تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     05-03-2022

پھر وہی کھیل؟

امریکی مصنف ڈینیئل ایس مارکے کی کتاب ''No Exit from Pakistan‘‘ میں جو کچھ لکھا ہے‘ اس کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو آپ گزشتہ چند روز سے حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی سرگرمیوں کو غور سے دیکھنا اور پڑھنا شروع کر دیں، سب کچھ سمجھ میں آ جائے گا۔ ڈینیئل ایس مارکے لکھتا ہے کہ پاکستان کا میزائل اور نیوکلیئر پروگرام اتنا بڑا اور وسیع ہے کہ امریکا کو اس پر ہر وقت مکمل اور گہری نظر رکھنے کیلئے پاکستان کے ساتھ مسلسل انگیج رہنا پڑے گا... پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے چین کی سول اور ملٹری قیا دت کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں اور چین پر ہر طرح نظر رکھنے کیلئے بھی پاکستان سے گہرے رابطے میں رہنا امریکا کی مجبوری بن چکی ہے... پاکستان کی عسکری طاقت اتنی مضبوط ہے کہ نہ صرف ریجن بلکہ باقی دنیا میں بھی یہ اپنی قابلیت کا لوہا منوا سکتی ہے اس لیے پینٹاگون اور دوسرے امریکی ادارے یہ محسوس کر چکے ہیں کہ پاکستانی فوج پر نظر رکھنے اور اس کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے کیلئے پاکستان کو انگیج رکھنا امریکا کی دفاعی اور خارجہ پالیسی کیلئے انتہائی ضروری ہے۔
''دفاع میں امریکی تعاون‘ زراعت میں امریکی تعاون‘ تعلیم میں امریکی تعاون‘‘ یہ وہ خوشنما بیانات ہیں جو ہم آئے روز سنتے ہیں‘ مگر امریکا پاکستان سے کتنا مخلص ہے‘ اسے پاکستان کی ترقی اور خوش حالی سے کس قدر دلچسپی ہے اس کی جھلک دیکھنی ہو تو اس کا طرزِ عمل دیکھیے۔ واضح ہو جائے گا کہ امریکا کی پاکستان سے دوستی اور تعلقات کی وجہ یہ نہیں کہ وہ پاکستان کی مدد کرنا چاہتا ہے‘ تعلیم اور زراعت کے شعبوں میں تعاون کر کے پاکستان کو خودکفیل بنانا چاہتا ہے یا وہ چاہتا ہے کہ پاکستان کی راہ میں کھڑی رکاوٹوں کو دور کیا جائے بلکہ امریکی پالیسی یہ ہے کہ اس پر نظر رکھی جائے‘ اسے ہر وقت اپنے ساتھ انگیج رکھا جائے تاکہ وہ کبھی امریکی کیمپ سے باہر نہ نکل سکے۔ امریکا کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی 75 سالہ تاریخ کو دیکھنا ہو تو ڈینیئل ایس مارکے کے ان الفاظ میں دیکھیں۔ وہ لکھتا ہے کہ ''امریکیوں نے پاکستان کے قریب آتے ہی یہ ا صولی فیصلہ کر لیا تھا کہ پاکستان کو کبھی خود مختار اور اس قدر ڈویلپ ہونے کی اجا زت نہیں دی جائے گی کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو کر محتاجی اور امداد کے کشکول سے آزاد ہو جائے بلکہ اسے ہمیشہ زندگی کے ہر شعبے میں‘ خاص طور پر دفاعی اور صنعتی شعبوں میں‘ اپنا محتاج رکھنا ہو گا۔ امریکا کو یہ رہنما اصول بنانا ہو گا کہ کسی بھی وقت کوئی ایسی غلطی نہ کر بیٹھے کہ پاکستان مسلم دنیا کو لیڈ کرنے کے قابل ہو جائے بلکہ ایسے طریقے اور حربے استعمال کیے جائیں کہ اسے مسلم دنیا کی قیادت کے قابل ہی نہ رہنے دیا جائے اور نہ ہی مسلم ممالک کو اپنے دفاع اور سکیورٹی کے لیے اس کا محتاج بننے دیا جائے‘‘۔ آگے چل کر مصنف لکھتا ہے کہ ہم امریکیوں کو چاہیے کہ اپنے مفاد کے لیے کیے جانے والے فیصلوں کے مطابق تھوڑے تھوڑے وقفے سے پاکستان کو اتنا ''ڈی سٹیبلائز‘‘ کرتے رہیں کہ وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ رہے اور اس کیلئے پہلا اصول اور طریقہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاسی قیادت کو ہر طرح سے اپنے ساتھ چمٹا لو‘ انہیں اس قدر خوش رکھو اور ایسی آسانیاں اور راحت فراہم کرو کہ وہ کسی اور جانب دیکھنے کی تمنا ہی چھوڑ دیں۔ وہ صرف اپنے متعلق سوچیں نہ کہ پاکستان سے متعلق۔ ان لیڈروں اور انتظامی و سیاسی اہلکاروں کی شہ رگ اپنے قبضے میں لے کر ان کا سب کچھ اپنے پاس رکھو تاکہ انہیں کبھی بھی جواب طلبی یا تکلیف کی صورت میں زیادہ پریشانی نہ دیکھنا پڑے۔ اس کیلئے چار‘ پانچ اعلیٰ طبقوں پر ہی زیادہ فوکس کرنا ہو گا۔ ڈینیئل ایس مارکے تفصیل بتاتے ہوئے لکھتا ہے ''کبھی کبھی ہمیں بہت حیرانی ہوتی‘ جب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی افسر اور لیڈر بہت کم چیزوں پر خود کو سرنڈر کر دیتے۔ کچھ قیمت اور مراعات پر یا انہیں اور ان کی فیملی کو امریکا کا ویزہ مل جائے تو وہ ہر حکم ماننے پر تیار ہو جاتے ہیں‘‘۔
کتاب کے اس اقتباس کو ایک طرف رکھ کر یہ خبر ملاحظہ کریں‘ لگ بھگ ڈھائی سال قبل سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران حکومت کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ تقریباً ایک ہزار اعلیٰ عہدے کے سرکاری ملازمین کے پاس غیر ملکی شہریت ہے۔ بتایا گیا کہ 540 نے کینیڈا‘240 نے برطانیہ اور 190 کے قریب افسران نے امریکا کی شہریت لے رکھی ہے۔ اسی طرح درجنوں سرکاری ملازمین نے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ملائیشیا اور آئرلینڈ جیسے ملکوں کی شہریت بھی لے رکھی ہے۔ اس سے قبل حکومت نے اسمبلی فلور پر بھی اس حوالے سے بریفنگ دی تھی جبکہ اعلیٰ گریڈ کے افسران کی ایک لسٹ بھی جاری کی گئی تھی جو غیر ملکی شہریت رکھتے تھے۔ امریکی مصنف کی چونکا دینے والی کتاب میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں‘ ان میں سے کچھ کا عملی تجربہ اگلے چند دنوں میں اسلام آباد کی فضائوں میں ہم سب کو دیکھنے کو ملنے والا ہے۔ شنید ہے کہ انکل سام نے اپنی بساط بچھا دی ہے اور لگتا ہے کہ عمران خان حکومت کو اس کے صاف انکار کی سزا ملنے والی ہے۔ وہ لوگ جو اس کھیل کا حصہ بننا چاہتے ہیں انہیں امریکا سے دوستی کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اب تک امریکا نے ہمیں کس جرم کی سزا دیتے ہوئے پسماندگی کا شکار رکھا ہے۔ امریکا کی سچی اور پکی دوستی پاکستان کے ساتھ ہے یا بھارت کے ساتھ؟ آج کی دنیا میں امریکا کا سٹریٹیجک پارٹنر بھارت ہے یا پاکستان؟ چین کے جنوبی سمندروں میں امریکی پلان کو آگے بڑھانے والا مہرہ بھارت ہے لہٰذا امریکا کی ہمدردیاں بھارت کے ساتھ ہوں گی‘ اس کی تمام نوازشات بھی بھارت پر ہوں گی نہ کہ پاکستان پر۔ اس کا ایک مظاہرہ ہم ''مذہبی آزادی پر تشویش‘‘ والے ممالک کی امریکی فہرست میں کر چکے ہیں کہ مذہبی اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر سفارش کے باوجود بھارت کو اس لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔
نومبر 2010ء میں امریکی صدر اوباما کے دورۂ بھارت کے دوران‘ بھارتی پارلیمنٹ میں کیے گئے خطاب کے یہ الفاظ پاکستان اور اس کی اردگردکی طاقتوں کو ہمیشہ اپنی خارجہ اور سٹریٹیجک پالیسی کی تیاری یا ردو بدل سے پہلے بار بار دیکھنے اور سننے ہوں گے۔ یہ الفاظ اوباما نے خود سے نہیں ادا کیے تھے بلکہ اگلی کئی دہائیوں تک کی امریکی پالیسی کے خدوخال طے کرنے والے پالیسی سازوں کی تیار کردہ ہدایات کی روشنی میں یہ کہا گیا تھا کہ
We want India not only to "look East", we want India to "engage East".
اس وقت کے امریکی صدر کے نشتر کی طرح بدن میں چبھتے ہوئے یہ الفاظ‘ جو پاکستان اور چین کے علاوہ تمام سارک ممالک کی دہلیز پر کھڑے ہو کر کہے گئے تھے‘ اسی سوچ اور ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں‘ کئی برس پہلے امریکا کے سابق سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر نے جن کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا ''امریکا سے دشمنی لینا خطرناک ہو سکتا ہے لیکن امریکا کی دوستی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے‘‘۔ امریکا کے اس بنیادی اصول کا پاکستان کئی مرتبہ شکار ہو چکا ہے۔ افغانستان میں دوسری امریکی جنگ میں شمولیت کے ہولناک نتائج پاکستان اب تک بھگتتا چلا جا رہا ہے۔ نیٹو اور امریکا کی پاکستان سے ''دوستی‘‘ دیکھیے کہ بلوچستان میں دہشت گردی پھیلانے والی تنظیموں کا ہیڈکوارٹر یورپ میں دھڑلے سے کام کر رہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے والوں کو تمام تحفظ اور مراعات فراہم کی جاتی ہیں۔ بدمعاشی اور ہٹ دھرمی دیکھئے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ہینڈلرز اور ماسٹر مائنڈز یورپی ملکوں میں اپنا ہیڈ کوارٹر بنا کر پاکستان کی سکیورٹی فورسز، قومی تنصیبات اور شہریوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں مگر ایف اے ٹی ایف کے آہنی جال میں پاکستان کو جکڑا جا رہا ہے۔ یہ ہے ان کا قانون، ہیومن رائٹس اور آزادیٔ اظہار کا معیار۔
''ہم آپ کے پارٹنر آف پیس تو ہو سکتے ہیں مگر پارٹنر آف کنفلکٹ نہیں‘‘۔ یہ الفاظ اور یہ بیان سنتے ہی امریکا کی رگیں کھنچ گئیں اور ایک تنائو دیکھنے کو ملنے لگا۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ بیانیہ کبھی بھی ہضم نہیں کیا جائے گا اور اس کی سزا دینے کیلئے تماشا اگلے چند روز میں لگنے ہی والا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved