چند روزپہلے شاہ رخ خان کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش کی خبر آئی‘ تو دنیا بھر سے مبارکبادوں کے ڈھیر لگ گئے۔ حد یہ کہ ’’دنیا نیوز‘‘ کے ایک پروگرام میں ‘ امریکہ اور بھارت کے ’’دل پسند جہادی‘‘ حافظ محمد سعید نے بھی بچے کی پیدائش پر شاہ رخ خان کو مبارکباد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ زیادہ لوگوں کو شاید معلوم نہ ہو کہ بھارت میں بچہ سازی کی ایک نئی صنعت وجود میں آ چکی ہے‘ جس کے ذریعے خواتین کی صحت اور تندرستی کو برقرار رکھنے کے لئے ‘ بچہ سازی کی صنعت سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ شاہ رخ خان کے دونوں بچوں کی طرح تیسرا بچہ بھی ‘ بچہ سازی کی اسی صنعت کی پیداوار ہے۔ اسے آپ انسانی پیداواری صنعت بھی کہہ سکتے ہیں۔ مغرب میں یہ صنعت ایجاد تو ضرور ہوئی مگر جلد ہی اس پر پابندی لگا دی گئی اور اب یہ کام بھارت میں منتقل ہو گیا ہے۔ مغرب کے ضرورت مند جوڑے‘ بچے حاصل کرنے کے لئے برصغیر کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں کرائے کے بچے پیدا کرنے والی مائیں شاذونادر ہی دستیاب ہوتی ہیں۔ ان دونوں ملکوں میں کوئی بھی ماں اپنے مذہبی اور تہذیبی پس منظر کی وجہ سے ‘ کسی دوسرے کا بچہ پیدا کرنا پسند نہیں کرتی۔ البتہ مغرب کے ضرورت مند جوڑے‘ ان کے چھوٹے بچے خرید کر اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں۔بچوں کی یہ عالمی صنعت پاکستان میں بھی کئی ضرورت مندوں کے کام آ رہی ہے۔ طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ تین ماہ سے لے کر ایک سال تک کا بچہ‘ والدین کو بھاری رقم دے کر خرید لیا جاتا ہے اور پھر لے پالک کے قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے‘ اسے خریدار ماں باپ کو منتقل کر دیا جاتا ہے۔ یہ لے پالک بچہ ‘ اپنے نئے ماں باپ کی اولاد کہلاتا ہے اور بڑا ہو کر انہی کا جانشین بنتا ہے۔ لیکن بھارت میں بچہ سازی کی تجارت زیادہ آزادانہ اور وسیع پیمانے پر ہوتی ہے۔ وہاں پر نہ تو مذہبی اور تہذیبی پابندیاں ‘ کرائے کے بچے پیدا کرنے کے راستے میں رکاوٹ ہیں اور نہ ہی اس معاملے میں ریاستی قوانین مانع ہیں۔ اس لئے وہاں ضرورت مند والدین ‘ کرائے کی ماں کو تلاش کر کے‘ اپنا بچہ پیدا کراتے ہیں۔ اس شعبے میں مددگار کے فرائض انجام دینے کے لئے کئی ہسپتال‘ میڈیکل پروفیشنلز کی کمپنیاں اور ایجنٹ دستیاب ہیں۔ ان کے پاس کرائے کی کوکھ فراہم کرنے کے امیدوار خاندانوں کی فہرستیں اور البم موجود ہوتے ہیں۔ خریدار ان کا جائزہ لے کر اپنی پسند کا جوڑا منتخب کرتا ہے۔ اس تجارت کے غیرسرکاری قواعد و ضوابط پریکٹس کے دوران ازخود ترتیب پا چکے ہیں۔ ان کے تحت 21 اور 35 سال سے کم یا زیادہ عمر کی خاتون کی خدمات‘ حاصل نہیں کی جاتیں اور کرائے کی ماں کا استعمال دو مرتبہ سے زیادہ نہیں کیا جا سکتا۔ خریدار اپنی پسند کا جوڑا چننے کے بعد منتخب ہونے والی امیدوار کے متعدد میڈیکل ٹیسٹ کراتا ہے اور جب ڈاکٹر ہر اعتبار سے کلیئرنس کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیتا ہے‘ تو سودے کا آغاز ہوتا ہے۔ اس میں فریقین خدمات کا جو معاوضہ طے کرتے ہیں‘ وہ 3 سے 4 لاکھ روپے کے درمیان ہوتا ہے۔ کرائے کی جن مائوں کا انتخاب ہوا‘ ان میں سے دہلی میں 68 اور بھارت کے فنانشل کیپیٹل ممبئی میں 78 انٹرویوز کئے گئے۔ پتہ چلا کہ بیشتر کرائے کی مائیں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی اور 3 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ وصول کرتی ہیں۔ جبکہ ان کی خوراک اور آرام و آسائش کا خیال خریدار جوڑا‘ اپنے معیار زندگی کے مطابق رکھتا ہے۔ اس سودے میں بچے کا اگر مس کیرج ہو جائے‘ تو یہ سودا منسوخ تصور کیا جاتا ہے اور ضروری علاج معالجے کے بعد‘ کرائے کی ناکام ماں کو رخصت کر دیا جاتا ہے۔ دوبارہ سودا کرنے سے پہلے ازسرنو طبی معائنے کئے جاتے ہیں اور فٹ ہونے کی میڈیکل رپورٹ کے بعد نیا سودا کر لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر ’’ناکام‘‘ ہونے والی ماں کو فارغ کر کے نئی ماں تلاش کی جاتی ہے۔ خریدار والدین ’’سودے‘‘ کی کامیاب تکمیل کے بعد‘ ایجنٹوں سے لے کر کرائے کے والدین تک‘ سب ملا کر ’’ایک سودے‘‘ پر 12لاکھ روپے خرچ کرتے ہیں۔ یہ رقم کئی جگہ تقسیم ہوتی ہے۔ زیادہ رقم ری پروڈکٹو ٹیکنالوجی میں خدمات فراہم کرنے والے میڈیکل سنٹرزکے حصے میں آتی ہے۔ اس کے بعد ایجنٹس اور قانونی مشیران کا حصہ ہوتا ہے۔ ان سب کے معاوضے ادا کرنے کے بعد کرائے کے والدین کو 3 سے 4 لاکھ روپے ملتے ہیں اور بعض اوقات ان کے لئے ایک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہیں بچتا۔ اس کاروبار میں زیادہ تر غریب جوڑے آتے ہیں‘ جو اکثر اپنے لئے کوئی چھوٹا سا مکان یا فلیٹ حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ شوبز کے لوگ عموماً اس پیداواری صنعت سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں۔ 1911ء میں نامور اداکار عامر خان اور ان کی بیگم کرن رائو نے اسی صنعت کی خدمات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اپنے لئے ایک بچہ حاصل کیا۔ وٹرو فرٹیلائزیشن کے سپیشلسٹ بتاتے ہیں کہ آج کل زیادہ تر دولت مند اور شہرت یافتہ خاندان‘ بچوں کے حصول کے لئے اسی طریقہ کار سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس شعبے میں ریسرچ کرنے والی ایک این جی او ’’ساما‘‘ ریسورسز فار ویمن اینڈ ہیلتھ کے ایک سپیشلسٹ نے بتایا کہ کرائے کی ماں کو پورے ’’عمل‘‘ کے دوران ہونے والے مختلف طبی معائنوںاور ’’ڈیوٹی‘‘ کے دوران جو ٹیسٹ لئے جاتے ہیں‘ ان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا۔ کرائے کی مائوں نے بتایا کہ زیادہ تر سودوں میں ان سے صرف کاغذات پر دستخط کرائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سودے بازی اور معاوضے کے سارے معاملات ایجنٹ طے کرتے ہیں۔جن معاہدوں پر دستخط کرائے جاتے ہیں‘ وہ سب انگریزی زبان میں لکھے ہوتے ہیں اور بیشتر حالات میں خدمات فراہم کرنے والے جوڑے کو لکھی گئی تحریر کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا۔ انہیں جو کچھ زبانی بتایا جاتا ہے‘ وہ اسی پر یقین کر لیتے ہیں اور جب عملی طور پر بتائی گئی شرائط پوری نہیں کی جاتیں‘ تومتاثرہ جوڑا کچھ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جب بتائی گئی شرائط کی خلاف ورزی ہونے پر وہ کسی قانونی مشیر یا پڑھے لکھے مددگار کو معاہدہ دکھاتے ہیں‘ تو اس میں وہ چیزیں درج ہی نہیں ہوتیں‘ جو سنا کر ان سے دستخط لئے جاتے ہیں۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ بھارت میں یہ تجارت بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کرائے کی مائوں کی تجارت میں ہر سال 500 ملین ڈالر کا لین دین ہوتا ہے۔ کرائے کی کوکھ مہیا کرنے والی خواتین اور ان کے شوہروں نے انکشاف کیا کہ وہ جن مجبوریوں کی بنا پر یہ کاروبار اختیار کرتے ہیں‘ ان میں زیادہ تر بنئے کے قرض کی ادائی یا خریدے گئے مکان یا جھگی کا قرضہ ادا کرتے ہیں۔ کرائے کی کوکھ مہیا کرنے والی مائیں‘ حقیقی ماں کے جذبات سے بالکل بیگانہ ہوتی ہیں۔ بچہ پیدا کر کے‘ مالکان کوہینڈ اوور کرنے تک‘ ان میں بچے کے لئے کسی بھی طرح کے جذبات پیدا نہیں ہوتے۔ وہ صرف پیداواری مشینیں ہوتی ہیں۔ فطری اعتبار سے ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے ان کے اندر مائوں کے جذبات پیدا ہوتے ہوں۔ مگر یہ بات کہی نہیں جاسکتی۔مدر انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن ‘ طبی ماہرین اور قانون دان ‘ اس شعبے میں بہتر دیکھ بھال کے لئے قانون سازی کی کوشش کر رہے ہیں۔ 2001ء میں ڈپٹی ڈائریکٹر انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ ایس آر شرما نے بتایا کہ ایک ڈرافٹ بل 2008ء میں تیار کیا گیا تھا لیکن اسے کسی نے توجہ کا مستحق نہیں سمجھا۔ بل میں تجویز کیا گیا تھا کہ کرائے کی کوکھ کی صنعت میں کلینکس اور وہ طبی مراکزجو بطور بنک خدمات انجام دیتے ہیں‘ ان کے لئے بھی ایک قانون تیار کر کے2010ء میں متعلقہ اداروں کے حوالے کیا گیا تھا۔ یہ بل باضابطہ طور پر قانون سازادارے میں پیش ہونے سے پہلے متعدد وزارتوں کی سفارشات کے بعد کابینہ کے سامنے جا سکے گا۔ عموماً کوکھ کرائے پر دینے والی خواتین کو خاندانی دبائو اور معاشی پریشانیوں کی وجہ سے اس خدمت پر آمادہ ہونا پڑتا ہے۔ بہت کم خواتین رضامندی سے یہ خدمت انجام دینے پر آمادہ ہوتی ہیں۔ یہ مجبوری کی تجارت ہے۔ عموماً خالی پیٹ ہی کرائے کی کوکھ بنتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved