تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     08-03-2022

عدم اعتماد کی تپش؟

مشاہدے کی دلیل الگ ہوتی ہے اور عقل کی منطق الگ۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بطور قوم حد درجہ جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ ہم اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر رائے قائم کرتے اور پھر اس سے چمٹے رہتے ہیں‘ عقلی استدلال کو اہمیت نہیں دیتے۔ اگر ہم پہلے دن سے ذاتی مشاہدے پر رائے بنانے کے اسیر نہ ہوئے ہوتے اور عوام میں عقل کی کوکھ سے نکلی ہوئی دلیل کو عمل کا پیرہن پہنانے کی صلاحیت جنم لے لیتی تو آج ہمارا مقتدر طبقہ ایسا نہ ہوتا۔ ''مقدمہ ابن خلدون‘‘ میں حکمرانوں کی جوصفات بیان کی گئی ہیں‘ سات صدیوں بعد بھی ہمارے حکمران وہاں تک نہیں پہنچے۔ جدت نے اس طبقے کو اور بے نقاب کر دیا ہے۔ جیسے جیسے وقت کروٹ بدل رہا ہے‘ اشرافیہ کے چہرے سے پرتیں اتر رہی ہیں۔ کھوٹ الگ ہو رہا ہے اور کھرا الگ۔ ڈھونڈنے والوں کے لیے درجنوں راستے ہیں اور عقل والوں کے لیے ہزاروں نشانیاں۔ کاش! ہمارے عوام جذبات کی ناؤ سے اتر کر حقیقت کے سمندر کا سامنا کرنے کی جرأت کر سکیں۔ کاش! کھوکھلے نعروں کی دنیا میں عقل اور دلیل کی حکمرانی قائم ہو جائے۔کا ش! سات دہائیوں کی رائیگانی کسی کام آ جائے۔
ان دنوں ملکی سیاست میں سرکس کا سا سماں ہے۔ ہر گلی‘ کوچے میں سیاسی جادوگری اور کرشمات کی بازگشت ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ بیس سے پچیس حکومتی ایم این ایز اقتدار کے ایوانوں سے منہ پھیرنے کو بیتاب ہیں۔ دوسری طرف وزرا فرمان جاری کرتے ہیں کہ اپوزیشن کے پندرہ ارکان تحریک عدم اعتماد والے دن غائب ہو جائیں گے۔ حکومت کے اتحادی بھی اپنا اپنا بھاؤ بڑھا رہے ہیں۔ اکیلی قاف لیگ ہی نہیں‘ ایم کیو ایم بھی کسی نئی ڈیل کی آرزو مند دکھائی دیتی ہے۔ دونوں نے اپنے اپنے ''مطالبات‘‘ اپوزیشن اورحکومت کو بتا دیے ہیں، اب جو چاہے‘ انہیں ساتھ ملا لے۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا قاف لیگ کے حصے میں کیا آیا اور ایم کیو ایم کی جھولی میں کیا گرا؟ اپوزیشن انہیں کیا دے کر ساتھ ملائے گی اور حکومت انہیں کیا سونپ کر اپنا وفادار بنائے رکھے گی؟ یقین مانیں‘ سیاست کی منڈی کا یہ روپ دیکھ کر احساسِ ندامت دوچند ہو جاتا ہے اور سر خودبخود جھکنے لگتا ہے۔ یہ کیسے لوگ ہیں؟ ان کا کوئی معیار‘ کوئی اصول‘ کوئی ضابطہ ہے؟ آج کسی کے ساتھ اور کل کسی اور کے ہم قدم؟ کیا سیاست اسی کا نام ہے؟ کیا سیاست دان الیکشن جیتنے کے لیے وفاداری اور اخلاقیات کا گلا تک گھونٹ دینے کو درست مانتے ہیں؟ کیا سیاست کی کوئی عزتِ نفس نہیں ہوتی کہ ہر چند سال کے بعد اسے رسوا کیا جاتا ہے؟ نجانے پارٹیاں بدلنے والے سیاست دانوں کا ضمیر کیسا ہوتا ہے جو انہیں غلط کام کرنے سے روکتا ہے نہ سیدھی راہ دکھاتا ہے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں ہی وقت کی نزاکت کو نہیں بھانپ رہیں۔ ساری دنیا جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے اور ہمارے وزیر خارجہ سمیت کابینہ سندھ سرکار کا تختہ الٹنے کی مہم پر ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد ایک بار پھر امن اور عوام کی جان کے درپے ہو چکے ہیں مگر اپوزیشن اور حکومت‘ دونوں اپنے سیاسی فائدے کے لیے عوام کو جلسے جلوسوں میں آنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ کیا انہیں ادراک ہے کہ جمعہ کے روز پشاو ر میں کیا ہوا تھا؟ سیاست دانوں کو عوام کی زندگیاں زیادہ عزیز ہیں یا اپنے سیاسی مفادات؟ ہماری بدقسمتی ملاحظہ کریں کہ اس قوم نے گزرے چوہتر سالوں میں اجتماعی طور پر جتنے بھی خواب دیکھے‘ ان میں سے کوئی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ ایوب خان کی ترقی کا نعرہ کھوکھلا بھی تھا اور وقتی بھی۔ ایک عرصے کے بعد ایوب خان کی ترقی بھی پانی میں بہہ گئی اور ذوالفقار علی بھٹو کا روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بھی ایسا ہی تھا۔ نہ تو جنرل ضیاء الحق کی قدامت پسندی راس آ سکی اور نہ ہی میاں نواز شریف کی انقلابی سوچ۔ پرویز مشرف کی روشن خیالی نے بھی ہمیں ڈبونے کی بھرپور کوشش کی اور اب یوں گمان ہوتا ہے کہ عمران خان کی تبدیلی بھی عوام کو کچھ نہیں دے سکے گی۔ موجودہ حکومت کو قائم ہوئے ساڑھے تین سال سے زائد ہو چلے ہیں مگر مجال ہے کہ عوام نے ایک دن کے لیے بھی سکھ کا سانس لیا ہو۔ حکومت اپوزیشن کے ساتھ گتھم گتھا رہی۔ الزام تراشیوں کے ساتھ گرفتاریاں بھی ہوئیں مگر نکلا کچھ بھی نہیں۔ اس عرصے میں معیشت پاتال میں گرتی رہی، بدانتظامی کے راج کو دوام ملتا رہا اور مہنگائی کا عفریت پیر پھیلاتا رہا مگر حکومت اپنی چال چلتی رہی۔ وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ عوام پہلے بھی نقصان میں تھے اور اب بھی ہیں۔ عوام کے لیے تو کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ نیا پاکستان بھی پرانے پاکستان جیسا ہی ہے؛ سکینڈل زدہ اور عوام میں غیر مقبول۔ پرانے پاکستان کے زعما بھی جوشِ خطابت میں توازن کھو دیتے تھے اور نئے پاکستان کے لیڈران بھی انہی کی ڈگر پر ہیں۔
مجھے سب سے زیادہ حیرت وزیراعظم صاحب کی میلسی جلسے میں کی گئی تقریر سن کر ہوئی۔ انہوں نے میاں نوازشریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن اور میاں شہباز شریف کے بارے میں اپنے جن خیالات کا اظہار کیا‘ وہ میرے لیے نہ صرف ناقابلِ یقین بلکہ ناقابلِ بیان بھی ہیں۔ ان کا لب و لہجہ آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔ وہ خاصے غصے میں تھے اور جذباتی بھی۔ سیاسی مخالفین پر الزام تراشی تو سبھی کرتے ہیں مگر بطور سربراہِ حکومت اتنا غصہ کون کرتا ہے ؟ ممکن ہے کہ اپوزیشن کی صفوں میں قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے موجود ہوں‘ یہ بھی ممکن ہے کہ عوامی فلاح کے لیے انہوں نے کچھ بھی نہ کیا ہو مگر الزام اس وقت تک الزام ہی رہتا ہے جب تک ثابت نہ ہو جائے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کرپشن کو روکنے والے ادارے کیا کر رہے ہیں‘ وہ پانچ سالوں میں سچ اور جھوٹ کو الگ الگ کیوں نہیں کر سکے؟ اگر یہ ادارے ثبوت مہیا کر پاتے تو وزیراعظم صاحب کو گیدڑ،جھوٹا، چور اور ڈاکو جیسے الفاظ کا سہارا لینا نہ پڑتا۔ تقریر کے آخر میں تو یہ تک کہا کہ ''تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے پر ان کے ساتھ جو سلوک کروں گا اس کے لیے وہ تیار ہو جائیں‘‘۔ عوام خود فیصلہ کریں کہ حکومت تحریک عدم اعتماد کی تپش محسوس کر رہی ہے یا نہیں؟ حکومت نے جس طرح عجلت میں جنوبی پنجاب کے لیے پانچ سو ارب روپے اور الگ صوبہ بنانے کے لیے اسمبلی میں قرارداد لانے کا اعلان کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے اور یہ کالا حکومت کو صاف دکھائی دے رہا ہے۔ اسی لیے تو حکومت ایک کے بعد ایک اعلان کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ علیحدہ صوبہ بنانے کے لیے حکومت کے پاس دوتہائی اکثر یت نہیں ہے تو اس وقت یہ اعلان کیوں کیا گیا؟ اگر صوبہ بنانا حکومت کا مقصد اول تھا تو ساڑھے تین سال اس طرف توجہ کیوں نہیں دی گئی؟ یہی نہیں‘ تقریر میں جس طرح ڈرون حملوں کے معاملے پر امریکا کو آڑے ہاتھوں لیا گیا اور یورپی یونین کے سفیروں کے خط کا جواب جس انداز اور لہجے میں دیا گیا اس سے بھی حالات کے دگرگوں ہونے کا پتا چلتا ہے۔ وزیراعظم صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکا کے ساتھ ہمارے معاشی مفادات وابستہ ہیں‘ انہیں یہ بھی علم ہو گا کہ یورپ میں ہماری برآمدات کا حجم کیا ہے۔ میرے خیال میں کوئی بھی حکومتی عہدیدار ان ممالک کو اتنا سخت ردعمل نہیں دے سکتا‘ جلسۂ عام میں تو ہرگز نہیں۔ سفارتکاری کی زبان اور جلسے کی شعلہ بیانی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ دونوں کو ایک ترازو میں نہیں تولا جا سکتا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ یہ وہ عقدہ ہے جو چند روز بعد ہی کھل پائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved