تحریک عدم اعتماد کب پیش ہو گی، اِس کا اولین ہدف سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ہوں گے یا براہ راست وزیر اعظم کو نشانے پر رکھ لیا جائے گا۔ یہ اور اِس سے جڑے کئی سوالات پر زوروں کی بحث جاری ہے۔ شادی کی تقریبات ہوں یا قرآن خوانی کی مجالس، کسی نہ کسی طور اور کسی نہ کسی بہانے یہی بات چھڑ جاتی ہے۔ جہاں کوئی سیاست دان نظر آئے، خواہ وہ حکومتی ہو یا مخالفتی، اس سے اسی حوالے سے پوچھ گچھ شروع کر دی جاتی ہے، سیاسی مبصر نما کوئی شخص دکھائی دے جائے تو اسے نرغے میں لے لیا جاتا ہے، تابڑ توڑ سوالات ہوتے ہیں، ہر شخص یہ جاننا چاہتا ہے کہ مستقبل کے پردے میں کیا چھپا ہوا ہے؟ وزیر اعظم عمران خان کے دِن گنے جا چکے ہیں یا نہیں؟ اتحادیوں میں سے کس کو کس نے کیا اشارہ کیا ہے، کون فیصلہ کر چکا ہے، کون مخمصے میں ہے، کون ساتھ نبھائے گا، کون چھلانگ لگا جائے گا؟ تحریک انصاف میں باغیوں کی تعداد کتنی ہے، کتنے کھڑے رہ جائیں گے، اور کتنے ٹھنڈے پڑ جائیں گے؟ ان میں سے کسی بھی بات کا جواب قطعیت کے ساتھ نہیں دیا جا سکتا۔ جو بہت کچھ جانتے ہیں، وہ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ کس کس کا قدم، کس کس طرح بڑھے گا، اور جن کو کچھ پتا نہیں ہے، ان کی ٹامک ٹوئیاں تو شیدنی اور دیدنی ہونا ہی ہیں۔ بہت کچھ واضح ہونے کے باوجود کچھ بھی واضح نہیں ہو رہا، اور کچھ بھی واضح نہ ہونے کے باوجود بہت کچھ واضح ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کے انداز بدلے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے جیالے جھوم رہے ہیں، اور مولانا فضل الرحمن کے متوالے بھی وجد میں ہیں۔ چہروں پر جو اعتماد اور جو خوشی اب دیکھنے میں آرہی ہے، غیر جانبدار مبصرین کے نزدیک گزشتہ تین سال کے دوران دیکھنے میں نہیں آئی۔ کسی کے لبوں پر گنگناہٹ ہے، تو کسی کی آنکھ میں شرارت، کسی کے چہرے پر مسکراہٹ ہے تو کسی کے الفاظ میں معنویت۔ دیکھنے والے دیکھتے چلے، اور حسبِ خواہش خوش (یا ناخوش) ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اِس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ چودھری پرویز الٰہی جیسا سرد و گرم چشیدہ بھی کہہ اٹھتا ہے، اتنی بڑی ہانڈی (چولہے پر) چڑھی ہے، کچھ نہ کچھ تو نکلے گا ہی۔
پاکستانی سیاست نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، ایسے معاملات سے کئی بار اس کا پالا پڑا ہے۔ قائد اعظمؒ نے کہا تھا کہ جمہوریت ہمارے خون میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں ہر شخص جمہوریت کا دلدادہ ہے، اس سے محبت کے دعوے کرتا ہے، اس کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، اس کے باوجود جمہوریت کی جو درگت پاکستانی معاشرے میں بنی، وہ شاید ہی کہیں بنی ہو۔ جمہوریت سے ہماری کمٹمنٹ کا یہ عالم ہے کہ یہاں مارشل لاء بھی جمہوریت کے نام پر لگے ہیں۔ ہر قبضہ کرنے والے نے دعویٰ کیا ہے کہ سیاست دانوں نے جمہوریت کا ناک میں دم کر رکھا تھا، وہ ''ریشماں‘‘ کو بازیاب کرانے کے لیے آیا ہے۔ جنرل ایوب خان ہوں، یا یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق ہوں یا پرویز مشرف، سب کی آمد کا جواز جمہوریت کی تزئین و آرائش ہی میں ڈھونڈا گیا تھا۔ ایوب خان مرحوم نے تو اس کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے بنیادی اداروں کی تشکیل ضروری قرار دی تھی۔ سو ان کی جمہوریت کا نام ہی بنیادی جمہوریت پڑ گیا۔ بڑی تحریکیں چلا کر، جان جوکھوں میں ڈال کر، بی بی جمہوریت کو جرنیلی چنگل سے رہائی دلائی جاتی رہی کہ بحالی کے بجائے اس کی بے حالی کو مقصود قرار دے لیا گیا تھا۔ جمہوریت کے ذریعے جب لوگ اقتدار میں آتے تو پھر وہ اس کے ساتھ وہ کرنے لگتے جو مبینہ دشمن کر رہے تھے۔ اس پر ان کے مخالفین جمہوریت کی دہائی دینا شروع کر دیتے، الزام لگائے جاتے کہ جمہوریت کو گھر کی لونڈی بنا لیا گیا ہے، جمہوری اقدار کو فروغ نہیں دیا جا رہا، من مانی کی جا رہی ہے، اپوزیشن کا ناطقہ بند کر دیا گیا ہے۔ اسے بازیاب کرایا جائے۔ اکثر اپوزیشن حکومت سے اور حکومت اپوزیشن سے بیزار رہی ہے، اور بار بار بات ایوانوں سے نکال کر میدانوں تک پہنچی ہے۔ آج کی حکومت بھی کل کی اپوزیشن تھی، اس نے کئی سال اپوزیشن ہی میں گزارے ہیں، آج کی اپوزیشن کل اقتدار میں تھی، آنے والے کل پر بھی اس کی گرفت مضبوط ہے، اس کے باوجود جمہوریت کا ناطقہ بند ہے۔
یہ بات بار بار بھلا دی جاتی ہے کہ جمہوریت میں جیتنے والے اور ہارنے والے مستقل نہیں ہوتے، ایک انتخاب جیتنے کا مطلب تا حیات اقتدار کا حصول نہیں ہوتا۔ ایک معینہ مدت کے لیے، جو پاکستانی دستور کے مطابق پانچ سال ہے، لوگوں کو اپنے نمائندے چننے کا موقع ملتا ہے، جس کو اسمبلی کی نشستیں زیادہ ملتی ہیں، وہ حکومت بنا لیتا ہے۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج کو سامنے رکھ لیں تو کسی بھی جماعت کو سو فیصد ووٹ نہیں ملے، کوئی بھی سو فیصد عوام کی نمائندگی کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کو ملنے والے ووٹوں میں معمولی سا فرق ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی لاکھوں رائے دہندگان کا اعتماد حاصل کر رکھا ہے۔ تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت بھی حاصل نہیں تھی، اس نے کئی چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنا رکھی ہے، ملک بھر میں حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں بنچوں پر بیٹھنے والی جماعتوں کے حامی اور مخالف پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر وہ ایک دوسرے کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیں گے تو کسی کو سکون نہیں ملے گا، فساد برپا رہے گا، کوئی بھی وہ کام نہیں کر سکے گا، جو اُسے کرنا چاہیے۔ موجودہ حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے، اس نے اپوزیشن کو تسلیم کیا ہے، نہ اپوزیشن نے اسے تسلیم کیا ہے۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک اور افسوسناک باب ہے۔ نتیجتاً اب حالات وہاں پہنچ چکے ہیں کہ جہاں نہیں پہنچنے چاہئیں تھے۔ تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں زوروں پر ہیں، اپوزیشن پُر اعتماد ہے کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کو ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کرے گی۔ حکومت کے اتحادی اس کے ساتھ کھڑے رہیں گے تو بھی وہ حکومت کی صفوں میں اپنے اتحادی تلاش کر لے گی، بلکہ کر چکی ہے، کوئی دن کی بات ہے، سب کچھ بدل جائے گا۔ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں بدلے گا، پنجابی محاورے کے مطابق سر چارپائی کے سرہانے رکھ لیں، یا پائنتی پر، کمر نے تو درمیان ہی میں رہنا ہے۔ اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ سر اور پائوں کو تو سرہانے اور پائنتی کا فرق معلوم ہو جائے گا، کمر کی بات بعد میں دیکھ لیںگے۔ برادرم حفیظ اللہ نیازی کہ نیازی قبیلے کے ایک جی دار کمانڈر ہیں گزشتہ تین سال اپنے کزن وزیر اعظم کو اپوزیشن سے ڈراتے رہے، اب اپوزیشن کو وزیر اعظم سے ڈرا رہے ہیں، جہاں موقع ملتا ہے، یہ نکتہ بیان کرنے لگ جاتے ہیںکہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر عمران خان بہت خطرناک ہوں گے۔ انہیں اپنی مدت پوری کر لینے دی جائے تبھی ان کی بے چارگی مسلّم ہو گی، لیکن گزشتہ تین سال کے دوران وزیر اعظم نے جس طرح ان کی ایک نہیں سنی، اسی طرح اپوزیشن بھی ان کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہے ؎
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)