تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     07-03-2022

نئی دنیا کی دستک

ایک ہنگامہ برپا ہوتا ہے، شور اٹھتا ہے۔ شور کے ساتھ غبار بھی اٹھتا ہے۔ اچھی خاصی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ تباہی کا بازار گرم ہوتا ہے۔ پھر یہ سب کچھ ایک منطقی انتہا تک پہنچتا ہے۔ اِس کے بعد سب کچھ نیچے آنے لگتا ہے۔ ایک نئی دنیا معرضِ وجود میں آچکی ہوتی ہے۔ چند ریاستیں مل کر دنیا کو اپنے ہاتھوں میں لیتی ہیں۔ یہ سب کچھ چلتا رہتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خرابیاں بھی پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے معاملات بہت سی بڑی خرابیوں کو جنم دیتے رہتے ہیں۔ دور سے دیکھنے پر سب اچھا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ قریب جاکر دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اچھی خاصی خرابیاں واقع ہوچکی ہیں مگر دکھائی نہیں دے رہیں۔ جب معاملات اپنے اپنے منطقی انجام کو پہنچتے ہیں تب ایک دنیا ختم ہوتی ہے اور نئی دنیا منصۂ شہود پر آتی ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں ایسے کئی موڑ آئے ہیں۔ کبھی کسی خطے کو سربراہی ملتی ہے اور کبھی کسی کو۔ یہ سفر یونہی جاری رہتا ہے۔ تاریخ طاقت کے مظاہروں اور طالع آزمائی کے قصوں سے بھری پڑی ہے۔ معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ انسان کبھی نِچلا بیٹھا نہیں رہا۔ ہر دور میں اُس نے کچھ نہ کچھ کرنا چاہا ہے اور اِسی مزاج نے دنیا کو نیا رنگ و روپ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ وقفے وقفے سے طاقتیں ابھرتی ہیں اور پھر اپنا اثر کھو بیٹھتی ہیں۔ کبھی سلطنتِ روم نے ایک دنیا کو مطیع و فرماں بردار بنا رکھا تھا۔ اُسی دور میں فارس (ایران) بھی ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرا۔ ان دو طاقتوں نے معلوم و معمور دنیا کے ایک بڑے حصے پر اپنا تصرف قائم کیا۔ اسلام کے ظہور تک یہ دونوں سلطنتیں نصف سے زیادہ دنیا پر متصرف ہو چکی تھیں۔ اسلام کی عساکر کی فتوحات نے انہیں واپس دھکیل دیا۔ روم اور فارس کی سلطنتوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کا اعزاز اہلِ اسلام کے حصے میں آیا۔ مسلمانوں کا ایک طویل سنہرا دور دنیا نے دیکھا۔ پھر جب مسلمانوں پر جمود و انحطاط کی کیفیت طاری ہوئی تو قدرت نے یورپ کو جہالت کے اندھیروں سے نکلنے کی توفیق بخشی اور یوں ایک ایسی دنیا ابھری جس میں یورپی اقوام جہاں گیر و جہاں بان دکھائی دیں۔ یورپی طاقتوں نے دور افتادہ خطوں کو زیرِ نگیں کیا۔ جدید ترین علوم و فنون میں دست گاہ اُنہیں عزت کے بامِ عروج تک لے گئی۔ یورپ کے بعد امریکا ابھرا۔ پانچ سو برس کے دوران پہلے یورپ نے دنیا پر راج کیا اور پھر امریکا آیا تو یورپی اقوام نے اُس سے وابستہ رہنے میں عافیت جانی۔
امریکا اور یورپ نے مل کر بیسویں صدی کو اپنی مٹھی میں بند کیا۔ اکیسویںصدی کے آنے تک یہ دونوں خطے پوری دنیا میں سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ ویسے تو خیر ہر دور میں طاقتور ریاستیں کمزور ریاستوں کو پریشان کرتی، تگنی کا ناچ نچاتی آئی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی کے دوران امریکا اور یورپ نے مل کر باقی دنیا کو جس طور دبوچ کر رکھا اور ابھرنے ہی نہیں دیا وہ انتہائی شرم ناک ہے۔ مغربی دنیا لبرل اور مذہب بیزار کہلاتی اور انسان دوستی کے دعوے کرتی ہے۔ وہ انسانیت کی عالمگیریت کی بات کرتی ہے مگر جو کچھ کرتی ہے وہ اِس کے بالکل منافی ہے۔ جنوبی امریکا، جنوب مشرقی ایشیا، مشرقِ وسطٰی، جنوبی ایشیا اور شمالی افریقہ میں ان دونوں طاقتوں نے جو کچھ کیا‘ وہ تاریخ کے ماتھے کا بدنما داغ ہے۔ پوری دنیا کی دولت لُوٹ کر امریکا اور یورپ نے اپنی خوش حالی یقینی بنائی۔ فطری علوم و فنون میں حیران کن پیشرفت نے مغرب کی بالا دستی مزید بڑھائی اور یوں وہ فوائد بٹورتا رہا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب ایسا محسوس ہونے لگا کہ اب امریکا اور یورپ کے سامنے دو ڈھائی سو سال تک کوئی کھڑا نہ ہوسکے گا۔ فرق اس قدر پیدا کر دیا گیا کہ مغرب کسی اور ہی دنیا کا ماحول پیش کرنے لگا تھا۔ اس کے نتیجے میں اہلِ مغرب میں شدید احساسِ تفاخر بھی پیدا ہوا۔ وہ باقی دنیا کو نیچ سمجھنے لگے۔ شعوری کوشش کی جانے لگی کہ کسی اور خطے کو پنپنے ہی نہ دیا جائے۔ ایسا محسوس ہونے لگا جیسے اہلِ مغرب کے نزدیک دوسرے خطوں کے لوگوں کو جینے ہی کا حق نہیں۔ قدرت نے ہر معاملے میں اپنا حساب کتاب تیار رکھا ہوتا ہے۔ جب اہلِ مغرب نے دین سے بیزاری اور خالص دہریت کی بنیاد پر نئی تہذیب استوار کی اور خدا کے طے کردہ اصولوں کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی کو اصول کا درجہ دینا شروع کیا تب قدرت کی لاٹھی حرکت میں آئی۔ اب امریکا اور یورپ کے مقابل کئی قوتیں کھڑی ہوچکی ہیں۔ یہ سب کچھ تین‘ ساڑھے تین عشروں میں ہوا ہے۔ مغرب نے اپنی مذہب بیزار تہذیب کی چمک دمک میں جب نظامِ قدرت سے صریح بغاوت شروع کی تو اُس کے انحطاط و زوال کی راہ ہموار ہو گئی‘ اور اب میدان سج چکا ہے۔
جس دنیا پر امریکا اور یورپ کا مکمل تصرف اور راج تھا وہ اب ختم ہوچلی ہے۔ اِس کی جگہ ایک ایسی دنیا لے رہی ہے جس میں مغرب سے ہٹ کر بھی کئی ریاستیں اپنی اپنی قوت آزمانا چاہتی ہیں۔ بیسویں صدی کے دوران ایسا لگتا تھا جیسے ایشیا ابھی صدیوں تک ابھر نہیں پائے گا مگر محض چار عشروں کے دوران امریکا اور یورپ کی پالیسیوں نے ایشیا میں کئی ریاستوں کو تیزی سے پنپنے کی تحریک دی۔ دنیا کو یکطرفہ بنیاد چلانے والے امریکا اور یورپ کے لیے حقیقی چیلنج اب ابھرا ہے۔ مغربی دنیا کے مقابل ایشیائی بلاک تشکیل پاتا جا رہا ہے۔ چین اور روس نے مل کر دنیا کو نیا رنگ و روپ دینے کی ٹھانی ہے۔ کئی چھوٹی ریاستیں اُن کے ساتھ ہیں۔ اس وقت مسلم دنیا کو طے کرنا ہے کہ کس سے دوستی کی جائے، کس کا پارٹنر بنا جائے۔ مغربی تہذیب کا سحر اب تک ٹوٹا نہیں۔ اس طلسم سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ مغربی تہذیب یکسر مذہب بیزار ہے اور پوری دنیا کو ایسا ہی دیکھنا چاہتی ہے۔ دنیا ہی کی زندگی کو سب کچھ سمجھنے پر زور دیا جارہا ہے۔ کل تک یہ سب کچھ ڈھکا چھپا تھا، اب لگی لپٹی کے بغیر ہو رہا ہے۔
تیزی سے ابھرتی ہوئی نئی دنیا جب واضح شکل اختیار کرے گی تب کیسی ہوگی اِس کا اندازہ فی الحال کسی کو نہیں۔ یہ حقیقت ذہن نشین رکھی جانی چاہیے کہ چین سمیت مشرقِ بعید واحد خطہ ہے جس سے مسلم دنیا کا ٹاکرا کبھی نہیں ہوا۔ دونوں کے درمیان بظاہر کسی بھی معاملے میں کوئی خطرناک کشیدگی بھی نہیں رہی۔ ایسے میں مسلم دنیا کے پاس ایک اچھا آپشن بہرحال موجود ہے۔ مغرب کو ہم نے آزماکر دیکھ لیا ہے۔ دہریت کا پرچار کرنے والے سوویت یونین کے مقابل ہم نے مغربی بلاک کو اس لیے اپنایا تھا کہ وہ مذہبی اعتبار سے ''اہلِ کتاب‘‘ تھا۔ اِس نام نہاد اہلِ کتاب نے جو حشر کیا‘ یہ ایک دکھ بھری داستان ہے۔ روشن خیالی کا راگ الاپتے نہ تھکنے والے مغرب کے دل و دماغ سے صلیبی جنگوں کی ہزیمت اب تک نہیں گئی۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسلم دنیا اپنے لیے ڈھنگ کے فیصلے کرے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال مسلم دنیا ایک نئی دنیا کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ مغرب میں مسلمانوں نے اپنی علمی اور عملی حیثیت منوانی ہے۔ مسلم دنیا میں بھی کئی ممالک ترقی کے مدارج طے کرچکے ہیں۔ ملائیشیا، ترکی اور خلیجی ریاستیں اِس سلسلے میں اہم مثال کا درجہ رکھتی ہیں۔ مسلم قائدین کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اب دنیا صرف امریکا کے ہاتھ میں نہیں رہی۔ اس کے علاوہ یورپ بھی اب دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی پوزیشن میں نہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ خوب سمجھ کر سٹریٹیجک فیصلے کیے جائیں، نئے پارٹنرز تلاش کرنے کے معاملے میں مثالی دانش اور حکمت کا مظاہرہ کیا جائے۔
امریکا اور یورپ نے یوکرین کے بحران میں جس طور پسپائی اختیار کی ہے وہ بہت کچھ بتارہی ہے۔ ایک طرف تو امریکا مفاد پرستی کی بات کر رہا ہے اور دوسری طرف سہما ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں امریکی صدر سے پوچھا گیا کہ عراق پر حملہ کیوں کیا تو جواب ملا ہمیں لگا اُن کے پاس ایٹمی ہتھیار تھے۔ پوچھا گیا: روس پر حملہ کیوں نہیں کیا تو جواب ملا اُس کے پاس تو ایٹمی ہتھیار ہیں! سپر پاور کہلانے والے جب طاقت کے سامنے کھڑے نہ ہوں تو سمجھ لیجیے ایک نئی دنیا معرضِ وجود میں آ چکی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved