تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     04-03-2022

ماسکو میں چار دن… (3)

ماسکو میں وزیراعظم عمران خان کی آمد سے ایک دن پہلے طے ہوا کہ ہم روس کی سپتنک نیوز ایجنسی کا دورہ کریں۔ ایک زمانہ تھا کہ سپتنک نام کا ایک رسالہ ماسکو سے انگریزی کے ریڈرز ڈائجسٹ کے مقابلے میں نکلا کرتا تھا۔ ریڈرز ڈائجسٹ اگر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے نقطہ نظر سے بھرا ہوتا تھا تو سپتنک میں سوشلزم اور اس نظریے کے حامل ملکوں کے بارے میں مضامین چھپتے تھے۔ اب یہ رسالہ تو بند ہو چکا ہے مگر اس کے نام سے چند سال پہلے ایک نیوز ایجنسی بنا دی گئی، جو دنیا میں روس کے زاویے سے خبریں فراہم کرتی ہے۔ بظاہر اس ایجنسی کو پیشہ ور صحافی چلاتے ہیں لیکن دراصل یہ ایک سرکاری نیوز ایجنسی ہے جو حکومت اور بالخصوص وزارت خارجہ کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ میری توقع کے برعکس اس ایجنسی کے چیف ایڈیٹر، دنیا بھر میں پھیلے دفاتر کے انچارج اور مشرق وسطیٰ کی ایڈیٹر نے ہمارے ساتھ کھل کر گفتگو کی۔ پروگرام کے مطابق جو بات چیت صرف پندرہ منٹ کے لیے ہونا تھی، وہ ایک گھنٹے سے بھی آگے نکل گئی۔ ان کی باتوں سے جو میں نے اخذ کیا وہ یہ تھا:
1۔ روس پاکستان سے یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ یوکرین کے مسئلے پرکھل کر روس کا ساتھ دے گا۔
2۔ بھارت کے ساتھ آگے بڑھنا مشکل ہے اور جنوبی ایشیا میں پاکستان ہی ایسا ملک ہے جس کے ساتھ روس نہ صرف کام کر سکتا ہے بلکہ مسلم دنیا پر پاکستان کے اثرورسوخ کا فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے۔
3۔ روس کو سی پیک کے طرز پر اپنے تیل اور گیس کے لیے ایک نئی راہداری کی ضرورت ہے جو پاکستان سے گزر کر بھارت اور سمندر تک جائے۔
4۔ روس پاکستان کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔
5۔ افغانستان پر روس کا نقطہ نظر وہی ہے جو پاکستان کا ہے۔
ان کی باتیں سن کر میں نے پوچھا کہ کیا یہ محض ان کی رائے ہے یا سرکاری طور پر انہیں کچھ بتایا گیا ہے۔ میرے سوال پر ان کا چیف ایڈیٹر ہنس کر بولا، روس میں کوئی بھی اپنے طور پر کچھ نہیں کہتا۔ پھر اس نے کہا: روس کو کوئی جلدی نہیں لیکن پھر بھی پاکستان کے ساتھ معاملات پر جتنی تیزی سے پیشرفت ہو سکے اتنا ہی اس خطے کے لیے بہتر ہوگا۔ وہ لوگ ہمارا اتنا اکرام کررہے تھے کہ ہمارے سامنے بھارت کا نام لینے کے بجائے بات گھما کر کرتے۔ ایک دوبارکے بعد میں نے کہا: آپ کھل کر بات کریں ہمیں بھارت کے نام پر غصہ نہیں آتا۔ یہ ان کے لیے حیرت کی بات تھی۔ ایجنسی کی نائب مدیر بولی، 'بھارتیوں کو تو پاکستان کا نام لینے سے بھی پریشانی ہوتی ہے‘۔ میں نے کہا، کسی زمانے میں ہمیں بھی ہوتی تھی لیکن اب ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت اپنی تباہی کا سامان خود ہی کرلے گا‘ اس لیے ہم مطمئن ہیں۔ اس بات پر قہقہہ پڑا اور بات دوبارہ خطے کے حالات کی طرف مڑ گئی۔
سپتنک نیوز ایجنسی کے دفتر سے ہمیں دریائے ماسکو پر بنے ایک گھاٹ پر لے جایا گیا جہاں ایک جہاز نما کشتی ہماری منتظر تھی۔ اس کشتی میں کچھ ایسے پاکستانی بھی موجود تھے جو روس میں ہی کام کرتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ اس کشتی پر کہیں دوسری جگہ جانا ہوگا۔ کشتی کے اندر پہنچے تو معلوم ہوا کہ منزل یہی ہے اور اس کشتی کو کروز کہا جاتا ہے‘ یعنی اس پر آنا ہی تفریح کی ایک قسم ہے۔ یہ کروز دراصل ایک ریستوران تھا اورکھانے کے دوران کشتی دریا کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہے اور تھوڑی ہی دیر میں سارا شہر آپ کی نظروں کے سامنے سے گزر جاتا ہے۔ مجھے دریا میں یہ انتظام دیکھ کر اپنا دریائے سندھ یاد آیا۔ سکھر شہر کے بیچوں بیچ سے گزرتے دریا کے ساتھ ساتھ ہم نے قدآدم سے اونچی دیوار بنا ڈالی ہے جس کی وجہ سے دریا پر آسانی سے جانا تو دور کی بات بندر روڈ پر چلتے ہوئے بھی دریا نظر نہیں آتا۔ ڈیرہ اسماعیل خان شہر کے ایک طرف سے دریا گزرتا ہے لیکن قومی سلامتی کے نام پر وہاں عام آدمی کا جانا اکثر اوقات بند ہی رہتا ہے۔ اسی طرح لاہور میں راوی دریا کو شہرکا حصہ بنانے کے لیے منصوبہ بندی ہورہی ہے لیکن اس کے راستے میں بھی ہزار رکاوٹیں آرہی ہیں۔ میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ساڑھے چار سو برس پہلے شہنشاہ اکبر اور جہانگیر نے تو دریا کو شہر کا حصہ کامیابی سے بنا لیا، اب اس میں کیا مضائقہ ہے؟ مجھے تو اس سوال کا جواب سوائے نالائقی کے کچھ اور نہیں سوجھتا۔ خیر ہم تو دریائے ماسکو کی بات کررہے ہیں۔ ہم جیسے ہی اس کشتی میں سوار ہوئے تو یہ چل پڑی اور ماسکو کا ہمیشہ یاد رہ جانے والا تجربہ شروع ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد دریا سے ہی ایک نہایت خوبصورت عمارت نظر آئی۔ ہم نے میزبانوں سے اس کی بابت پوچھا تو پتا چلا کہ شہر میں اس طرح کی سات عمارتیں ہیں جنہیں سیون سسٹرز (سات بہنیں) کہا جاتا ہے۔
ان عمارتوں کی بھی ایک کہانی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے فاتحین میں شامل ہونے کی وجہ سے اس وقت سوویت یونین کے صدر جوزف سٹالن کو خیال گزرا کہ اب دنیا بھر سے لوگ ماسکو آئیں گے اورجب یہاں کوئی بلند عمارت نہیں دیکھیں گے تو سوشلزم کو اخلاقی دھچکا پہنچے گا۔ سوشلزم کو ممکنہ اخلاقی دھچکے سے بچانے کے لیے نو بلندوبالا عمارتوں کا منصوبہ بنایا گیا۔ ان میں سے سات بن چکیں تو ملکی خزانے نے ساتھ نہیں دیا اس لیے دو رہ گئیں تو پھر ہمیشہ کے لیے رہ گئیں۔ اب ان عمارتوں میں سے دو میں ہوٹل ہیں، ایک میں وزارت خارجہ کا دفتر ہے، ایک میں ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی ہے، ایک روس کے امیر لوگوں کی رہائش کے کام آتی ہے اور باقی دو بھی حکومت کے دیگر محکموں کے پاس ہیں۔ اپنی تعمیر سے لے کر انیس سو ستانوے تک یہ یورپ کی بلند ترین عمارتیں کہلاتی تھیں۔ اس کے بعد یورپ میں اونچی عمارتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ فنی اعتبار سے یہ کیسی ہیں اس کا پتا تو کوئی صاحب فن ہی دے سکتا ہے لیکن ان عمارتوں کا حسن لاجواب ہے۔ باریک ترین جزئیات میں بھی کوئی خامی تو دور کی بات انگلی اٹھانا بھی ممکن نہیں۔ جب ہم کروز سے واپس ہورہے تھے تو اندھیرا ہوچکا تھا۔ سات بہنوں میں سے جو عمارت ہمارے راستے میں پڑتی تھی، اتنی روشن تھی کہ اندھیرا بھی اس سے پناہ مانگے۔
روشنی اور ماسکو کا گہرا ساتھ ہے۔ اندھیرا ہوتے ہی یہ شہر جگمگا اٹھتا ہے۔ سڑکوں پر سٹریٹ لائٹس تو ہیں ہی لیکن ان کے ساتھ جو آرائشی روشنیاں لگائی گئی ہیں وہ بھی کمال ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ روس میں روشنی شاید بطور مضمون پڑھائی جاتی ہو گی‘ تبھی اس کو ان گنت شکلوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کہیں جیومیٹری کی شکلیں ہیں تو کہیں درختوں کے خدوخال واضح کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے قمقمے لگا دیے گئے ہیں۔ سڑکوں کے علاوہ عمارتوں پر روشنیوں کا استعمال اپنی جگہ کمال ہے۔ ایک رہائشی عمارت دیکھی جو فن تعمیر کا نمونہ تو نہیں تھی لیکن اس کی ہر منزل کی بالکونی پرایک مختلف رنگ کی روشنی کی گئی تھی، گویا جتنی منزلیں اتنے رنگ۔ سادہ سے اس بندوبست نے ایسا حسن پیدا کردیا تھا کہ ہم حیرت سے چلا ہی اٹھے۔ میں نے کہا، لوگ اس شہرمیں اگر صرف بتیاں ہی دیکھنے کے لیے آئیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ میرے ساتھ ارشد شریف بھی تھے، جن کی زبان اسی وقت کھلتی ہے جب کیمرہ سامنے ہو، عام حالات میں بولنا انہیں لفظوں کا زیاں لگتا ہے۔ کسی اچھی سے اچھی یا بری سے بری بات پر بھی ان کا ردعمل بس مسکراہٹ کا ختم ہوجانا ہے یا اس میں تھوڑا سا اضافہ ہونا۔ میرے لیے حیرت کی بات تھی کہ انہوں نے کہا، 'میں نے اتنی اچھی لائٹنگ دنیا میں کہیں نہیں دیکھی، انہیں روشنی سے کھیلنا آتا ہے‘۔ جو لوگ ارشد کو جانتے ہیں انہیں سمجھ آگئی ہوگی کہ ماسکو کی بتیوں کا دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved