امریکا نے ثابت کردیا ہے کہ وہ محض بدمعاش ریاست ہی نہیں، چالاک و سفاک بنیا بھی ہے۔ جہاں جس چیز کی ضرورت ہو وہاں امریکا وہی چیز استعمال کرتا ہے اور مطلوب فوائد حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ یوکرین کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ یوکرین پر لشکر کشی کے حوالے سے دنیا بھر میں روس پر لعن طعن کی جارہی ہے۔ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ ایک چھوٹی سی ریاست پر چڑھائی کرکے اُسے تاراج کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب امریکا اور یورپ نے مل کر افغانستان، عراق اور لیبیا پر چڑھائی کی تھی‘ تب عالمی برادری کو کیا ہوا تھا؟ تب زبانیں گنگ کیوں ہوگئی تھیں؟ یورپ کو روسی لشکر کشی سے اُتنی تکلیف نہیں پہنچی جتنی تکلیف اِس بات سے پہنچی ہے کہ یوکرین 'اپنا‘ ہے، یورپ کا حصہ ہے۔ یورپ اب اپنے آنگن میں لڑائی دیکھنے کا عادی ہے نہ شوقین۔ وہ امریکا کے ساتھ مل کر دور افتادہ خطوں میں خرابیاں پیدا کرتا آیا ہے۔ امریکا نے یوکرین کے بحران میں یکسر غیر جانبدار رہنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فوج نہیں بھیجے گا؛ البتہ یوکرین کی فوج کو تربیت ضرور دی جاسکتی ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان پر دنیا حیران ہے۔ جس ملک میں جنگ ہو رہی ہے اُس کے فوجیوں کو تربیت دینا؟ یہ تو اکیسویں صدی کا اب تک کا سب سے بڑا لطیفہ ہوگیا۔
روس جانتا تھا کہ امریکا جو کچھ کہہ رہا ہے وہ محض ڈراوہ ہے، گیدڑ بھبکی ہے۔ یورپ بھی امریکا کی آواز میں آواز ملاکر یوکرین کو طفل تسلیاں دے رہا تھا۔ یوکرین کی قیادت کو یقین دلایا جارہا تھا کہ اگر روس نے حملہ کیا تو نیٹو ممالک اُس کی مدد کو آئیں گے اور روس کو مزہ چکھا دیں گے۔ یوکرینی قیادت مطمئن تھی کہ امریکا اور یورپ کے ایسے واضح بیانات کے بعد روس حملے کی غلطی نہیں کرے گا۔ یہ محض خام خیالی تھی! روسی قیادت کو معلوم تھا کہ امریکا اور یورپ یوکرین کی جنگ میں کودنے کی حماقت نہیں کریں گے۔ یہی سبب ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بے فکر ہوکر لشکر کشی کی۔ امریکا کو ایک ہی بات سے غرض تھی؟ تھی کیا‘ اب بھی ہے‘ صرف اپنا اسلحہ بیچنے سے۔ اسلحہ بنانے اور فروخت کرنے والے دس بڑے اداروں میں سے پانچ امریکا میں ہیں اور سب سے بڑا اسلحہ ساز ادارہ بھی امریکا ہی میں ہے۔ امریکی سیاست و معیشت کے زندہ رہنے کا مدار اس بات پر ہے کہ دنیا بھر میں کہیں نہ کہیں خون خرابہ ہوتا رہے۔ امریکی قیادت اپنی گھناؤنی پالیسیوں کے تحت دنیا بھر میں خانہ جنگیاں کراتی ہے۔ بعض ریاستوں کے درمیان پائے جانے والی کشیدگی کو امریکا اور یورپ مل کر ہوا دیتے ہیں تاکہ سرد جنگ کچھ گرم بھی ہو اور اسلحے کی منڈی میں تیزی آئے۔ اسلحے کی منڈی پر امریکا کی اجارہ داری ہے۔ اُس نے یورپی ہم نواؤں کی مدد سے اس کاروبار میں اپنی مرضی کا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک کو جب اپنے دفاع کے لیے کچھ خریدنا ہوتا ہے تو امریکا اور یورپ کی طرف دیکھتے ہیں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ امریکا اپنی مرضی کے حکمران نصب کرے۔ کمزور اور قرضوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ممالک میں امریکا سیاسی خرابیاں پیدا کرکے اپنی مرضی کے مہروں کے اقتدار دلاتا ہے۔ یہ حاشیہ بردار ایسی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں جن سے امریکی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تقویت ملتی ہے۔
امریکا کو لے دے کر صرف اس بات سے غرض ہے کہ اُس کا اسلحہ فروخت ہوتا رہے۔ اگر دنیا جنگ کی دلدل میں پھنسی ہے تو پھنسی رہے۔ امریکی قیادت کو اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ اسلحے کی دوڑ سے کون سا خطہ تباہی کا شکار ہو رہا ہے۔ وہ تو صرف اپنے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو زیادہ سے زیادہ توانا رکھنا چاہتا ہے۔ یوکرین پر روس کی لشکر کشی کی مذمت کرنے والوں کی کمی نہیں! کمی ہے تو صرف اُن کی جو اس بات پر غور نہیں کرتے کہ یہ سب کیا دھرا امریکا اور یورپ کا اپنا ہے۔ یوکرین کے معاملے میں روس ہمیشہ حساس رہا ہے۔ جب تک یوکرین میں روس کی مرضی کی حکومت رہی، معاملات درست رہے۔ امریکا نے پندرہ سال قبل وہاں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کی کوششیں تیز کیں تو بگاڑ پیدا ہوا۔ بگاڑ تو پیدا ہونا ہی تھا کیونکہ روسی قیادت نے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ یوکرین کے ہاتھ مضبوط کرکے اُسے گھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ روس معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم نیٹو کی مشرقی یورپ کی جانب توسیع کا سخت مخالف ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ نیٹو کی توسیع کی صورت میں وہ محصور ہوکر رہ جائے گا۔
سابق امریکی صدر جارج واکر بش نے اپنے دور میں یوکرین اور جارجیا کو مضبوط کرنے کی کوشش کی تو روس برہم ہوا۔ اس کا نتیجہ جارجیا کے خلاف روس کی لشکر کشی کی صورت میں برآمد ہوا۔ امریکا نے جارجیا کو ہتھیاروں کی رسد بڑھائی تو روس کو خطرہ محسوس ہوا اور اس نے حملہ کردیا۔ روس اور جارجیا کے معاملات پہلے ہی خراب تھے۔ امریکا نے 'بی جمالو‘ کا کردار ادا کرتے ہوئے جلتی پر تیل چھڑکا۔ مقصود صرف یہ تھا کہ جنگ چھڑے اور امریکی اسلحہ فروخت ہو۔ یوکرین کے معاملے میں بھی امریکا نے یہی کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو اسلحہ فروخت کرنے کی منظوری دی تو روس ناراض ہوا۔ اُس کا استدلال تھا کہ یوکرین کو مضبوط کرکے روسی سرحدوں پر خطرہ کھڑا کیا جارہا ہے۔ محض چار سال کی مدت میں یوکرین کو ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ کے ہتھیار، میزائل اور اینٹی ٹینک راکٹ فراہم کیے گئے۔ یوکرین کی قیادت یہ سمجھ رہی تھی کہ امریکا اور یورپ مل کر اُسے ناقابلِ تسخیر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہتھیار اور گولہ بارود ملا تو یوکرین کی ہمت بڑھی اور اُس نے روس کے خلاف ڈٹ جانے کی سعی شروع کر دی۔ اُسے کیا معلوم تھا کہ امریکا اور یورپ بارود کے ڈھیر کو جلتی تیلی دِکھاکر پتلی گلی سے نکل لیں گے۔
یوکرین پر روسی حملے کے بعد یورپ بھی اِس لیے کھنچا کھنچا ہے کہ وہ اپنے آنگن میں جنگ نہیں چاہتا۔ یہی سبب ہے کہ مغربی میڈیا پر بہت سے رپورٹرز اور تجزیہ کاروں نے یوکرین پر روس کی لشکر کشی کی رپورٹنگ کے دوران انتہائی شرم ناک انداز سے نسلی امتیاز کا مظاہرہ کیا۔ بیشتر رپورٹرز اور مبصرین نے یوکرین جیسے ''مہذب، ترقی یافتہ ملک‘‘ کے لوگوں کو نشانہ بنائے جانے پر افسوس کا اظہار کیا۔ اُن کا استدلال ہے کہ جنگ تو صرف تیسری دنیا کے ''جاہل، غیر مہذب، غیر منظم، پس ماندہ اور اُجڑے ہوئے‘‘ معاشروں کا حق ہے! یوکرین کی صورتِ حال کی رپورٹنگ کے دوران اِس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ''پڑھے لکھے، مہذب اور شائستہ مزاج‘‘ لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اِن مغربی رپورٹرز اور مبصرین کی نظر میں بمباری کے مستحق صرف تیسری دنیا کے ''وحشی‘‘ ہیں، مغرب کے ترقی یافتہ معاشروں کے شہریوں کو نشانہ بنانا جہالت اور سفاکی ہے! یورپ اپنے آنگن میں لاشیں دیکھ کر پریشان ہو اٹھا ہے۔ دُہائیاں دی جارہی ہیں کہ یہ سراسر ظلم ہے، نا انصافی ہے، سفاکی اور درندگی ہے۔ جب افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کے بے قصور شہریوں کو شدید بے حسی اور سفاکی سے موت کے گھاٹ اتارا جارہا تھا تب دنیا کو کیا ہوا تھا؟ تب زبانوں پر تالے کیوں پڑے ہوئے تھے؟ امریکا نے ایک بار پھر یوکرین کو تختۂ مشق بناکر اپنی تجوریاں بھرنے کا اہتمام کیا ہے۔ یوکرین کو اسلحہ دینے سے روس میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا گیا اور یوں روسی قیادت کو یوکرین پر حملے کے لیے شہ ملی۔ سابق امریکی صدر اوباما نے یوکرین کو اسلحے کی فراہمی روکی تھی مگر صدر ٹرمپ نے یہ بحال کردی۔ گویا یہ طے کرلیا گیا تھا کہ کسی نہ کسی طور جلتی پر تیل چھڑکتے رہنا ہے تاکہ جنگ کی آگ بھڑک اٹھے۔
امریکا جو کھیل اب تک کھیلتا آیا ہے وہ کسی بھی وقت پلٹا کھاکر اُسے کھلونے میں تبدیل کرسکتا ہے۔ اب نئی دنیا ابھر رہی ہے۔ چین نے کمر کس لی ہے۔ روس بھی خم ٹھونک کرمیدان میں اتر آیاہے۔ ایسے میں امریکا اور اُس کے ہمنوا یورپی ممالک کی بدمعاشی اور بنیا گیری زیادہ دن چلے گی نہیں۔ دنیا بھر کی کمزور اور مظلوم اقوام کو تیزی سے ابھرتی ہوئی نئی دنیا میں اپنے کردار کے حوالے سے حساس اور محتاط رہنا چاہیے۔