پاکستان اور ازبکستان‘ دونوں برادر مسلم ممالک کے مابین ہمیشہ سے مثالی اور دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ یہ تعلقات باہمی افہام و تفہیم، مضبوط ثقافتی و مذہبی رشتوں پر مبنی ہیں۔ دونوں ممالک تجارت، سرمایہ کاری، توانائی اور عوام کے آپس کے روابط اور ثقافتی سطح پر عوام کے تبادلے جیسے شعبوں میں مزید قریبی تعلقات استوار کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ ازبک صدر شوکت میرضیایوف (Shavkat Mirziyoyev) کا حالیہ دورۂ پاکستان اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ اس دورے سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ پاکستان اور ازبکستان کے مابین ریلوے، سکیورٹی، ترجیحی تجارت، موسمیاتی تبدیلی، مذہبی سیاحت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے 10معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ اسلاموفوبیا پر ازبکستان اور پاکستان کا ایک ہی موقف ہے۔ پاکستان اور ازبکستان‘ قدیم شاہراہ ریشم پر تاریخی موجودگی کے ساتھ‘ اب خطے کی نئی ابھرتی ہوئی حقیقتوں بالخصوص اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنی مضبوط موجودگی ثابت کرنے کے خواہشمند ہیں۔ دونوں ممالک کی ثقافت اور طرزِ زندگی میں کئی قدریں مشترک ہیں۔ اردو زبان میں بھی لگ بھگ چار ہزار الفاظ ازبک زبان سے آئے ہیں۔
ازبکستان کاباضابطہ نام جمہوریہ ازبکستان ہے۔ یہ وسطی ایشیا میں جنوب میں‘ افغانستان کے شمالی علاقے سے متصل ہے۔ اس کی سرحدیں مغرب و شمال میں قازقستان، مشرق میں کرغزستان اور تاجکستان اور جنوب میں افغانستان اور ترکمانستان سے ملتی ہیں۔ یہ دنیا کا واحد ایسا لینڈ لاکڈ ملک ہے‘ جو چاروں اطراف سے ایسے ممالک میں گھرا ہوا ہے جو خود بھی لینڈ لاکڈ یعنی سمندر سے محروم ہیں۔ یہ خطہ چین، روس، ایران اور ترکی جیسے بڑے ممالک میں گھرا ہوا ہے اور کثیرجہتی تناظر میں نہایت تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ ازبکستان کی قومی زبان ازبک ہے‘ جو ترک زبان کی ایک قسم ہے اور ترکی اور دیگر ترک زبانوں سے ملتی جلتی ہے۔ اس کی کل آبادی کا تقریباً 42 فیصد تاجک النسل ہے۔ ازبکستان صدر شوکت کی قیادت میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ موجودہ منظر نامے میں نوجوانوں کا پاکستان اور ازبکستان کے مسلم رہنمائوں کی مشترکہ تاریخ اور ثقافت کو جاننا وقت کا تقاضا ہے۔ پاکستان اور ازبکستان کے مابین ثقافتی تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے دونوں ممالک نے ہندوستان میں مغل خاندان کے بانی ظہیر الدین بابر پر ایک فلم بنانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کی پیدائش ایجان میں ہوئی تھی جو ازبکستان کا ایک شہر ہے۔ پاکستان کے ساتھ ثقافتی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تعامل قائم کرنا ازبکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کے منصوبوں سے ہم آہنگ ہے، جو مسلم ریاستوں سے قدرتی دلچسپی کے ساتھ سیاحوں کی آمد کو بڑھانے کے لیے ضروری اور انتہائی سازگار حالات پیدا کرنے کے لیے ہے۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور ازبکستان کے صدر شوکت کی پہلی ورچوئل ملاقات بشکیک 2019 ء میں ایس سی او کے رکن ممالک کے سربراہانِ مملکت کی کونسل کے 19ویں اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی۔ بعد ازاں 2019 ء میں بیجنگ میں BRI فورم پر ملاقات ہوئی۔ قبل ازیں ازبکستان کے وزیر خارجہ ڈاکٹر عبد العزیز کمیلوف نے 9تا 10 مارچ 2021 ء کو‘ پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا تھا ۔ازبکستان کے ڈپٹی وزیر اعظم سردور عمر زکائوف نے گزشتہ ماہ ‘ فروری میں پاکستان کا ایک روزہ دورہ کیا تھا۔ محض ایک سال کے عرصے میں پاک ازبک تجارت میں 50فیصد اضافہ انتہائی قابلِ ستائش امر ہے جبکہ افغانستان کے حالات معمول پر لانے میں بھی دونوں ملکوں کی مشترکہ کوششیں یقینا ثمر بار ثابت ہوں گی۔
بے شک پاکستان کو ازبکستان سمیت وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے تجارتی روابط کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں صرف معاہدے ہی نہیں کیے جانے چاہئیں بلکہ ان پر عمل درآمد بھی ہونا چاہیے۔ ازبکستان کی کپاس کی کوالٹی بہت بہتر ہے۔ روس‘ چین اور یورپ ازبک کپاس کے بڑے خریدار ہیں۔ ازبکستان کم پانی سے زیادہ فصلیں حاصل کرتا ہے‘ ہم یہ ٹیکنالوجی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ کپاس کے شعبے میں ازبکستان ماہرین کا تعاون پنجاب سمیت پاکستان بھر میں کپاس کی پیداوار میں اضافے کے لیے انتہائی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ حالیہ معاہدوں کے مطابق پنجاب اور ازبکستان کی زرعی یونیورسٹیوں کو بھی ایک دوسرے کے قریب لایا جائے گا اور دونوں اطراف کے وفود یونیورسٹیوں کا دورہ کر یں گے جس سے ایک دوسرے سے ریسرچ کے شعبے میں مدد ملے گی۔ سوویت یونین کے دور میں ازبکستان میں پاور پلانٹس کی ٹیکنالوجی آئی تھی۔ بجلی کے پیداواری شعبے میں خصوصی مہارت پیدا کی گئی۔ آج بھی ازبکستان میں پاور پلانٹس کے ہزاروں انجینئر موجود ہیں اور یہ 2005ء سے افغانستان کو بجلی فروخت بھی کررہا ہے۔ ہم اس سے یہ ٹیکنالوجی حاصل کر سکتے ہیں اور سستی بجلی بھی۔
پاکستان اورازبکستان کے مابین دوطرفہ سفارتی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات 1991ء سے قائم ہیں جس کے تحت دونوں ملکوں میں تجارت کاموجودہ حجم 32.5 ملین ڈالر برآمدات اور 0.276 بلین ڈالر درآمدات پرمشتمل ہے۔ دونوں ممالک کا اقتصادی تعاون بڑھانا ایک مثبت قدم ہے جس میں بہت زیادہ ترقی کا امکان موجود ہے۔ پاکستان ازبکستان کے لیے جنوبی ایشیا اور دنیا کی بڑی منڈیوں میں داخلے کے لیے ایک اہم پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ترمذ، مزار شریف، کابل، پشاور ریلوے کی تعمیر سے نہ صرف تجارتی، اقتصادی اور سرمایہ کاری کے تعاون کو فروغ ملے گا بلکہ دونوں خطوں کے باہمی روابط کو بھی تقویت ملے گی۔ دونوں ممالک کے مابین معیشت، سیاست اور سلامتی کے شعبوں میں مستحکم اور طویل مدتی تعلقات کی تعمیر و ترقی کے لیے ثقافتی تعلقات کو برقرار رکھنا بھی ایک اہم شرط ہے۔ ان عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی ازبکستان پاکستان کے ساتھ ثقافتی مکالمے کو مضبوط کرنے کے لیے نیا روڈ میپ اختیار کر رہا ہے‘ اس امید کے ساتھ کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا جائے گا۔
مہمان صدر نے میڈیا ٹاک میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے 2025ء اور 2026ء کے سیشن میں غیرمستقل رکن بننے کے لیے پاکستان کو ووٹ دینے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے۔ صدر شوکت میر ضیا یوف نے جس طرح پاکستان کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات بڑھانے کا ذکر کیا‘ اور وزیراعظم عمران خان کے ان کے موقف کی تائید کی‘ اس سب کے تناظر میں یہ دکھائی دیتا ہے کہ افغانستان سمیت خطے کے تمام ممالک کو اگر اسی طرح مستقبل میں ایک دوسرے کے قریب آنے کے مواقع ملتے رہے تو یہ پاکستان کی ایک بڑی کامیابی تصور ہو گی۔
پاکستان اور ازبکستان کے تعلقات باہمی اعتماد اور مفادات پر استوار ہیں۔ دونوں ممالک نے تمام علاقائی اور بین الاقوامی فورمز پر ایک دوسرے کی حمایت کا بھرپور اعادہ کیا ہے۔ دونوں ممالک افغانستان میں مفادات میں مماثلت رکھنے کے عالوہ یکساں طور پر یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تجارت اور ترقی کے علاقائی اقدامات کے ذریعے افغانوں کی اقتصادی مدد ہونی چاہیے۔ پاکستان اور ازبکستان‘ دونوں نے محسوس کیا ہے کہ مستحکم افغانستان ہی خطے کے بہترین مفاد میں ہے کیونکہ جب تک افغانستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہوتا‘ وہاں علاقائی استحکام کی کوششیں دیر پا ثابت نہیں ہوں گی۔ فی الحال دونوں ممالک کی سیاسی قیادت باہمی تجارت اور مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کی راہ پر گامزن ہے۔ سیاحت، تعلیمی وظائف اور دونوں ممالک کے مابین ثقافتی وفود کے تبادلے کے ذریعے عوام کے آپس کے رابطوں کو مزید مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ موجودہ صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ازبکستان اور پاکستان وسطی اور جنوبی ایشیا کی اقتصادی ترقی میں بھی قابلِ قدرکردار ادا کر سکیں گے۔