تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     07-03-2022

روس‘ یوکرین تنازع اور اس سے نکلنے کا راستہ

یوکرین اور روس کے مابین جاری تنازع نے عالمی سیاست میں کئی مسائل کو جنم دیا ہے اور بہت سے سیاسی مفروضوں کو چیلنج کر دیا ہے جو سرد جنگ کے بعد اس بین الاقوامی نظام میں ابھرے‘ جو دسمبر 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سامنے آنا شروع ہوا۔ سرد جنگ کے زمانے کے دونوں حریف پہلی بار ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ یوکرین روس مسائل کے پُرامن حل کے لیے سفارتکاری بنیادی طور پر اس لیے ناکام ہوئی کہ روس اور یوکرین کی حمایت کرنے والی ریاستیں ایک دوسرے کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئیں۔ یوکرین نے روس جو اَب عالمی سطح کے کھلاڑی کے طور پر شمار ہونا چاہتا ہے‘ کے خلاف امریکہ اور نیٹو کے ایجنڈے کے لیے کور کا کردار ادا کیا۔ اس تنازع کی جڑیں سوویت یونین کے انہدام اور سابق سوویت یونین اور امریکہ کے مابین سرد جنگ کے خاتمے کے فوراً بعد کے دور میں پیوست ہیں۔ روس نے سوویت یونین کی جگہ سنبھالی‘ لیکن اُس وقت اس کی معیشت تباہ حالی کا شکار تھی‘ اس لیے وہ مزید کوئی عالمی کردار ادا نہیں کر سکتا تھا۔ اپنی معیشت کی بحالی کے لیے اس کا انحصار امریکی اور مغربی حمایت پر تھا۔ امریکہ واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا اور اس نے ایک ایسا عالمی ایجنڈا شروع کیا جس میں عالمی نظام کو اپنی ترجیحات کے مطابق تشکیل دینے کے لیے جمہوریت اور انسانی حقوق کے مطالبات کو فوجی دباؤ کے ساتھ ملا کر استعمال کیا گیا۔ یہ کام فوجی طاقت کے استعمال‘ اپنی پراکسیز کی مدداور مختلف علاقوں میں فوجی موجودگی کو بڑھانے کے ذریعے کیا گیا تھا۔ ایسی ہی ایک حکمت عملی مشرقی یورپ کی ریاستوں میں نیٹو اور امریکہ کے اقتصادی اور فوجی اثرورسوخ کو بڑھانا تھی تاکہ روس کی جانب سے اس پالیسی کے خلاف مزاحمت کرنے سے پہلے ہی اس کی سرحد تک پہنچا جا سکے۔ یہ حکمت عملی مکمل طور پر کام نہیں کر سکی کیونکہ اکیسویں صدی کے آغاز تک واحد سپر پاور کے طور پر امریکہ کی برتری ختم ہونا شروع ہو گئی تھی کیونکہ عالمی نظام میں طاقت کے مختلف مراکز ابھر چکے تھے۔روس نے 21ویں صدی کی پہلی دہائی کے آخر تک اپنی بڑی داخلی اقتصادی اور سیاسی کمزوریوں پر قابو پا لیا تھا اور وہ عالمی نظام میں چین کے ہمراہ ایک طاقت کے مرکز کے طور پر ابھرا۔ روس سرحدی ریاستوں کو اپنے اثرورسوخ کے اکھاڑے کے طور پر دیکھنے کی پالیسی پر بھی واپس لوٹ آیا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ امریکہ اور نیٹو ان ریاستوں میں اپنی فوجی موجودگی رکھیں۔ روس نے نیٹو کی مشرق کی طرف یعنی روس کی سرحد تک مشرقی یورپ کی ریاستوں میںتوسیع پر اعتراض کیا۔
یوکرین ایک ایسی ریاست ہے جس نے مغربی سلامتی اور سفارتی نیٹ ورک کی توسیع کے حوالے سے امریکہ اور نیٹو کی توجہ حاصل کی۔ یوکرین کے موجودہ صدر کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس عمل میں تیزی آئی۔ مغرب نے اسے عظیم جمہوریت پسند کے طور پر ابھارا اور یہ ظاہر کیا کہ امریکہ اور نیٹو یوکرین کی مدد کرنے کے لیے تیار ہوں گے‘ اگر وہ مغرب کی پالیسیوں کی آبیاری کرنے اور روس سے خود کو دور کرنے کی اپنی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی آزادی پر زور دے سکے۔ یوکرین کی موجودہ قیادت یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ مغرب دراصل روس کو فوجی دباؤ میں رکھنے کے لیے اس کے ملک کو ایک چوکی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ روس نے یوکرین میں اپنے سکیورٹی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے چار جہتی پالیسی اختیار کی۔ سب سے پہلے اس نے سفارتی اشاروں اور بیانات کے ذریعے یہ واضح کیا کہ وہ سرحدی ریاستوں کے نیٹو میں شامل ہونے اور ان کے روس کے خلاف امریکی پراکسی کے طور پر کام کرنے کو برداشت نہیں کرے گا۔ دوسرا‘ اس نے یوکرین کی سرحد پر اپنے فوجیوں کو جارحانہ انداز میں متحرک کیا اور یوکرین کو فوجی دباؤ میں رکھنے کے لیے اس کی سرحد کے قریب فوجی مشقیں کیں۔ تیسرا‘ روس نے ڈونیٹسک اور لوہانسک کی باغی یوکرینی ریاستوں کو تسلیم کیا‘ جو ڈونباس کے روس نواز علاقے میں واقع ہیں۔ جب ان سارے اقدامات نے یوکرین کو نیٹو اور امریکہ کے حوالے سے روس کے سکیورٹی خدشات کے بارے میں حساس ہونے پر قائل نہ کیا تو روس نے فوجی طاقت کے استعمال کی چوتھی حکمت عملی اپنائی۔ 24 فروری کو روس نے یوکرین کے مختلف حصوں میں ہوائی اور فوجی اڈوں پر فضائی حملے شروع کر دیے۔ ہوائی اڈوں کو نشانہ بنانے کا مقصد یہ تھا کہ نیٹو ممالک یوکرین کو فوجی سازوسامان فراہم کرنے کے قابل نہ رہیں۔ ان حملوں کا ایک مقصد یہ تھا کہ یوکرین کی روس کے فوجی حملے کے خلاف مزاحمت کی فوجی صلاحیت کو کمزور کیا جائے۔ بعد ازاں روس نے زمینی فوجیں بھیج دیں‘ یوں یہ ایک مکمل جنگ بن گئی جس سے یوکرین میں انسانی بحران پیدا ہو گیا۔
یوکرین میں روسی فوجی کارروائی کی امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا اور نیٹو ممالک نے مذمت کی ہے۔ کچھ دیگر ممالک نے بھی روسی فوجی کارروائی پر تنقید کی ہے۔ اقوام متحدہ کو توقع ہے کہ متنازع مسائل پر بات چیت کے ذریعے فوجی آپشن کی جگہ لے لی جائے گی۔چونکہ یوکرین ابھی تک نیٹو کا رکن نہیں ہے‘ اس لیے نیٹو کے ارکان اس بات کے پابند نہیں کہ وہ روسی فوجی کارروائی کو اپنے اوپر حملے کے طور پر دیکھیں اور یوکرین کے دفاع میں اپنی فوجوں کو عملی طور پر پیش قدمی کا کہیں تاہم‘ وہ یہ بھی نہیں چاہیں گے کہ روس یوکرین میں اپنا راستہ بنائے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو اس کا اثر یوکرین سے کہیں آگے تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر پڑے گا۔ یوکرین کو دراصل آلات اور فوجیوں کی صورت میں حقیقی فوجی مدد کی ضرورت ہے۔ امریکی حمایت کے حامل بعض یورپی ممالک یوکرین کو ہتھیار بھیجنا چاہتے ہیں لیکن زمینی راستوں سے ایسا کرنا مشکل ہے۔ دریں اثنا‘ یورپی ریاستوں نے روس کے خلاف فنانس‘ بینکنگ‘ توانائی اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ان میں ہوائی جہازوں کے سپیئرز‘ تیل سے متعلق مہارت اور روسی صنعت کے لیے درکار دیگر ٹیکنالوجی کی فراہمی پر پابندیاں بھی شامل ہیں۔ امریکہ ان پابندیوں کی حمایت کرتا ہے اور اس نے روس کو امریکی برآمدات پر سخت پابندیاں عائد کرنے‘ بینکنگ سہولیات کو مسدود کرنے اور کچھ روسی کمپنیوں اور افراد پر سفری اور اقتصادی تعامل کی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر روس اپنی موجودہ فوجی پوزیشن سے پیچھے نہیں ہٹتا تو ان پابندیوں میں اضافہ ہو سکتا اور مزید سخت کیا جا سکتا ہے۔
ان پابندیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کا مؤثر ہونا مشکوک ہے کیونکہ دیگر تمام ممالک‘ خاص طور پر چین‘ روس کا بائیکاٹ نہیں کریں گے حتیٰ کہ بعض یورپی ریاستیں‘ خاص طور پر مشرقی یورپ کی ریاستیں‘ روس کے اقتصادی بائیکاٹ کے مکمل طور پر حق میں نہیں ہیں۔اگر امریکہ اور نیٹو روس کی سرحد تک توسیع کی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے‘ کم از کم فی الوقت یوکرین کو مغربی سلامتی اور سفارتی نیٹ ورک میں شامل کرنے کے خیال کو ترک کر دیں‘ تو یہ تنازع ختم ہو سکتا ہے۔ ایک اور مسئلہ‘ جس پر توجہ کی ضرورت ہے یوکرین کے ان علاقوں سے متعلق ہے جن کے روس کے ساتھ مضبوط روابط ہیں اور زیادہ تر اس سے جڑنا چاہتے ہیں‘ جیسے ڈونباس کا علاقہ‘ خاص طور پر دو ریاستیں ڈونیٹسک اور لوہانسک۔ دوسرا خطہ کریمیا ہے جسے روس نے 2014ء میں ریفرنڈم کے بعد اپنے اندر ضم کر لیا تھا۔ متنازع علاقوں میں خود مختار ادارے بنانے کی ضرورت ہے جن کے یوکرین اور روس کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات ہوں۔ سفارتی مداخلت کی ضرورت ہے‘ لیکن یہ اس وقت تک کام نہیں کرے گا جب تک کہ یوکرین‘ روس اور نیٹو ممالک کی سلامتی کے مسائل کے بارے میں کچھ باہمی طور پر قابل قبول حل نہیں نکالے جاتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved