جب سے وزیراعظم عمران خان نے انڈسٹری ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا ہے پاکستان میں ہر چھوٹا‘ بڑا سرمایہ کار اس بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اکثریت اسے سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ اسے کنسٹرکشن ایمنسٹی سکیم اور ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے ساتھ ملا کر دیکھ رہے ہیں جبکہ زمینی حقائق مختلف ہیں۔ اس حوالے سے میں نے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اوّل تو ایمنسٹی سکیم لانچ کرنا ان پاکستانیوں کے ساتھ ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے جو سارا سال پورا ٹیکس دیتے ہیں اور ذمہ دار شہریوں کی طرح ملکی معیشت کی ترقی میں حصہ ڈالنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ایمنسٹی سکیم ٹیکس چوری کرنے والوں اور وقت پر پورا ٹیکس ادا کرنے والوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتی ہے۔ یہ دونوں کو ''معزز‘‘ شہری بنا دیتی ہے، جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ ٹیکس چوری کرنے والوں کو سزا دی جائے اور جرمانے کے ساتھ دو گنا سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے لیکن حکومت ہر سال ایک نئی ایمنسٹی سکیم لانچ کر رہی ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں تین ایمنسٹی سکیمیں لانچ کی جا چکی ہیں۔ اسی رفتار سے چلتے رہے تو حکومت پانچ سالوں میں پانچ ایمنسٹی سکیمیں دے سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں میں ہزاروں ملازمین کی فوج کی کیا ضرورت ہے؟ جب ٹیکس اہداف ایمنسٹی کے ذریعے حاصل ہونا ہیں تو مضبوط ٹیکس کا نظام کس طرح نافذ کیا جا سکتا ہے؟ ایک عام پاکستانی کیوں بارہ یا سترہ فیصد ٹیکس ادا کرے جبکہ وہ یہ جانتا ہے کہ وہ دو فیصد سے پانچ فیصد تک ٹیکس ادا کر کے کالے دھن کو سفید کر سکتا ہے؟ البتہ ایمنسٹی سکیم کی کامیابی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال دس بڑی کمپنیوں نے 900 ارب روپے کا منافع کمایا۔ یہ وہ اعداد وشمار ہیں جو انہوں نے ظاہر کیے ہیں‘ جو مبینہ طور پر ڈکلیئر نہیں کیے گئے ان پر ایمنسٹی کلیم کی جا سکتی ہے۔ سرکار کو بھی اس حقیقت کا علم ہے۔ ایسے ہی سرمایہ کار اس طرح کی سکیموں کے ڈیزائنر بھی ہوتے ہیں۔ حکومت انڈسٹری ایمنسٹی سکیم سے زیادہ توقعات لگائے بیٹھی ہے کہ یہ ماضی کی طرح بہترین رسپانس دے گی لیکن حقائق مختلف دکھائی دیتے ہیں کیونکہ پچھلی ایمنسٹی سکیموں سے عام آدمی نے بھی فائدہ اٹھایا تھا جبکہ موجودہ ایمنسٹی سکیم میں پانچ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرنے والا ہی فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ گو کہ بڑے سرمایہ کاروں کے لیے پانچ کروڑ زیادہ بڑی رقم نہیں ہے لیکن عام پاکستانی اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ جنہوں نے پچھلی دو ایمنسٹی سکیمیں کلیم کر رکھی ہیں‘ وہ بھی انڈسٹری ایمنسٹی سکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک مخصوص طبقہ‘ جس نے پچھلے دو سالوں میں بہترین منافع کمایا اور اس پر ٹیکس نہیں دیا‘ صرف اسے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا گیا ہے۔ عام آدمی کے لیے اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں دس روپے اور بجلی کی قیمت میں پانچ روپے فی یونٹ کمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے غیر متوقع فیصلہ کیا ہے۔ وقتی طور پر اس میں عوام کو فائدہ دکھائی دے رہا ہے لیکن مستقبل میں حالات مختلف ہو سکتے ہیں۔ قریب کا فائدہ دیکھنے سے پہلے دور کا نقصان دیکھنا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر صرف دس روپے کم نہیں کیے بلکہ چالیس روپے کم کیے ہیں۔ اس وقت روسی پٹرولیم مصنوعات کے 66 فیصد گاہک بھاگ گئے ہیں جس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت 116 ڈالر فی بیرل سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ جب عالمی مارکیٹ میں پٹرول 95 ڈالر فی بیرل تھا اس وقت پاکستان میں اس کی قیمت 160 روپے تھی‘ آج مارکیٹ میں قیمت 116 ڈالر فی بیرل تک بڑھ گئی ہے اور پاکستان میں پٹرول 150 روپے فی لٹر دستیاب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق حکومت نے تقریباً چالیس روپے فی لٹر سبسڈی دی ہے جو ملکی معیشت پر تقریباً تین سو ارب روپے کا بوجھ ہے۔ اس بوجھ کو آج نہیں تو کل‘ عوام نے ہی ادا کرنا ہے۔ موجودہ حقائق کے پیش نظر حفیظ پاشا صاحب کی رائے محترم دکھائی دیتی ہے۔
