طالبان کی طرف سے ڈیرہ اسمٰعیل خان جیل توڑنے کی اندرونی کہانیاں سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک ایسی نئی سنسنی خیز کہانی پڑھ کر مجھے آج سے بیس برس قبل زکریا یونیورسٹی کے ابوبکر ہال میں رات گئے سرائیکی کے ایک بڑے دانشور استاد نظامی اور اپنے دوست شفیق لغاری کے درمیان ہونے والا ایک دھواں دھار مباحثہ یاد آگیا۔ اس مباحثے کی داستان کچھ دیر بعد‘ پہلے آپ یہ پڑھ لیں کہ طالبان نے یہ کام کیسے کیا۔ رپورٹ کے مطابق ڈیرہ اسمٰعیل خان جیل پرحملے کی تیاریاں تین ماہ پہلے مکمل ہوگئی تھیں اور اس کام کا بیڑا طالبان کے ایک اہم لیڈر عدنان رشید نے جو ائرفورس میں ملازم تھا‘ اٹھایا ہوا تھا۔ اس سے پہلے عدنان کو گرفتار کر کے بنوں جیل میں رکھا گیا تھا جسے گزشتہ برس اپریل میں جیل توڑ کر چھڑایا گیا۔ بعد میں اُس نے منصوبہ بنایا کہ وہ ڈیرہ جیل میں قید اپنے ساتھیوں کو چھڑائے گا تاکہ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں پر حملے کیے جا سکیں۔ اس مقصد کے لیے پہلے دس افراد پر مشتمل ٹیم ڈیرہ شہر بھیجی گئی جس کا کام یہ تھا کہ وہ جیل کے ملازمین کے ساتھ دوستی بنائیں اور ان سے اندر کے حالات معلوم کریں کہ کتنے گارڈز اور سپاہی ڈیوٹی پر ہیں اور ان سب کی کیا کمزوریاں ہیں اور کیسے وہ اس کام میں مدد کر سکتے ہیں ۔ دھیرے دھیرے ان ملازمین کے اندر اسلام اور طالبان کی محبت جگانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا اور اپنے اسلامی بھائیوں کو اس بات پر قائل کیا گیا کہ اس سے زیادہ کوئی نیک کام نہیں ہوسکتا کہ جیل میں قید لوگوں کو رہا کرایا جائے تاکہ بڑے شہروں پر حملے کیے جاسکیں۔ طالبان کو اس بات کا احساس تھا کہ جیل ملازمین کی مدد کے بغیر وہ اتنی بڑی کارروائی نہیں کر سکیں گے۔ جس رات جیل پر حملے کا منصوبہ تھا، اس رات اس دس رکنی ٹیم نے اٹھارہ لوگوں کو جیل میں پہنچایا تاکہ وہ حملہ کر سکیں۔ ان اٹھارہ حملہ آور ٹیم کا کام یہ تھا کہ وہ اپنے لوگوں کو ڈھونڈیں کہ کہاں قید ہیں‘ پھر انہیں بیرکس سے باہر نکالا جائے اور اسے دوسرے گروپ کے حوالے کیا جائے جن کی تعداد چالیس کے قریب تھی۔ ان چالیس مسلح افراد میں سے بیس نے اس وقت تک جیل کے اندر رہنا تھا جب تک تمام قیدی باہر نہیں نکل جاتے۔ ان کے علاوہ پچیس حملہ آور ایسے بھی تھے جن کے ذمے ان قیدیوں کو گاڑیوں پر بٹھا کر لے جانا تھا۔ ان کے علاوہ پچیس مزید طالبان کو جیل سے باہر رکھا گیا تاکہ وہ ان لوگوں کی حفاظت کے لیے باہر رہیں اور کسی مزاحمت کی شکل میں وہ سکیورٹی فورسز کو گولی سے جواب دے سکیں۔ ان پچیس افراد کو جیل سے ذرا فاصلے پر تعینات کیا گیا تھا ۔ جیل کے اندر اور باہر طالبان کا ایک دوسرے کے ساتھ موبائل فون پر رابطہ بھی تھا۔ (ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جیل کے اندر موبائل جیمرز لگے ہوتے ہیں) ۔ اس پوری کارروائی میں ان کے دو کمانڈر ہلاک ہوئے۔ جن قیدیوں کو رہا کرایا گیا ان میں حاجی الیاس، عبداللہ حکیم، قاری عباس اور احمد باجوڑی بھی شامل تھے۔ انہوں نے مجموعی طور پر اپنے 45 ساتھیوں کو رہا کرایا۔ طالبان نے اس حملے کے بعد جاری کی گئی تفصیلات میں کہا کہ ان کے لیے اپنا ایک ایک ممبر انتہائی اہم ہے لیکن جن لوگوں کو رہا کرایا گیا وہ تحریک کے لیے بہت اہم تھے۔ ان لوگوں کو خصوصی طور پر بڑے شہروں پر حملوں کے لیے تربیت دی گئی ہے۔ لہٰذا ان کو آزاد کرانا بہت اہم تھا۔ تمام قیدی رہائی کے بعد اپنے محفوظ ٹھکانوں پر پہنچ چکے ہیں اور علاقے کے دیگر کمانڈرز انہیں مبارک باد دینے کے لیے روزانہ آتے ہیں۔ طالبان کے بقول ان کی عید تو ہو چکی ہے اور اب وہ دوسری عید منائیں گے۔ یوں رمضان کے مہینے میں ان کی دو عیدیں ہوگئی ہیں۔ ان سب کے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ 250 قیدیوں کو چھڑا کر لے گئے اور وہ سب اپنے ٹھکانوں پر پہنچ گئے ہیں۔ انہیں اس معرکے میں اتنی بڑی کامیابی کی توقع نہ تھی کہ بغیر کوئی نقصان اٹھائے وہ جیل توڑ کر اپنے ساتھیوں کو چھڑا کر لے جائیں گے۔ لہٰذا وہ سب اس بات پر زیادہ خوش ہیں وگرنہ انہیں خطرہ تھا کہ اس حملے میں ان کا اپنا بھی بھاری جانی نقصان ہوسکتا ہے۔ طالبان کہتے ہیں کہ بنوں جیل کی طرح انہوں نے ڈیرہ جیل پر حملے کی بھی ویڈیو بنائی ہے جو عوام کی پرزورفرمائش پر جلد ریلیز کر دی جائے گی۔ یہ کہانی پڑھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ بیس برس قبل ایک دن سرائیکی دانشور استاد نظامی تونسہ شریف سے ہماری بہاء الدین زکریا یونیورسٹی تشریف لے آئے اور ہم سب دوست انہیں ابوبکر اور عمر ہال کے درمیان ایک کینٹین پر لے کر گئے۔ وہ اپنے سامنے بیٹھے ہر شخص کو اپنے سے کم عقل اور خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور جب گفتگو ختم کر چکے ہوتے ہیں تو سب کو احساس ہوتا ہے کہ وہ واقعی ہمیں بجا طور پر جاہل سمجھتے ہیں۔ استاد نظامی کی پورے سرائیکی خطے میں اس لیے عزت کی جاتی ہے کہ ان کے سیاست پر کیے گئے تبصرے ہمیشہ درست ثابت ہوتے ہیں اور وہ جس انداز سے اپنے سامنے مجمع کو ذلیل کر کے اپنا موقف پہنچانے کی قوت رکھتے ہیں وہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی ۔ اس لیے جارحانہ گفتگو کے دوران انہیں ٹوکنا ایک جرم سے کم نہیں ہوتا جس کی زبانی سزا وہ ملزم کو سرعام موقع پر ہی سنا دیتے ہیں کیونکہ وہ سپیڈی جسٹس پر یقین رکھتے ہیں۔ یوں جب استاد نظامی اپنی خطابت کے جوبن پر تھے تو شفیق لغاری جو اپنے آپ کو کم قابل نہیں سمجھتے تھے‘ زیادہ دیر تک ان کی دانشوری کے مظاہرے کو برداشت نہ کر سکے اور استاد نظامی کو ٹوک دیا۔ استاد نظامی حسب عادت ناراض ہوئے، کچھ چڑچڑے ہوئے اور کچھ گالیاں دیں۔ ہم نے شفیق لغاری کو اشاروں سے سمجھانے کی کوشش کی کہ استاد نظامی کی شان میں گستاخی سے باز رہے لیکن وہ بھی اسی دھرتی سے تھا جہاں سے استاد نظامی آیا تھا۔ لہٰذا دونوں میں شدید بحث چھڑ گئی۔ آخر میں جب شفیق لغاری نے محسوس کیا کہ وہ استاد نظامی سے بحث ہار رہا ہے تو اس نے پینترہ بدلا اور معصومیت سے کہا‘ استاد نظامی تم دانشور نہیں ہو ، ہم جاہل ہیں۔ اگر ہم نے بھی کچھ پڑھ لیا ہوتا اور تمہاری طرح کچھ بڑے سیاسی لوگوں کے ساتھ جیل میںرہے ہوتے، تو آج یہاں بیٹھے تمہارے یہ بوریت سے بھرپور طویل بھاشن نہ سن رہے ہوتے۔ یہ سُن کر مجمع کو سانپ سب سونگھ گیا لیکن استاد نظامی نے سنی ان سنی کر کے لیکچر جاری رکھا ۔ شفیق لغاری کی بات برسوں سے میرے ذہن میں ہے‘ کوئی آپ سے زیادہ ذہین اور سمجھدار نہیں ہوتا‘ فرق اتنا ہے کہ اس نے کچھ وقت نکال کر آپ سے کچھ زیادہ پڑھ یا زندگی سے کچھ سیکھ لیا ہوتا ہے۔ اگر آپ بھی چند کتابیں پڑھ لیں تو شاید آپ بھی دانشور کہلائیں۔ طالبان کی یہ طویل کہانی کہ انہوں نے کیسے ڈیرہ جیل کو طویل منصوبے اور ذہانت سے توڑا اور ہماری سکیورٹی فورسز اور ریاست کو شکست دی‘ کا اخلاقی سبق یہ نکلتا ہے کہ وہ غیرمعمولی ذہین اور بہادر نہیں ہیں بلکہ ہمارے سیاستدان، جیل کے محافظ اور دوسری متعلقہ فورسز نااہل ہیں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved