مغربی میڈیا نے مسلمان قوم کا چہرہ ایک سفاک گروہ کے طور پر اس طرح بنا کر پیش کیا ہے کہ ان کے اخبار ورسائل، کتب اور ٹیلی ویژن سے معلومات حاصل کرنے والی آج کی نوجوان نسل یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ ہم دنیا کی اب تک لکھی جانے والی تاریخ میں سب سے زیادہ رحم دل اور با اصول تھے۔ دنیا کی کسی بھی قوم سے یا کسی بھی مذہب سے ہمارا موازنہ کر لیا جائے تو ہمارے کھاتے میں آنے والی قتل و غارت سب سے کم ملے گی۔ یہاں پانچ ہزار سال پر محیط انسانی تاریخ کے دفتر الٹنے کی ضرورت نہیں۔ صرف گذشتہ صدی‘ جو ا بھی صرف تیرہ سال پہلے ختم ہوئی اور جس کے گواہ آج بھی ہمارے معاشرے میں زندہ ہیں، میں ہونے والی قتل وغارت اور سفاکی کا حساب کر لیں تو مسلمانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو جہاد کے تصور کی وجہ سے خونریزی اور تشدد پر اکساتا ہے، جبکہ دنیا کے دیگر مذاہب پُرامن ہیں۔ ایک اور نعرہ جواس بیسویں صدی میں بہت گونجا‘ یہ تھا کہ مذہب کا ہماری اجتماعی زندگی سے کوئی تعلق نہیں اور اسے انفرادی معاملے کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ یوں سیکولر ازم اور سیکولر ریاستوں کا وجود اس دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ لیکن ان تمام ریاستوں کی منافقت دیکھئے کہ برطانیہ کا بادشاہ چرچ آف انگلینڈ کا سربراہ ہوتا ہے، سویڈن کا چرچ ایک ریاستی ادارہ ہے اور سپین تو کیتھولک چرچ کی خونریزیوں کی عبرتناک داستان ہے جسے فرانسسکو فرانکو کے دور کی سول وارنے ثابت کیا۔ اس پورے مسیحی یورپ نے بیسویں صدی میں دو کام کیے جن کی وجہ سے دنیا خون کا ایک بہتا ہوا دریا بن گئی۔ ایک انہوں نے قومی ریاستوں کا تصور پیش کیا اور پھر اسے دنیا کے حصے بخرے کر کے نافذ بھی کیا اور دوسرا جنگ کو ایک صنعت کا درجہ دے دیا۔ ایک انڈسٹری جس سے اربوں بلکہ کھربوں ڈالر کمائے جا سکیں۔ میں یہاں جنگ عظیم اول اور دوم میں مارے جانے والے آٹھ کروڑ انسانوں کی بات نہیں کرنا چاہتا کہ یہ تعداد اکیلے ہی پوری انسانی تاریخ میں ہونے والی قتل و غارت سے زیادہ ہے۔ لیکن روسی آرتھوڈوکس چرچ‘ جس کے کرتا دھرتا زارِ روس اور پھراس کے بعد کیمونسٹ انقلاب کے علمبرداروں نے جب ملحقہ مسلم علاقوں پر قبضہ کیا تو وہاں تقریباً پندرہ لاکھ لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور یہ قتل عام1916ء سے1930ئتک جاری رہا۔ الجزائر جو اس زمانے میں صرف ایک کروڑ دس لاکھ لوگوں کا ملک تھا، جب اُس نے1954ء سے1962ء تک فرانس سے آزادی کی جنگ لڑی تو اس کے پانچ لاکھ لوگ تہہ تیغ کر دیے گئے۔ یہاں ایک ایسے ملک کے ظالم ترین بادشاہ کی کہانی بیان کرنا ضروری ہے جسے آج کے دور کے لوگ امن کا علمبردار، پُرسکون اور انسانی حقوق کا نگہبان محسوس کرتے ہیں۔ یہ ملک یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بیلجیم‘ جس کے شہر برسلز میں کھڑے ہوکر یورپی ممالک کے سربراہوں کو مخاطب کرتے ہوئے سربیا کے سربراہ میلا سووچ نے بوسنیا کے مسلمانوں کے قتل عام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’یورپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ اپنے بیچوں بیچ ایک مسلمان ملک(بوسینا) کا وجود برداشت کرسکتا ہے‘‘۔اس ملک کا ایک بادشاہ تھا‘ لیوپولڈ(Leopold)۔ اس کو اس کے صلاح کاروں نے بتایاکہ افریقہ کا ایک ملک کانگو،ربڑ اور ہاتھی دانت کی دولت سے مالا مال ہے۔ اس نے ایک شخص ہنری مارٹن سٹینلے کو وہاں جا کر ان خزانوں کا کھوج لگانے کا کہا۔ اپنی تحقیقات کے بعد جب اس نے بادشاہ کو اس دولت سے آگاہ کیا تو بادشاہ نے انسانی حقوق کے علمبردار کا لبادہ اوڑھا اور افریقیوں کی ایک تنظیم (Association internationale Africaine) کا چیئرمین بن گیا اور کانگو کو ایک آزاد حیثیت دلوانے کے لیے جدوجہد کرنے لگا۔ یوں وہ اپنے ہی ایک یورپی ملک کے خلاف افریقی عوام کا خود ساختہ ترجمان بن گیا اور 1885ء کی جرمن کانفرنس میں کانگو کو لیو پولڈ کی ذاتی جاگیر کا درجہ دے کر آزاد کیا گیا اور اسے دنیا نے ایک آزاد ریاست تسلیم بھی کر لیا۔ یہاں سے کانگو کے عوام کی بدقسمتی کا آغاز ہوا۔ انسانی حقوق کا یہ علمبردار بادشاہ لیو پولڈ اپنے ملک میں موجود ٹائروں کی صنعت کی ترقی کا خواہاں تھا اور اس کے لیے اسے کانگو سے زیادہ سے زیادہ ربڑ کی ضرورت تھی۔ اس نے ربڑ کی پیداوار میں جبری مشقت کو نافذ کرنے کے لیے بیلجیم سے فوج وہاں بھیجی جسے( Force Publique) کہتے تھے۔ اس فوج یا قانون نافذ کرنے والے ادارے نے ہر شخض کے لیے ربڑ کی پیداوار کا ایک کوٹہ مقرر کیا اور جو یہ کوٹہ پورا نہ کرتا اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا۔ لوگوں کے بیچوں بیچ کسی ایسے شخص کو ایک تختے پر باندھا جاتا جو کام میں سستی کرتا اور پھر اس پر اس وقت تک کوڑے برسائے جاتے جب تک وہ مرنہ جاتا۔ لوگوں کے کھیتوں سے زبردستی غلہ وغیرہ فوج کی ضروریات کے لیے اٹھا لیا جاتا اور انہیں بھو ک سے موت کی آغوش میں جانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ یہاں سے لوٹے گئے سرمائے کا اندازہ بیلجیم کے ایک ادیب مارچل(Marchal) نے تقریباً 2ارب ڈالر لگایا ہے۔ اس سرمائے سے بادشاہ نے ایک سولہ سالہ طوائف کیرولین کے لیے بڑے بڑے گھر بنائے‘ تحائف خریدے، یادگاریں بنائیں اور عجائب گھر قائم کیے۔ ظلم کی داستان یہ ہے اس دہشت اور جبری مشقت کی وجہ سے کانگو کی آدھی آبادی موت کی آغوش میں چلی گئی۔ یہ تعداد تقریباً 80لاکھ بنتی ہے۔ یہ صرف ایک افریقی ملک کی کہانی ہے جبکہ اس بدنصیب براعظم کے تو آج تک حالات نہیں بدل سکے۔ تیل اور معدنیات سے مالا مال یہ علاقہ قحط، بیماری، جنگ و جدل اور قتل و غارت کی آگ میں ایسا جھونک دیا گیا کہ اس الائو میں انسانوں کو لکڑیوں کی طرح پھینکا جارہا ہے۔ گذشتہ صدی میں ہونے والی قتل و غارت کا حساب لگایا جائے تو فلپائن سے کوریا، تھائی لینڈ، مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے ممالک تک پندرہ کروڑ سے زیادہ لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ اس سے کم ازکم پندرہ چھوٹے بڑے ممالک کی آبادی ترتیب پا سکتی ہے۔ اس پوری صدی میں مسلمانوں کی آپس کی صرف ایک بڑی جنگ ہے جسے ایران‘ عراق جنگ کہا جاتا ہے اور جو 8سال تک جاری رہی۔ اس میں دس لاکھ لوگ مارے گئے اور اگر دوسرے ممالک میں ہونے والی قتل و غارت کا حساب کر لیا جائے تو یہ تعداد بیس لاکھ سے زیادہ نہیں بنتی۔ یہ تھی وہ ایک صدی جو ہم گذار چکے ہیں۔ اکیسویں صدی توابھی شروع ہوئی ہے اور عراق اور افغانستان میں لاشوں کی گنتی ممکن نہیں ہو پا رہی ہے۔ مرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس سب کے باوجود دنیا بھر کے میڈیا چینل اور پھر میرے ملک کے ’’عظیم اور ذہین‘‘ دانشور منہ پر تلخی لاکر، غصے میں بپھرے ہوئے نفرت میں ڈوبے لفظو ں میں بولتے ہیں: یہ مسلمان تو شروع دن سے لڑتے چلے آ رہے ہیں‘ انہیں امن راس نہیں آتا۔ اور پھر مغربی دنیا کا قصیدہ شروع کر دیتے ہیں‘ اس کے گن گانے لگتے ہیں۔ وہ دنیا جس کے ہاتھ کروڑوں انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ یہ ہے میڈیا کاکمال ۔ اس سب کے باوجود اگر امتِ مسلمہ یہ سمجھتی ہے کہ جنگ میدانوں میں لڑی اور جیتی جائے گی تو بھول جائیں۔ اکیسویں صدی کا طاقتور ترین ہتھیار میڈیا ہے، زمین پر جیتی گئی جنگ صرف دو منٹ کے خبرنامے ، تبصرے یا ڈاکو منٹری کی بنیاد پر ہاری جاسکتی ہے ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved