تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     06-03-2022

268

جب تاریخ کی کوئی کتاب پڑھتا تو حیرانی ہوتی تھی کہ انسان ہر دور میں ایک دوسرے سے جنگیں لڑتا آیا ہے‘ ایک دوسرے کو مارتا اور اس پر حکمرانی کرتا آیا ہے۔ انسان میں ایسی کیا چیز خدا نے ڈال دی ہے کہ جب تک وہ لہو نہ بہائے اسے آرام نہیں آتا؟ اگر کبھی امن ہوا بھی ہے تو وہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکا۔ انسانی تاریخ میں ظالم اور بے رحم حکمرانوں کا دور زیادہ لمبا رہا ہے۔تاریخ میں کم ایسے حکمران ملیں گے جو اچھے انسان تھے اور انہوں نے لمبا عرصہ حکمرانی بھی کی۔ یہ بات میں نہ سمجھ سکا کہ حالات زیادہ دیر اچھے انسانوں کو حکمران کیوں نہیں رہنے دیتے؟ ظالم اور بے رحم انسانوں کو کیوں طویل حکمرانی کا حق دیتے ہیں؟
پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جب دلی سلطنت کے حکمرانوں کی تاریخ پڑھی تو احساس ہوا کہ ان تین سو سالوں میں کل 33 بادشاہ گزرے۔ ابراہیم لودھی آخری حکمران تھا جسے 1526ء میں بابر نے پانی پت میں شکست دے کر مغل سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔ دلی کے ان حکمرانوں میں سے صرف تین بادشاہ انسان دوست تھے باقی تیس نے انسانی لہو بہایا اور بعض نے تو محض شغل اور شوق میں بہایا۔ ان تینوں کے اقتدار کا دورانیہ سب سے کم تھا۔ اسی طرح جب جنگ عظیم اول اور دوم کی تاریخ پڑھتے یا فلمیں دیکھتے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔ ایک جرمن ادیب کا لکھا ناول ''The Reader‘‘پڑھا تو کئی دن افسردہ رہا کہ وہ یورپی قومیں جنہوں نے طاقت کے زور پر دنیا فتح کی تھی ‘ انسانوں پر ظلم کئے تھے‘ وہ خود ایک دن کیسے خونریزی کا شکار ہوئیں اور ان کی نسلوں نے کیا کیا بھگتا۔
میرا خیال تھا کہ یورپ میں جنگِ عظیم اول اور دوم پر جتنا ادب لکھا گیا‘ فلمیں بنائی گئیں اور انسانی تکلیفوں کا احاطہ کیا گیا اس کے بعد یورپ کبھی جنگ کی طرف نہیں پلٹے گا۔ ان جنگوں کی تباہ کاریوں ہی کا ڈر تھا کہ یورپ متحد ہوگیا اور اپنی یونین بنا لی۔ یورپ کی اس تبدیلی کے پیچھے جہاں تباہی ‘بربادی اور انسانی المیہ تھا وہیں فلموں اور ادب کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔میرے جیسے سمجھتے تھے یا خود یورپین بھی یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ جنگیں وہی ہوں گی جو وہ اپنی سرحدوں سے دور لڑیں گے۔ اب کوئی جنگ ان کی سرحد پر نہیں لڑی جائے گی۔ یوں افغانستان ‘ عراق‘ لیبیا یا شام وغیرہ میں جنگیں لڑی گئیں۔ جیسے ہم نے جنگ عظیم اول اور دوم کو فلموں کے ذریعے دیکھا اسی طرح یورپینز نے بھی یہ جنگیں ٹی وی سکرین پر گھر وںکے آرام دہ ماحول میں بیٹھ کر دیکھیں۔ وہ بھی ہماری طرح یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ اب جنگیں نہیں ہوں گی‘اب وہ گھروں سے بے گھر نہیں ہوں گے۔ ان کے بچوں کو بموں کی آوازیں نہیں سننا پڑیں گی۔ اب طیارے اوپر سے گزرتے ہوئے ان پر بموں کی بارش نہیں کریں گے جیسے جنگ عظیم دوم میں جرمن طیاروں نے لندن پر کی تھی۔ یورپین اقوام اپنے تئیں سب خطرات کا بندوبست کئے بیٹھی تھیں۔ وہ اپنی دانست میں اپنی نئی نسلوں کو محفوظ مستقبل دے چکی تھیں‘لیکن کیا کریں انسانی فطرت ہے کہ یہ زیادہ دیر سکون سے نہیں بیٹھ سکتا۔ انسان کا حال زکوٹا جن کی طرح کا ہے کہ مجھے بتائو میں کیا کروں‘ میں کس کو کھائوں۔ اگر اس جن کو کوئی کام نہ ملا تو وہ اپنے مالک ہی کو کھانا شروع کر دے گا‘ لہٰذا سیانے لوگ اپنے جن کو مصروف رکھتے ہیں تاکہ اس کی نظر مالک پر نہ پڑے۔ اسی طرح سمجھدار ممالک اپنی عساکر کو مصروف رکھتے ہیں اور انہیں اپنی سرحدوں سے دور لڑنے کیلئے بھیجتے ہیں۔ جدید تاریخ میں امریکی اور یورپی جنگوں کے پیچھے شاید یہی فلاسفی تھی۔
امریکہ کی ایک خوبی رہی ہے کہ اب تک اس نے جو بھی جنگیںلڑیں وہ گھر سے دور لڑیں۔ امریکہ کو جنگ کا تلخ ذائقہ پہلے پرل ہاربر اور پھر گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد محسوس ہوا۔ یورپی قوموں نے اس کے برعکس براہ راست دو عالمی جنگیں بھگتیں۔ یورپی قوموں کو پہلے اگر جرمنی سے خطرہ تھا تو جنگ عظیم دوم کے بعد انہیں روس بڑا خطرہ لگا۔ یوں یورپی جو جرمنی سے خوفزدہ تھے انہوں نے امریکہ کی چھتری تلے ملٹری الائنس بنایا تاکہ اپنے ہمسائے میں روس جیسی پاور سے محفوظ رہ سکیں۔
اب سوال یہ ہے کہ جو کچھ یوکرین میں ہورہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر ایک لفظ میں اس کا جواب چاہئے تو اتنا کہنا کافی ہے کہ اس کا ذمہ دار نیٹو ہے۔ نیٹو کو جس طرح یورپی اور امریکی روس کے اندر تک لے جانے کے خواہش مند تھے اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ سیانے کہتے ہیں کہ علاقے کے پہلوان کو آپ نے ہرا دیا ہے تو سمجھداری کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی شکست کے زخموں پر آتے جاتے نمک نہ چھڑکتے پھریں۔
امریکی ڈپلومیٹ ہنری کسنجر نے بڑا خوبصورت جملہ کہا تھا کہ یورپ اور امریکہ بھلا کیوں نیٹو کو روس کی سرحد کے اندر لے جانا چاہتے ہیں؟ وہ یوکرین کو ایک نیوٹرل ملک کے طور پر قبول کیوں نہیں کر لیتے جو روس اور یورپ کے درمیان آخری ملک ہے۔ اسے نیٹو اور روس بفر کے طور پر تسلیم کر لیں۔ لیکن کیا کریں انسان کی وہی پرانی نفسیات جو زیادہ دیر تک سکون سے کہیں ٹکنے نہیں دیتی۔ سوال یہ ہے کہ چلیں امریکہ کی سمجھ آتی ہے کہ وہ روس کی ناک رگڑنے میں سکون محسوس کرتا ہے لیکن یوکرین یا یورپ جو روس کے ہمسائے ہیں انہیں کیوں احساس نہیں تھا کہ بات بڑھ جائے گی۔ اگر یوکرین نیٹو کا ممبر بن بھی جاتا اور روس کے حملے کی صورت میں نیٹو ممالک اس کے ساتھ مل کر روس کے خلاف مشترکہ جنگ لڑتے تو بھی اس کا نتیجہ کیا نکلنا تھا؟ جب روس سے لے کر یورپ تک سب کے پاس نیوکلیئر ہتھیار ہیں تو پھر اس جنگ میں کس کی شکست اور کس کی ہار ہونی تھی؟ ایسی محاذ آرائی کا براہ راست نشانہ کس نے بننا تھا؟ روس اور یورپ نے بننا تھا۔ شاید یوکرین کو یہ اعتماد تھا کہ پورا یورپ اس کے پیچھے کھڑا ہوگا تو روس حملے کی جرأت نہیں کرے گا۔ اب حالت یہ ہے یوکرین کا صدر یورپ کو بار بار خبردار کررہا ہے کہ یوکرین کے بعد یورپ کی باری ہے۔ روسی صدر پوتن نے پہلے ہی جوہری دھمکی دے دی ہے۔ تو کیا اب دنیا نیوکلیئر جنگ کیلئے تیار رہے کیونکہ امریکہ‘ یورپ یا روس یوکرین کو نیوٹرل ماننے کو تیار نہیں اور یوکرین خود بھی نیوٹرل رہنے کو تیار نہیں‘ امریکہ روس کے صحن میں میزائل نصب کرنے پر تلا ہوا ہے۔ روس نے بھی ایک ایمپائر کا مزہ چکھا ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ لندن کالج کی ایک کلاس میں کالونیئل ازم کی کلاس میں ایک انگریز ٹیچر نے برٹش ایمپائر پر خوبصورت تبصرہ کیا تھا کہ ہم گورے ابھی تک اس ہینگ اوور میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ہم کبھی اس دنیا کے مالک تھے جس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ روس بھی اس ہینگ اوور کا شکار ہے اور پوتن ان پرانی سرحدوں کو بحال کرنے کا رومانس رکھتا ہے جو کبھی جدا ہوگئی تھیں۔ روس ماضی کی سپر پاور ہے جو اپنی حیثیت دوبارہ پانے کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔
مگرجنگ کی قربانی روس‘ امریکہ یا یورپ کے حکمران یا ان کے بچے ادا نہیں کریں گے۔ وہ سب محفوظ بنکروں میں ہوں گے‘ قیمت عام انسان ادا کریں گے جن کی خبطِ عظمت کے شکار حکمرانوں کی آنکھوں میں کوئی اہمیت نہیں۔ دنیا کے دو بڑوں کی انا اور عظمت کی لڑائی میں معصوم مارے گئے ہیں۔اگر آپ کو اپنے بے رحم ہونے پر یقین نہیں تو یہ پڑھ لیں کہ اب تک انسانی تاریخ جس کا ریکارڈ میسر ہے کے پچھلے کل 3400 برسوں میں صرف 268 برس ایسے گزرے ہیں جب دنیا میں سکون تھا۔ ہماری قسمت میں وہ خوش نصیب 268 برس نہیں تھے۔ کتنی خوش نصیب تھیں وہ نسلیں جنہوں نے انسانی تاریخ کے وہ 268 برس دیکھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved