کیا ہے‘ مگر ان کی محنت کا پھل انہیں ایسے معاشرے میں کب پورا مل سکتا ہے‘ جہاں سود خوروں‘ ذخیرہ اندوزوں اور کرپٹ نوکرشاہی کا راج ہو۔
اس درویش نے زرعی معاشرے سے رشتہ ہمیشہ جوڑے رکھا ہے۔ صرف سیر سپاٹے کیلئے نہیں‘ اپنا سب کچھ یہاں ہے‘ زمین‘ کھیت اور باغ‘ اور پھر دریائے سندھ بھی تو یہیں بہتا ہے۔ فراغت کے لمحے اس کے کناروں پر چلنے‘ اس کی رواں لہروں کے ساتھ گزارنے کی فرصت مل ہی جاتی ہے۔ واقعی خوش بخت ہوں کہ یہاں زرعی انقلاب کو رہٹ کے دور سے لے کر آج کے زمانے تک دیکھا ہے‘ اور لوگوں میں خوشحالی کو بھی۔ رونا دھونا اپنی جگہ مگردولت‘ آسودگی اور جدید سہولتوں کا دائرہ مسلسل پھیلتا رہا ہے۔ سب کچھ زمین اور فصلوں کی بدولت ہے‘ اور عام ہوتی ہوئی زرعی ٹیکنالوجی کا کرشمہ ہے۔ حصہ سب کو ملتا ہے‘ کم یا زیادہ۔ آگے جو کچھ کرنا ہے‘ اس کی بنیاد زرعی معیشت ہو تو نئے وقت کی بہاریں اپنا رنگ ہر جگہ بکھیریں گی۔