کسی چیز کو اپنی اصل حالت پر برقرار رکھنے اور حالات کو جوں کا توں رکھنے کو عربی لغت میں ''اَبْقٰی عَلیٰ حَالَۃِ مَا قَبْل‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی کسی چیز کو سابقہ حالت پر برقرار رکھنا، اسی کو انگریزی میں ''سٹیٹس کو‘‘ کہتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں سٹیٹس کو کی حامل قوتوں نے یا نظمِ اجتماعی سے مُراعات یافتہ طبقات نے کبھی بھی تبدیلی کی قوتوں کے آگے آسانی سے سر ِتسلیم خم نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ بھرپور مزاحمت کی۔
انبیائے کرام اور رُسُلِ عِظام علیہم السلام اپنے اپنے عہد کے کفر و شرک اور باطل کے مقابل تبدیلی کے علمبردار تھے اور اسی لیے ان کی شدید مزاحمت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ''اور جب اُن (مشرکینِ مکہ) سے کہا جاتا ہے: اس دین کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول (کی شریعت) کی طرف آؤ تو وہ کہتے ہیں: ہمارے لیے وہی شِعارِ (زندگی) کافی ہے، جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، خواہ اُن کے باپ دادا کسی چیز کا علم نہ رکھتے ہوں اور ہدایت سے عاری ہوں‘‘ (المائدہ: 104)، (2) ''اور جب اُن سے کہا جاتا ہے: تم اُس کلام کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے، تو وہ کہتے ہیں: بلکہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، خواہ شیطان انہیں دوزخ کے عذاب کی طرف بلا رہا ہو‘‘ (لقمان: 21)، (3) ''جب( ابراہیم علیہ السلام) نے اپنے (عرفی) باپ اور اپنی قوم سے کہا: یہ کیسی مورتیاں (بت) ہیں ، جن کی (پرستش) پر تم جمے ہوئے ہو؟ تو انہوں نے کہا: ہم نے اپنے باپ دادا کو اِنہی (بتوں) کی عبادت کرتے ہوئے پایا تھا‘‘ (الانبیاء: 52 تا 53)، (4) ''اور انہوں نے کہا: اگر رحمن چاہتا تو ہم اُن (فرشتوں) کی عبادت نہ کرتے، انہیں اس کا کچھ علم نہیں، وہ محض اٹکل پچو سے باتیں کرتے ہیں، کیا ہم نے انہیں اس سے پہلے کوئی کتاب دی ہے جس کو یہ مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں، نہیں! بلکہ انہوں نے کہا: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم ان ہی کے نقشِ قدم پر چل کر ہدایت پانے والے ہیں‘‘ (الزخرف: 20 تا 22)۔
الغرض ہر دور میں Status Quo کے علمبردارتبدیلی کے آگے سدِّراہ بن کر کھڑے ہو گئے اور حق کے علمبرداروں کا ہر قیمت پر راستہ روکنے کی کوشش کی؛ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض انبیائے کرام کے پیروکار چند نفوس پر مشتمل ہوں گے۔ پھر عام طور پر اپنے عہد کے فارغ البال و مُرفَّہُ الحال طبقات اور خاص طور پر اس نظام سے فائدہ اٹھانے والے مراعات یافتہ طبقات نے ہمیشہ تبدیلی کو اپنے مفادات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا اور ہر قیمت پر اُسے ناکام بنانے کی کوشش کی۔
بالعموم دَرماندہ ، پسے ہوئے مظلوم طبقات اور قرآنِ کریم کے الفاظ میں''مُسْتَضْعَفِیْن‘‘ نے تبدیلی کو خوش دلی سے خوش آمدید کہا؛ چنانچہ جب رسول اللہﷺ کا مکتوبِ گرامی لے کر حضرت دِحیہؓ قیصر روم ہِرَقْل کے دربار میں گئے، تو ہِرَقْل نے درباریوں سے کہا: اِن کی قوم کا کوئی فرد ہے جس سے حقائق معلوم کیے جائیں، تو ابوسفیان کہتے ہیں: پھر قریش کے چند افراد کے ہمراہ مجھے دربار میں بلایا گیا، اس موقع پر ابوسفیان اور قیصر کے درمیان سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے بارے میں مندرجہ ذیل مکالمہ ہوا:
قیصر: ان کا خاندان کیسا ہے؟ ابوسفیان: یہ عرب کے شریف ترین خاندان (بنوہاشم) کے فرد ہیں۔ قیصر: کیا ان کے اَسلاف میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ ابوسفیان: نہیں! قیصر: ان کے پیروکار غریب لوگ ہیں یا دولت مند؟ ابوسفیان: غریب اور ضعیف لوگ ہیں۔ قیصر: ان کے ماننے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے یا گھٹ رہی ہے؟ ابوسفیان: بڑھ رہی ہے۔ قیصر: کیا ان کا دین قبول کرنے کے بعد کوئی شخص ان کے دین سے بیزار ہوکر مرتَد بھی ہوا ہے؟ ابوسفیان: نہیں! قیصر: نبوت کے دعوے سے پہلے کیا لوگ ان پر جھوٹ بولنے کا الزام بھی لگاتے تھے؟ ابوسفیان: نہیں! قیصر: کیا انہوں نے کبھی کسی سے عہد شکنی کی ہے؟ ابوسفیان: اب تک نہیں کی۔ قیصر: کیا تمہاری آپس میں کبھی جنگ بھی ہوئی ہے؟ ابوسفیان: ہمارے درمیان جنگیں ہوئی ہیں۔ قیصر: ان کا نتیجہ کیا نکلا؟ ابوسفیان: کبھی وہ غالب آئے اور کبھی ہم۔ قیصر: وہ تمہیں کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ ابوسفیان: وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں، وہ ہمیں نماز پڑھنے، روزہ رکھنے، صدقہ کرنے، سچ بولنے، عِفّت اور صلۂ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔
ان سوالات و جوابات کے بعد ہِرَقْل نے یہ تبصرہ کیا: ''میں نے تم سے پوچھا ''کیا تم میں سے کسی اور نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ تم نے کہا: نہیں‘‘، میں نے گمان کیا: اگر ان سے پہلے ان کے خاندان میں کسی اور نے ایسا دعویٰ کیا ہوتا تو میں سمجھتا یہ شخص اُس کی اقتدا کر رہا ہے۔ میں نے تم سے پوچھا ''اُن کے آبائو اَجداد میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ تم نے کہا: نہیں‘‘ میں نے خیال کیا کہ اگر اُن کے آبائو اَجداد میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو میں یہ گمان کرتا کہ وہ بادشاہت کو حاصل کرنے کے لیے یہ دعویٰ کر رہا ہے۔ تم نے بتایا: اُن پر کبھی جھوٹ بولنے کا الزا م نہیں لگا، تو مجھے یقین ہوگیا کہ جو شخص لوگوں پر جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ کے بارے میں کبھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ تم نے بتایا: کمزور لوگ اُن کی پیروی کر رہے ہیں اور اللہ کے رسولوں کی پیروی ابتدا میں ہمیشہ کمزور لوگوں نے ہی کی ہے۔ تم نے بتایا: ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے اور حق کے مشن کی روایت یہی رہی ہے۔ تم نے بتایا: ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی مُرتَد نہیں ہوا، یعنی ان کے دین سے پھرا نہیں اور اہلِ ایمان کا حال ہمیشہ یہی رہا ہے۔ ایک دفعہ ایمان جس دل میں گھر کر جائے پھر اس سے نکلتا نہیں ہے۔ تم نے بتایا کہ وہ اللہ کی عبادت کا حکم دیتے ہیں، شرک سے روکتے ہیں، نماز، روزہ اور صدقے کا حکم دیتے ہیں، سچائی کی تلقین کرتے ہیں اور پاک دامنی اور صلۂ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ سو اگر تمہارا بیان سچا ہے تو مجھے یقین ہے کہ عنقریب وہ میرے اِن دونوں قدموں کی جگہ کے بھی مالک بن جائیں گے۔ پھر عہدِ فاروقی میں ایسا ہی ہوا۔
اس عنوان پر میں نے گفتگو اس لیے شروع کی کہ آج کل حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے مابین جاری سیاسی کشمکش میں ایک فریق دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ Status Quo کو بدلنے آیا ہے اور Status Quoکی حامی سیاسی قوتیں اُس کی حریف ہیں۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ تبدیلی کے وہی علمبردار اور دعوے دار اپنے مشن میں سرخرو رہے ہیں جن کا ظاہر و باطن، قول و فعل، اقدامات، پالیسیاں اور مصاحبین ان کے دعوے سے مطابقت رکھتے ہوں، ورنہ جب انسان کا اپنا کردار اس کے دعوے کی اور اپنا فعل اس کے قول کی تردید کر رہا ہو، تو پھر مجرد دعوے سے تبدیلی نہیں آتی۔
ہم جو منظر دیکھ رہے ہیں، وہ تو یہی ہے کہ تبدیلی کے دعوے داروں کے گرد و پیش وہی لوگ ہیں جو Status Quo کے نمائندے ہیں اور ماضی میں بھی وہ Status Quo کی حامی قوتوں یا مقتدرہ کے ساتھ رہے ہیں اور ایسے کوئی شواہد نہیں کہ اُن کے نظریات تبدیل ہو چکے ہیں اور اُن کے انداز بدل چکے ہیں؛ یعنی اُن کی قلبِ ماہیت ہرگز نہیں ہوئی۔ مثلاً ہم کنٹینر پر سنتے تھے کہ نئے پاکستان میں نظامِ تعلیم کو ایک کر دیا جائے گا مگر ان کے ساتھ ہی وہ حضرت کھڑے نظر آتے تھے جن کی بہن کے تعلیمی سسٹم میں والدین پر بھاری مالی بوجھ ڈالا جا تا ہے۔ تحریک انصاف کے ایک ایم این اے کا ایبٹ آباد میں وومن میڈیکل کالج ہے، وہاں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ اِسی طرح کے اداروں کا ایبٹ آباد‘ صوبۂ خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں بلکہ پورے پاکستان میں جال بچھا ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صوبۂ خیبر پختونخوا کی نو سالہ حکومت میں اِس حوالے سے کوئی تبدیلی آئی ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ کیا یہ لوگ اپنے مفادات کو قربان کرنے کے لیے سیاست میں حصہ لے رہے ہیں؟ آج اشرافیہ کے کالجوں اور جامعات میں ماہانہ جتنی فیس دے کر طلبہ اور طالبات پڑھ رہے ہیں، کیا ان کو تعلیم سے فراغت کے بعد اس سے آدھی یا چوتھائی ماہانہ تنخواہ کی بھی کوئی گارنٹی ہے؟ جب ہم یہ حقائق کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور بیان کرتے ہیں تو حکومت کے بہت سے طرف دار ناگواری کا اظہار کرتے ہیں کہ گویا ہم تبدیلی کے مخالف ہیں۔ حاشا وکلّا! ہم تبدیلی کے حامی ہیں، تبدیلی کے حق میں ہیں، لیکن تبدیلی کے کچھ شواہد اور آثار و علامات بھی نظر آنی چاہئیں تاکہ لوگ شرحِ صدر کے ساتھ اور دل وجان کے ساتھ اُس کی حمایت کر سکیں اور حال یہ ہے کہ آپ تنقید سننے کے رَوَادَار نہیں ہیں اور سابق امریکی صدر جارج بش کے ڈاکٹرائن کو اپنائے ہوئے ہیں کہ تم ہمارے دوست یا دشمن‘ یعنی بیچ کا راستہ کوئی نہیں ہے۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ خیبر پختونخوا میں نو سال اور وفاق میں تقریباً چار سال کی حکمرانی کے بعد حکومتِ وقت کے پاس تبدیلی کی کوئی علامت نہیں ہے جسے وہ اپنی کامیابی کی علامت کے طور پر پیش کر سکے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
یہ گھڑی محشر کی ہے، تُو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل، عمل کوئی، اگر دفتر میں ہے!
سو سارا سرمایہ اتہام، الزام، دشنام، تہدیدات و وعیدات (Threats) کے سوا کچھ نہیں؛ البتہ 2011ء سے لے کر 2022ء تک کے تقریری ریکارڈ کو جمع کیا جائے تو دوسروں کی اہانت و تحقیر کے بارے میں ایک نئی سیاسی لغت ترتیب دی جاسکتی ہے، یہی سارا سرمایۂ افتخار ہے۔