سرکار نے ایک جانب انڈسٹری ایمنسٹی سکیم لانچ کر رکھی ہے جبکہ دوسری طرف انڈسٹری کے حقیقی ٹیکس ریفنڈ بلاک کر رکھے ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی آمدن کا تقریباً 67 فیصد زراعت سے منسلک ہے۔ زراعت کے شعبے میں ٹریکٹرز کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن حکومت شاید اس کا ادراک نہیں رکھتی۔ ناقص پالیسیوں کے باعث ٹریکٹر انڈسٹری اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ ملک میں ٹریکٹر کے ایک بڑے مینوفیکچرر نے جمعہ کے روز سے اپنی پروڈکشن بند کر دی ہے۔ اس حوالے سے سٹاک ایکسچینج اور متعلقہ اداروں کو بھی تحریری طورپر مطلع کر دیا گیا ہے۔ پچھلے دو سالوں سے ٹریکٹر انڈسٹری کے 8 ارب روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈ ادا نہیں کیے گئے جس کے باعث انڈسٹری کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ٹریکٹر مینوفیکچررز خام مال پرسپلائرز کو 17 فیصد سیلز ٹیکس ادا کر رہے ہیں جبکہ فروخت پر صرف 5 فیصد وصول کر رہے ہیں۔ ایک یونٹ پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ ٹیکس ٹریبونلز اور عدالتِ عالیہ میں کیسز کا فیصلہ بھی ٹریکٹر انڈسٹری کے حق میں آ چکا ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال کے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ٹریکٹرز کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں جس سے کسانوں کی مشکلات میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومت کو حالات کی سنگینی کو سمجھنا چاہیے۔ انڈسٹری ایمنسٹی سکیم کے ذریعے مخصوص طبقے کو نوازنے سے بہتر ہے کہ صنعتوں سے جڑے عام آدمی کے حقیقی مسائل کو بروقت حل کیا جائے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو جون 2022ء تک گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے مطلوبہ اقدامات نہیں کر پایا۔ 34 میں سے 2 پوائنٹس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ آئی ایم ایف نے بھی اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔ حماد اظہر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ حکومت جلد ہی دو پوائنٹس پر عمل درآمد کر لے گی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ پاکستان 2018ء سے گرے لسٹ میں شامل ہے‘ چار سالوں میں ہر فیٹیف میٹنگ سے پہلے حکومتی زعما کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس مرتبہ گرے لسٹ سے نکل جائیں گے لیکن ہر مرتبہ ایک نئی تاریخ لے کر واپس آ جاتے ہیں۔ ہر مرتبہ یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کی کارکردگی بہت بہتر ہے لیکن مثبت نتائج سامنے نہیں آ رہے۔ اس معاملے کو تحریک انصاف کے ایمنسٹی سکیموں کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ دہشت گردوں کی مالی معاونت اسی کالے دھن سے کی جاتی ہے جس پر سرکار مختلف ایمنسٹی سکیمیں دے رہی ہے۔ یہاں اس بات کا بھی ذکر ضروری ہے کہ فیٹف اجلاس میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو سپورٹ نہیں کیا جو وزیر خزانہ کے اس دعوے کو بھی شک و شبہات کی نذر کر رہا ہے کہ انڈسٹری ایمنسٹی سکیم کو آئی ایم ایف کی تائید حاصل ہے۔ اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے تعاون سے بجٹ 2022-23ء کی تیاری شروع کر دی ہے جس میں مالیاتی ادارے کی جانب سے ایمنسٹی سکیم کو ختم کرنے، پٹرولیم، بجلی کی قیمتوں پر سبسڈی واپس لینے اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس سو فیصد تک بڑھانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ایک طرف معاشی مسائل بڑھ رہے ہیں اور دوسری طرف سیاسی صورتحال نے اچانک کروٹ لی ہے۔ غیر ملکی نمائندے اپوزیشن سے مل رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کو لانگ مارچ اور عدم اعتماد کی تحریک کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ معاشی طور پر کمزور ملک کے حکمران کتنی دیر تک آئی ایم ایف اور غیر ملکی لابی کے سامنے کھڑے رہ پاتے ہیں، پاکستانی عوام کو اس کا بخوبی علم ہے۔