تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     05-03-2022

ماسکو میں چار دن … (4)

وزیراعظم عمران خان نے تئیس فروری کو ماسکو آنا تھا۔ اس سے ایک دن پہلے روس کے صدر پوتن نے دھواں دھار خطاب کیا جس میں انہوں نے یوکرین کو نہ صرف اپنا حصہ قرار دیا بلکہ یہاں تک کہا کہ سوویت یونین کے بانی اور پہلے صدر ولادیمیر لینن نے اقتدار پر قبضہ جمانے کے لیے یوکرین کو غیرمعمولی رعایتیں دی تھیں۔ ان کا یہ دعویٰ تاریخی طور پر اتناغلط بھی نہیں تھا کیونکہ یوکرین کا موجودہ جغرافیہ اور اس کی انفرادی حیثیت دراصل لینن کی ہی طے کردہ ہے۔ جب میں نے یہ خطاب سنا تو یقین ہوگیا کہ اب روس یوکرین پر کسی بھی وقت حملہ کردے گا۔ میں اس دن شہر بھر میں گھومتا رہا لیکن مجھے کوئی غیرمعمولی چیز نظر نہ آئی؛ البتہ ایک پاکستانی کے طور پر یہ خیال ضرور آیا کہ اب ہمارے وزیراعظم کو یہ دورہ ملتوی کردینا چاہیے۔ میں نے اس خیال پر اپنی بساط کے مطابق خوب غورکیا اور آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ دورہ ملتوی کرنے کی ضرورت نہیں‘ کیونکہ جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی اور ماسکو میں کوئی غیرمعمولی نقل وحرکت بھی دیکھنے میں نہیں آرہی تھی۔ یوں بھی یہ دورہ دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے کیلئے ہورہا تھا، کسی تیسرے ملک کے ساتھ روس کے معاملات کیا ہیں، اس سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہیے۔
تئیس فروری کی شام عمران خان ماسکو پہنچے تو ان کا اچھے طریقے سے استقبال کیا گیا۔ دنیا کے بڑے ملکوں میں باہر سے آنے والے سربراہان حکومت و ریاست کے استقبال کی رسم کافی کمزور پڑچکی ہے۔ وہاں یہ طے شدہ معاملات ہیں کہ وزارت خارجہ کا سینئر ترین افسر یا نائب وزیر باہر سے آنے والوں کا استقبال کرتا ہے اور پھر وہی دورے کے دوران تمام معاملات دیکھتا رہتا ہے۔ ہماری طرح نہیں کہ اس بات پر بھی شور مچالیں کہ کس نے استقبال کیا اورکسے آنا چاہیے تھا۔ ایسے حالات میں جبکہ روس ایک جنگ کے دہانے پر تھا، ہمارے وزیراعظم کا استقبال مناسب تھا۔ ہمیں یہ بالکل نہیں بھولنا چاہیے کہ روس چاہے مشکل میں ہے لیکن یہ دنیا کے پانچ طاقتور ترین ملکوں میں شامل ہے اوراقوام متحدہ کے فیصلوں کو ویٹو کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ اس لیے اتنی بڑی طاقت کے دورے پرہمارے وزیراعظم کو جو پروٹوکول مل رہا تھا وہ مناسب تھا۔ پھریہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ روس اورہم افغانستان کے مسئلے میں ایک دوسرے کے دشمن بھی رہے ہیں۔ دشمنی کو ختم ہونے اورپھر دوستی میں تبدیل ہونے میں کافی وقت لگتا ہے۔ یہ ایک یا دو دوروں میں ہونے والا کام نہیں۔
روس میں عوامی سطح پرتو کورونا کا کوئی خوف نظر نہیں آتا لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت باقاعدہ کورونا کے خوف میں مبتلا ہے۔ وزیراعظم اور ان کے وفد کیلئے یہ انتظام کیا گیا تھاکہ وہ جہاز سے اتریں، سیدھے اپنے ہوٹل پہنچیں اورپھر صدر پوتن کو ملنے سے پہلے کسی دوسرے سے نہ ملیں۔ اگلی صبح یعنی چوبیس فروری کو صدر پوتن سے ملنے سے پہلے انہیں صرف گمنام سپاہیوں کی یادگار پر پھول چڑھانا تھے۔ ہوٹل سے یہ یادگار چند قدم کے فاصلے پرہے اور اس کے ساتھ ہی صدارتی محل ہے یعنی وزیراعظم کی بنیادی مصروفیات صرف یہی دو تھیں۔ پوتن سے ملنے کے بعد انہیں روس کے نائب وزیراعظم سے ملنا تھا۔ صدر پوتن سے ان کی ملاقات ایک کے بجائے تین گھنٹے تک چلی گئی اور وزیراعظم ہم سے بھی نہ مل سکے۔
چوبیس فروری کی صبح جو پہلی خبر کان میں پڑی وہ یوکرین پرروس کے حملے کی تھی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ایک سفارتی زیادتی تھی جو پاکستان کے ساتھ کی گئی۔ ظاہر ہے اس حملے کی تیاری پہلے سے کی گئی ہوگی، دن کا انتخاب بھی کرلیا گیا ہوگا لیکن سفارتی ذرائع سے روس اس دورے کو ملتوی کرنے کی درخواست کرسکتا تھا۔ ہمارے وزیراعظم کی موجودگی میں کسی دوسرے ملک پر حملہ کردینا سفارتی تاریخ کی عجیب وغریب مثال ہے اور ہماری بدقسمتی کہ ہم اس کا نشانہ بن گئے۔ جب یہ حملہ ہوگیا تو میں متحرک ہوگیا کہ شاید اتنے بڑے سفارتی زلزلے کے بعد پاکستانی وفد کہیں واپس جانے کی نہ سوچ لے۔ مجھے پتا چلاکہ اس پرغورکیا گیا لیکن اس طرح کے اقدام کا نتیجہ یہ ہوتاکہ روس کے ساتھ معاملات طویل عرصے کیلئے بگڑ جاتے جبکہ افغانستان میں ہمیں روس کی فوری حمایت چاہیے تھی۔ دوسری طرف اس دورے کو پروگرام کے مطابق آگے بڑھایا جاتا تو یہ خطرہ تھاکہ ہمیں بھی روسی جارحیت کا حامی نہ تصور کرلیا جائے۔ یہ ایک مشکل صورتحال تھی، واپس جاتے تو مصیبت اور دورہ آگے بڑھاتے تو بھی مصیبت۔ پاکستانی وفد نے فیصلہ کیا کہ دورے کو آگے بڑھایا جائے کیونکہ واپس جانے میں زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑنا تھا‘ لیکن روس کے ساتھ معاہدوں پردستخط نہ کیے جائیں۔ سیاسی طور پربھی یہی فیصلہ ٹھیک تھا کیونکہ امریکا اور یورپ نے بھی یوکرین کی زبانی کلامی حمایت سے زیادہ کچھ نہیں کیا تھا۔ ظاہر ہے یوکرین سے امریکا اور یورپ کے مفادات تو ہمارے مفادات سے کہیں زیادہ ہیں، اگر وہ روس سے براہ راست الجھنے سے گریز کررہے ہیں تو ہمیں روس کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ چھ مہینے پہلے افغانستان سے کان لپیٹ کر نکل جانے اور اب یوکرین کو مرنے کیلئے چھوڑ دینے کا مطلب ہے کہ امریکا اور نیٹو طویل عرصے کیلئے کسی بھی جنگ کا حصہ بننے کو تیار نہیں۔ اس لیے بدلے ہوئے حالات میں ہمیں بھی کسی خوف کا شکار ہوئے بغیر اپنے مفادات کی حفاظت کرنی چاہیے۔
پروگرام کے مطابق دورے کو آگے بڑھانے کے فیصلے نے روسی حکومت کے دل جیت لیے تھے‘ ورنہ اس سے پہلے روسی حکومت کو پریشانی لاحق تھی کہ پاکستانی وفد اس صورتحال میں صدرپوتن سے ملاقات کیے بغیر واپس نہ چلا جائے۔ ظاہرہے وہ ہمارے فیصلے میں دخل تونہیں دے سکتے تھے لیکن درونِ خانہ ان کی پریشانی کا مجھے بعد میں علم ہوا جب میں ایک روسی وزیر سے ملا۔ اس نے کہا، تمہارا وزیراعظم کافی 'بولڈ‘ ہے۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا، تمہارے وزیراعظم نے آج کے دن گمنام سپاہیوں کی یادگار پر پھول رکھ کے ہمارے دل جیت لیے ہیں۔ اس کی بات سن کر مجھے لگا‘ اب روس لمبے عرصے تک پاکستان کا یہ احسان بھلا نہیں سکے گا۔ مستقبل میں اگرروس اور یوکرین کے حالات ٹھیک ہوجاتے ہیں توپھر ہم روس سے بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔
جب ہم ماسکو میں وزیراعظم کے دورے کی کوریج میں مصروف تھے تو پاکستان میں اس دورے کا تجزیہ ہورہا تھا۔ حیرت کی بات تھی کہ سب تجزیے منفی تھے۔ ان کی تہہ میں یہ دلیل کارفرما تھی کہ ایسے وقت میں روس جانے سے امریکا اوریورپ ہم سے ناراض ہوجائیں گے۔ یہ کسی حد تک درست ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا مغرب کیلئے ہماری حیثیت جاپان، جنوبی کوریا اور جرمنی کی طرح مستقل شراکت دار والی ہے یا ان سے مختلف؟ مغرب کا رویہ بتاتا ہے کہ اس نے ہمیں اپنا مستقل شراکت دار کبھی نہیں سمجھا بس کام پڑا تونکال لیا، اس کے بعد منہ پھیر لیا۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مستقبل قریب میں مغرب کو پاکستان کے ساتھ کوئی بڑاکام نہیں پڑنے والا۔ پھرہمارے اپنے مفادات اب وسطی ایشیا سے منسلک ہوچکے ہیں جہاں روس اور چین کے تعاون کے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے۔ اس تعاون کی ایک چھوٹی سی مثال ازبکستان کے صدر کا دورہ اورازبکستان کے ساتھ ہونے والے کئی معاہدے ہیں۔ اگر وزیراعظم روس کا دورہ نہ کرتے تو شاید ازبکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی اتنی تیزی سے آگے نہ بڑھ پاتے۔ اس لیے اگروزیراعظم کے دورۂ ماسکو کا حساب کرنا ہے یہ تو بدلے ہوئے حقائق کے پیمانے پرہوگا، پرانی دلیلوں سے نہیں۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved