طاقت کے کھیل میں تان ٹوٹتی ہے کمزور پر۔ ہر عہد کی یہی کہانی ہے۔ جب بھی چند ریاستیں انتہائی طاقتور ہو جاتی ہیں تب دنیا ڈانواں ڈول ہونے لگتی ہے۔ جنہیں یقین ہو جائے کہ اُن کی راہ میں فوری طور پر کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی جاسکے گی وہ اپنے آپ کو منوانے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ طاقت کا مظاہرہ کرنے کی ذہنیت بہت عجیب اور سفّاک و سنگین ہوتی ہے۔ طاقت اپنے سامنے کسی کو دیکھنا گوارا نہیں کرتی۔ طاقت کے مظاہرے کا نشہ جب دماغ پر چڑھ جائے تو انسان کچھ نہیں دیکھتا۔ اپنی طاقت کی حدود بھی نہیں یاد نہیں رکھتا۔ یہی معاملہ ریاستوں کا بھی ہوتا ہے۔ وہ جب کمزوروں پر اپنا ''حق‘‘ جتانے کی ٹھانتی ہیں تو یہ بھول جاتی ہیں کہ اُن کی طاقت کی بہرحال ایک حد ہے اور اس حد کو یاد رکھنا بھی لازم ہے۔
چار پانچ صدیوں کے دوران چشمِ فلک نے روئے ارض پر طاقت کے بہت سے تماشے دیکھے ہیں۔ طاقت کا ہر تماشا روئے ارض پر زندگی کے آخری دنوں جیسا لگتا ہے۔ قدم قدم پر محسوس ہونے لگتا ہے کہ اب دنیا ختم ہونے والی ہے۔ فطری علوم و فنون میں پیشرفت یقینی بنانے کا جو عمل یورپ کی نشاۃِثانیہ کے بعد دوبارہ شروع ہوا تھا وہ اب اُس موڑ پر پہنچ چکا ہے جس کے بعد صرف زوال ہے۔ انسان کو اُس کی اپنی ترقی نگل رہی ہے۔ ترقی اور خوش حالی کا چولی دامن کا ساتھ ہے مگر آج کے انسان نے طے کرلیا ہے کہ ترقی کے بطن سے اور کچھ نکلے نہ نکلے‘ خوش حال نہیں نکلنی چاہیے۔
مغرب نے دو صدیوں کے دوران حیرت انگیز انداز سے ترقی کی۔ اس کے نتیجے میں دہریت بھی پیدا ہوئی۔ مغرب کا انسان مادّی ترقی ہی کو سب کچھ سمجھتے ہوئے اِس کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہے۔ وہ اِس سے آگے دیکھ ہی نہیں رہا۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ مادّی ترقی ممکن بنالینے کے بعد مزید کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں؟ زندگی کو آسان بنانا ہر عہد کے انسان کا ایک بنیادی مشغلہ اور فریضہ رہا ہے مگر یہ کیا کہ زندگی جتنی آسان ہوتی جاتی ہے اُتنی ہی مشکل ہوتی جاتی ہے۔ مغرب نے مادّی ترقی یقینی بنانے کے سفر میں کہیں روحانی ارتقا کی سرائے میں رین بسیرا نہیں کیا۔ اُس نے یہ سوچ لیا کہ جو کچھ ہے وہ یہی دنیا ہے۔ مادّے کی تسخیر نے مغرب کے اذہان و قلوب کو بھی مسخر کرلیا۔ دنیا میں گزارے جانے والے ایام ہی کو حتمی زندگی سمجھنے کا رجحان پیدا ہوا تو مادّے کی غلامی انتہا کو پہنچی۔ مغرب کے عام آدمی کو یہ محسوس ہونے لگا کہ زندگی تو وہی ہے جو وہ گزار رہا ہے۔ باقی دنیا تو جینے کا محض تماشا لگائے ہوئے ہے۔ اس سوچ نے اُس عجیب قسم کا احساسِ برتری سے سرشار کر دیا۔ اُس نے یہ سمجھنا شروع کردیا کہ دنیا صرف اُس کے لیے ہے۔ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جانے والوں کے بارے میں یہ سمجھا جانے لگا کہ اُنہیں تو زندہ رہنے کا حق بھی حاصل نہیں!
دوسروں کو حقیر سمجھنے کی سوچ نے مغرب کو باقی دنیا سے جینے کا حق چھین لینے پر اُکسایا۔ تمام چھوٹے اور کمزور ممالک پر متوازن، مستحکم اور پُرآسائش زندگی کے دورازے بند کردینا اُن سے جینے کا حق چھین لینے ہی کے مترادف ہے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر ایک ایسی دنیا بسائی جس میں کمزوروں کے پنپنے کی گنجائش برائے نام تھی۔ امریکا اور یورپ نے مل کر کئی خطوں کو صدیوں تک زیرِ نگیں رکھا، اُن پر ڈھنگ سے جینے کے دروازے بند رکھے اور اُنہیں اگر کچھ دیا بھی تو یہ جتاتے ہوئے کہ وہ اِس کے حق دار نہیں‘ یہ محض دینے والوں کا احسان ہے۔ مغرب نے مادّی ترقی کے عمل میں اپنے سے ہٹ کر سب کو کمتر سمجھنے کی جو ذہنیت اپنائی اُسی نے وہ تمام مسائل پیدا کیے جن کا آج پوری دنیا کو سامنا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی عہد کا خطرناک ترین موڑ وہ ہوتا ہے جب چند ریاستیں انتہائی طاقتور ہو جائیں اور تمام اخلاقی و روحانی حدود و قیود کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے من مانی کرتی پھریں۔ امریکا اور یورپ کا یہی معاملہ رہا۔ بیسویں صدی کے دوران اِن دونوں خطوں نے مل کر ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا میں کئی خطوں یعنی درجنوں ممالک کو انتہائی درجے کی پریشانیوں سے دوچار رکھا۔ دُنیا بھر کے قدرتی وسائل کو مالِ مفت دلِ بے رحم کے اصول کی بنیاد پر ہڑپ کیا گیا۔ دو عالمگیر جنگوں کے نتیجے میں امریکا اور یورپ یوں ابھرے کہ اپنے مرضی کے مطابق کچھ بھی کر گزرنے کی ذہنیت کو پروان چڑھاتے گئے اور ایک عشرہ پہلے تک یکسر بے لگام رہے۔
جب بڑی طاقتوں کو کسی حد تک حدود میں رکھنے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہ ہو تو معاملات اِسی طور خرابی کی نذر ہوتے رہتے ہیں۔ امریکا اور یورپ نے ایسا بندوبست بھی یقینی بنایا کہ اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرتے رہیں۔ کوئی بھی عالمی نظام اصلاً اس لیے ہوتا ہے کہ چند ریاستیں مل کر باقی دنیا کو ہڑپ کرنے کا نہ سوچیں۔ امریکا اور یورپ نے سات عشروں کے دوران جو کچھ کیا‘ اُس کا حساب طلب کرنے والا کوئی نہیں۔ ان دو خطوں نے مل کر باقی دنیا کو مطیع و فرمانبردار بنائے رکھنے کی خاطر درجنوں ریاستوں کو شدید نوعیت کی سیاسی و معاشی خرابیوں سے دوچار رکھا۔ اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرکے کمزور ممالک کو مزید کمزور اور اُن کے عوام کو مزید بدحال کرنا امریکا اور یورپ کا ایجنڈا رہا ہے۔ پوری انسانیت کے لیے انتہائی خطرناک امر یہ رہا کہ کم و بیش سات عشروں تک اِن دونوں غاصب خطوں کو ٹوکنے اور روکنے والا کوئی نہ تھا۔ بڑی طاقتوں کو اُن کی حدود یاد دلانے والا نظام آج کی دنیا کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک کوئی ایسا نظام سامنے نہیں آئے گا تب تک کمزور ریاستوں کی خوش حالی، سلامتی اور سالمیت داؤ پر لگتی رہے گی۔ آج چین، روس اور چند دوسری ریاستیں بھی ابھر رہی ہیں۔ اِن کے ابھرنے سے امریکا اور یورپ پریشان ہیں۔ اِن کے درمیان ٹکراؤ بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جارہا۔ بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کی یہ رائے تیزی سے گردش کر رہی ہے کہ بڑی طاقتیں ٹکراؤ سے گریز کریں گی کیونکہ ہتھیار اتنے خطرناک ہیں کہ استعمال ہوئے تو کچھ بھی نہ بچے گا۔ تو کیا کمزور ریاستوں کا نصیب نہیں بدلے گا؟ بڑی طاقتوں کے درمیان زور آزمائی کے لیے کیا اب بھی کمزور ریاستوں کو میدان بننا پڑے گا؟
وقت آگیا ہے کہ تمام بڑی اور ابھرتی ہوئی طاقتیں مل بیٹھ کر دنیا کو سلامت و خوش حال رکھنے کے بارے میں گفت و شنید کریں۔ امریکا اور یورپ نے کمزور خطوں کو آپس میں بانٹ لیا تھا۔ اب ایسا کچھ ہوا تو دنیا کے خاتمے کی منزل زیادہ دور نہیں رہے گی۔ امریکا اور یورپ کو چین، روس اور اُن کی ہم نوا علاقائی قوتوں سے جامع مذاکرات کرنے چاہئیں تاکہ عسکری مہم جُوئی کا رجحان ختم ہو اور ایک ایسی دنیا معرضِ وجود میں لائی جاسکے جس میں سب کے لیے کچھ نہ کچھ ہو اور کسی کو غلام نہ سمجھا جائے۔
مادّی ترقی اُس نہج پر پہنچ چکی ہے جہاں جنگ کا مطلب ہے مکمل تباہی۔ اب فُل سکیل جنگ کو کسی ایک ملک یا خطے تک محدود رکھنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اور اب تک کوئی ایسا جامع نظام بھی سامنے نہیں لایا جاسکا جو تمام ریاستوں پر اپنا تصرف قائم کرنے میں کامیاب ہو۔ اقوامِ متحدہ نے دنیا کو کس طور چلایا جائے وہ تو ہم نے دیکھ ہی لیا ہے۔ آج کی دنیا میں اقوامِ متحدہ جیسے ادارے کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ نئی دنیا ابھر رہی ہے۔ ایسے میں نیا عالمی سیٹ اَپ بھی آنا چاہیے۔ ایسا سیٹ اپ جس میں سب کچھ امریکا اور یورپ کی مرضی کا نہ ہو۔ ان دونوں خطوں نے تمام عالمی اداروں پر اجارہ داری قائم کرکے اپنی مرضی کے فیصلے کرائے ہیں اور اپنے مفادات کو خوب تحفظ فراہم کیا ہے۔
کسی بھی ریاست کو بے لگام ہونے سے روکنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کیا ہی جانا چاہیے۔ چین اور روس کا ابھرنا اِس اعتبار سے خطرناک ہے کہ اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کی آخری کوشش کے طور پر امریکا اور یورپ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ع
اب دیکھیے کیا حال ہمارا ہو سحر تک