تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     08-03-2022

انوکھا

ہفتے کی شب میں نے مولانا فضل الرحمن سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا وہ لاہور میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پشاور میں ہیں اور وہاں کی فضا بڑی سوگوار ہے۔ میں نے عرض کیا کہ صرف پشاور ہی نہیں سارے پاکستان کی فضا غمزدہ اور سوگوار ہے‘ دل شکستہ لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمیں دہشت گردی کی لعنت سے کب نجات ملے گی؟
اب آتے ہیں آج کے موضوع کی طرف۔ پاکستان سیاسی و سماجی عجائبات کا ملک ہے۔ پاکستان میں وہ کچھ ہوتا ہے جو دنیا کسی دوسرے جمہوری ملک میں نہیں ہوتا۔ یہاں جب چاہے کوئی ڈکٹیٹر جمہوریت کی بساط لپیٹ سکتا ہے اور جب چاہے کوئی جمہوری لیڈر آزادیٔ صحافت کا گلا گھونٹ سکتا ہے۔ ایک وزیر خارجہ کے فرائض منصبی سے ساری دنیا آگاہ ہے۔ اس کی ذمہ داریوں کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے؛ تاہم اس کی بنیادی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ پل پل بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے پر نگاہ رکھے۔ وہ یہ دیکھے کہ حالات کی اس تبدیلی میں اس کا ملک کہاں کھڑا ہے۔
ان حالات کا جیسے جیسے تقاضا ہو اس کے مطابق وزیر خارجہ دوست ممالک، یو این او اور دیگر عالمی اداروں سے رابطہ قائم رکھتا ہے۔ اس کا ہاتھ حالات کی نبض پر ہوتا ہے۔ وہ وزارتِ خارجہ میں اپنے باخبر افسروں اور وزارتِ خارجہ کے ماہرین سے میٹنگز کرتا ہے اور جن نتائج پر وہ پہنچتا ہے‘ ان سے وہ اپنے ملک کے چیف ایگزیکٹو کو بلاتاخیر آگاہ کرتا ہے تاکہ بروقت قومی پالیسی وضع کی جا سکے اور اس کے مطابق بیان جاری کیا جا سکے۔
کیا آپ نے کوئی ایسا وزیر خارجہ بھی دیکھا ہے کہ جس کے ریجن میں جنگ چھڑی ہو اور ایک بڑی ایٹمی قوت نے ایک پڑوسی خودمختار ملک پر چڑھائی کردی ہو‘ جارح قوت چھوٹے ملک کے دارالحکومت اور دیگر شہروں پر قبضہ کر رہی ہو‘ اور دیگر عالمی قوتیں اس جارحیت کی مذمت کر رہی ہوں‘ جبکہ زیر بحث وزیر خارجہ اپنے دارالحکومت سے کم از کم ڈیڑھ ہزار کلومیٹر دور سیاسی ریلیوں کی قیادت کر رہا ہو اور مخالفین کو دھمکیاں دے رہا ہو۔ جی ہاں! جیسا کہ اوپر عرض کیا ہے یہ عجوبہ بھی وطن عزیز میں آٹھ دس روز سے مسلسل جاری ہے اور پاکستانی وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی سیاسی ریلیوں میں اپنی خطابت کی جادوگری اور ساحری کے جلوے دکھا رہے ہیں۔
اس دوران وہ عالمی تبدیلیوں اور مطالبات سے یکسر بے خبر رہے ہیں۔ امریکہ ہم سے یوکرین میں ہونے والے جارحانہ حملے کی مذمت کا تقاضا کر رہا ہے۔ برطانیہ نے یوکرین کے موضوع پر ہمارے غیرواضح موقف اور جارحیت کی مذمت نہ کرنے کی بنا پر ہمارے مشیر قومی سلامتی معید یوسف کا وہ دورہ منسوخ کر دیا ہے جس کی دعوت خود برطانیہ نے دی تھی۔ وزیر خارجہ کی اسلام آباد میں عدم موجودگی کے دوران یوکرین کی صورتحال پر غوروفکر کے لیے 23 ممالک کے سفرا کی کانفرنس کے بارے میں ہمارے وزیر خارجہ لاعلم تھے‘ جبکہ اُن کی سفارشات کا پریس ریلیز جاری نہ کرنے پر امریکی وزارت خارجہ نے ہماری وزارت خارجہ کے رویے کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اسی طرح یوکرین میں ابھی تک سینکڑوں پاکستانی طلبہ و طالبات پھنسے ہوئے ہیں جو کسی نہ کسی طرح بے یارومددگار پولینڈ اور ہنگری وغیرہ پہنچے ہیں۔ اُن کے پاس زادِراہ نہیں اور حکومت پاکستان ان تباہ حال طلبہ و طالبات کے معاملے میں تقریباً لاتعلق ہیں۔ ایک وزیر خارجہ اور ایک باپ‘ دونوں حیثیتوں میں جناب شاہ محمود قریشی کو کچھ خبر نہیں کہ یہ پردیسی نوجوان کس حال میں ہیں۔
جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے اس کے پاس ہم سے روسی جارحیت کی مذمت کا مطالبہ سفارتی و اخلاقی طور پر بلاجواز ہے۔ گزشتہ کل کو امریکہ نے عراق پر یہ کہہ کر نہایت جارحانہ حملہ کر دیا تھا کہ ''آنے والے کسی طوفان‘‘ کی روک تھام کی جا سکے اور کیمیاوی ہتھیاروں کا خاتمہ کیا جا سکے۔ یہ حملہ سو فی صد کھلی کھلی جارحیت تھی اور بعد میں ثابت ہوا کہ حملے کے دونوں بہانے غلط اطلاعات پر مبنی تھے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اسے روسی جارحیت کی کسی بھی معنی میں حمایت نہیں کرنی چاہئے۔ پاکستان نے بین الاقوامی تعلقات میں بھی رومانٹک اپروچ اختیار کر رکھی ہے۔ کسی دوست ملک کے ساتھ وجود میں آنے والی نئی نئی گرمجوشی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ پرانے دوستوں سے سرد مہری اختیار کر لیں۔ دارالحکومت سے دور پاکستان کا وزیر خارجہ عالمی منظرنامے سے لاعلم ہے جبکہ پاکستان کے وزیراعظم دوست ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی سفارتی و ڈپلومیٹک نزاکتوں سے بے نیاز اتوار کی شام کو میلسی کے عوامی جلسے میں یورپی یونین اور امریکہ کے رویوں کونشانۂ تنقید بنا رہے تھے۔ خارجہ پالیسی بیانات جلسوں میں نہیں سفارتی زبان اور مناسب فورمز سے دیئے جاتے ہیں۔
جارحیت امریکہ کرے یا روس یا کوئی اور ملک، پاکستان کا اصولی موقف یہ ہونا چاہئے کہ وہ کسی خود مختار ملک کی خود مختاری پر ہونے والے حملے پر برملا اظہارِ ناپسندیدگی کرے اور جارح ملک کو قائل کرے کہ وہ حملہ روک دے۔ پاکستان کو اپنے قریبی دوست چین کی خارجہ پالیسی سے ایک دو سبق ضرور سیکھنے کی ضرورت ہے۔ چین نے جہاں نیٹو کا دائرہ اثر پھیلانے پر امریکہ پر تنقید کی ہے وہاں اُس نے روس کو بھی متنبہ کیا ہے کہ اُسے کیف پرطاقت کے بل بوتے پر قبضہ کرنے کا حق نہیں۔ پاکستان کو بھی امریکہ پر تنقید کے ساتھ ساتھ روسی جارحیت کی مذمت کرنی چاہئے تھی۔ یوکرین کے موضوع پر میں اپنے گزشتہ کالم میں اس بات کا ذکر کر چکا ہوں کہ روس کو یہ خدشہ لاحق تھاکہ امریکہ نیٹو کا دائرہ یوکرین تک پھیلا کر روس کے دروازے تک اپنی فوجیں لے آئے گا‘ اور روس نے یوکرین پر جارحیت کے لیے اسی عذر کا سہارا لیا ہے۔
یہ وہ اہم وقت تھا اور پاکستانی وزیر خارجہ کو شب و روز اسلام آباد میں موجود رہ کر عالمی خدشات دور کرنے چاہئیں تھے کہ ہمارا دورہ روس بہت پہلے کا طے شدہ تھا۔ نیز یہ دورہ خالصتاً تجارت کے فروغ اور ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے تھا۔ اس کے علاوہ 22 کروڑ کی آبادی والی ایٹمی قوت کو جارحیت کے حوالے سے ایک واضح اصولی موقف اختیار کرلینا چاہئے تھا تاکہ عالمی سطح پر ہمارے بارے میں کوئی کنفیوژن پیدا نہ ہوتا۔ ہمیں یہ بھی ادراک ہونا چاہئے کہ ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد تمام ممالک سے دوستی پر استوار ہے۔ ہمیں خارجہ معاملات میں اپنے اصولوں کی پاسداری اور بیرونی تعلقات میں اپنے مفادات سے جڑے تقاضوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ امریکہ کے ساتھ ہمارے 74 برس پر پھیلے ہوئے تعلقات عسکری، اقتصادی، تعلیمی اور وہاں آباد لاکھوں خوشحال پاکستانیوں کے مستقبل سے مربوط ہیں۔ برطانیہ کی دولت مشترکہ کا پاکستان ایک نہایت اہم رکن ہے جبکہ یورپ کے ساتھ ہمارے وسیع تر تجارتی تعلقات قائم ہیں۔ مجھے حیرت ہے اپنے خوش بیان وزیر اطلاعات پر‘ جو فرما رہے ہیں کہ عنقریب پاکستانی وزیراعظم یورپ کا دورہ کریں گے۔ ان حالات میں یورپ کا دورہ کیسے ممکن ہوگا؟
ہمارے طلبہ و شہری یوکرین میں مبتلائے بلا ہیں۔ اس حوالے سے بھی ہر پل روس، یوکرین، پولینڈ وغیرہ کے ساتھ ہمارے وزیر خارجہ کے رابطے کی ضرورت تھی مگر انوکھا وزیر خارجہ سیاسی ریلیوں سے فراغت پائے تو عالمی منظرنامے میں پاکستان کی صورتحال پر توجہ دے۔ جب تک شاہ صاحب واپس اسلام آباد پہنچیں گے اس وقت تک نہ جانے پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved