(منظر: روم کے حکمران جولیس سیزر کو اس کا قریبی دوست بروٹس قتل کر چکا ہے۔ لوگوں کو جب یہ خبر ملتی ہے تو اکٹھے ہوکر اس قتل کی وجہ جاننا چاہتے ہیں۔ بروٹس روم کا مانا ہوا دانشور بھی ہے۔ وہ چبوترے پرکھڑے ہوکرتقریر کرتا ہے)
بروٹس: روم والو، ہموطنو، محبت کرنے والو میری بات سنو۔ خاموش ہوجاؤ۔ مجھے اپنی عزت کیلئے وہ بات کہنے دو، جسے سن کر تم فیصلہ کرسکو کہ مجھے ملامت کی جائے یا نہیں کیونکہ تمہی تو بہترین منصف ہو۔ اگر اس مجمعے میں کوئی سیزر کا دوست ہے تو سن لے کہ بروٹس کی سیزر کیلئے محبت اس کی محبت سے کسی طورکم نہیں۔ اگر وہ مجھ سے پوچھے کہ اس محبت کے باوجود میں سیزر کے خلاف کیوں اٹھا تو میرا جواب ہوگا کہ میری سیزر سے محبت کم نہیں، مگر اس محبت پرروم کی محبت غالب ہے۔ لوگو! کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ سیزر زندہ رہتا اورتم غلاموں کی موت مرجاتے یا بہتر یہ ہے کہ سیزر مرگیا اور اب تم آزاد ہو۔ سیزر مجھ سے محبت کرتا تھا، میں اس کیلئے روتا ہوں، اس کی کامیابیاں میری کامیابیاں ہیں اور میں ان پر میں خوشی مناتا ہوں، وہ بہادر تھا میں اس کی بہادری کی قدر کرتا ہوں‘ مگر وہ اقتدار کا لالچی بھی تھا، وہ آمر بننا چاہتا تھا، اس لیے میں نے اسے قتل کرڈالا۔ تم خود دیکھ لو، اس کی محبت میں میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں، اس کی کامیابیوں پر میں آج بھی خوش ہوں، اس کے دلیری کے لیے میرا احترام آج بھی قائم ہے، مگراس کی حرص اقتدار کا انجام موت کے سوا کچھ نہیں۔ اگر یہاں کوئی اتنا حقیر ہے کہ غلام رہنا چاہتا ہے تو ہاں میں اس کا مجرم ہوں۔ اگر کسی کو رومن ہونے سے انکار ہے تو میں اس کا مجرم ہوں، اگر کوئی اتنا کمینہ ہے کہ وطن سے محبت نہیں کرتا تو میں اس کا مجرم ہوں۔ اگر کوئی ہے تو بولو... اگر نہیں تو پھر میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ میں نے سیزر کے ساتھ اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا جو تم میرے ساتھ کرتے اگر میں سیزر جیسا ہوتا۔ یہ دیکھ لو مارک انٹونی سیزر کی لاش لے آیا۔ اسے قتل کرنے میں انٹونی کا کوئی ہاتھ نہیں مگر اس کا سب سے زیادہ فائدہ اسے ہوگا۔ اب یہ حکمران ہوگا جو تم نہیں بن سکتے۔ میں نے روم کے لیے اپنے عزیز ترین دوست کو مارڈالا۔ اگر روم کو ضرورت پڑی تومیں اسی تلوار سے اپنی گردن کاٹ ڈالوں گا جسے میں نے اپنے دوست کے سینے میں گھونپا تھا۔
(بروٹس کی تقریر سن کر لوگ اش اش کراٹھتے ہیں اور اسے نیا سیزر بنانے کا ارادہ کرتے ہیں۔ بروٹس عاجزی کے ساتھ مجمع چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور لوگوں کو انٹونی کی تقریر سننے کے لیے کہتا ہے۔ لوگ انٹونی کو تنبیہ کرتے ہیں کہ بروٹس کے خلاف کوئی بات نہ کرنا)
مارک انٹونی: دوستو، روم والو، ہم وطنو، میں تو سیزر کی تدفین کے لیے آیا ہوں، اس کی تعریف کے لیے نہیں۔ لوگ جو برائیاں کرتے ہیں وہ ان کے بعد بھی زندہ رہتی ہیں اور ان کے اچھے کام ان کے ساتھ ہی دفن ہوجاتے ہیں۔ سو سیزر نے جو کچھ کیا وہ اس کے ساتھ ہی گیا۔ تمہیں اچھے بروٹس نے بتایا ہے نا کہ سیزر اقتدار کا لالچی تھا۔ اگر ایسا تھا توپھر اس کا انجام بھی ٹھیک ہوا۔ بروٹس تو ایک عزت دار آدمی ہے اور سبھی عزت دار سیزر کی تدفین کے لیے آئے ہیں۔ میں تو بس یہ کہنے آیا ہوں کہ وہ میرا دوست تھا، میری حد تک وفادار بھی تھا‘ لیکن بروٹس کہتا ہے وہ آمر بننا چاہتا تھا اور بلاشبہ بروٹس ایک معزز آدمی ہے۔ لوگو، سیزرتو بہت سے رومی قیدیوں کو چھڑا کر واپس وطن لے آیا اور ان کا تاوان بھی خود ہی ادا کیا۔ کیا اس وجہ سے سیزر اقتدار کا حریص تھا؟ جب کوئی غریب روتا تو سیزر آہیں بھرا کرتا تھا۔ کیا اس کے رونے سے حرص ہوس کا ثبوت ملتا ہے؟ بروٹس کہتا ہے: سیزر اقتدارکا لالچی تھا اوربروٹس تو معزز آدمی ہے۔ مگر تم سب کے سامنے میں نے جولیس کو تین بار بادشاہت کا تاج پیش کیا مگر اس نے لینے سے انکار کردیا۔ کیا یہی تھی اس کی لالچ؟ بروٹس کہتا ہے کہ وہ لالچی تھا اور بے شک بروٹس تو ایک معزز آدمی ہے۔ میں بروٹس کی کسی بات کو جھٹلانا نہیں چاہتا۔ میں تو وہ بتا رہا ہوں جو میں جانتا ہوں۔ تم بھی ایک وقت میں سیزر سے محبت کیا کرتے تھے، جو بلا وجہ تو نہیں تھی۔ آخر آج کیا سبب ہے کہ تم سیزر کا ماتم نہیں کررہے؟
(لوگ انٹونی کی بات غور سے سننے لگتے ہیں)
انٹونی: میں تم لوگوں کو بغاوت پر آمادہ نہیں کررہا نہ بروٹس کو جھٹلا رہا ہوں کیونکہ بروٹس تو عزت دار آدمی ہے۔ جو بھی غلطی ہے وہ تو مرے ہوئے سیزر کی ہے، میری ہے، تمہاری ہے۔ مجھے تو بس اس کی وصیت کا پتا ہے جو میں تمہارے سامنے نہیں پڑھوں گا کیونکہ میں نے یہ وصیت پڑھ دی تو تم اس کی محبت میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ یہ وصیت اس عزت دار آدمی کو جھٹلائے گی جس کی تلوار نے سیزر کو موت بخشی۔ میں بروٹس جتنی اچھی تقریر نہیں کر سکتا، میں تو سادہ سا آدمی ہوں۔ بس میں تمہیں اس کی وصیت بتا دوں کے اس نے ہر شخص کیلئے پچھتر درہم چھوڑے ہیں۔ اپنی سیرگاہیں تمہارے نام کردی ہیں اور اپنا باغ بھی تمہیں دے دیا ہے کہ تم وہاں تفریح کے لیے جایا کرو۔
(لوگ رونے لگتے ہیں، بروٹس کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں اور اس کا گھر جلا دینے کا ارادہ کرتے ہیں۔ بروٹس‘ جو تھوڑی دیرپہلے ایک معزز آدمی سمجھا جاتا تھا‘ ایک غدار بن کر ابھرتا ہے)
یہ مکالمے اور منظر شیکسپیئر کے شاہکار ڈرامے 'جولیس سیزر‘ سے لیے گئے ہیں۔ دنیا کے ہربڑے ادب کی خوبی ہوتی ہے کہ یہ زمان و مکان کی پابندیوں سے آزاد ہوکردنیا کے ہر فرد کو اپنے ارد گرد کے حالات پر منطبق ہوتا نظر آتا ہے ۔ شیکسپیئرکا یہ ڈرامہ بھی دراصل وقت اور ماحول کی قید سے نکل کر سیاست کی دنیا میں خود کو دہراتا رہتا ہے۔ جہاں کہیں کسی حکمران کو سازش کے ذریعے نکالا جاتا ہے، وہ جولیس سیزر بن جاتا ہے اور اسے نکالنے والے بروٹس۔ ہر جولیس سیزرجو ایک وقت میں نااہل، نکما اور غدار دکھائی دیتا ہے کچھ عرصے بعد مدبر، باصلاحیت اور ہمدرد نظر آنے لگتا ہے۔ پھر نکالا جانے والا خود یا اس کے دوست آخرکار پھر سے اقتدار میں آجاتے ہیں۔ شیکسپیئر نے کہانی کے ذریعے جو کچھ لکھا وہ صدیوں سے حقیقت بن کر تاریخ کے ہرصفحے پرنمودار ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یہاں شیکسپیئر کا یہ شاہکار ڈرامہ ہر وقت کھیلا جارہا ہوتا ہے۔ اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شیکسپیئر قائداعظم کا پسندیدہ ادیب تھا اور قائداعظم کی محبت میں ہم اس کے ہر المیے کو سچ کرنے پر تلے رہتے ہیں۔
پاکستان میں کل کے جولیس سیزر ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف تھے، تو آج کا جولیس سیزر عمران خان ہے۔ اس سے پہلے ہر سیزر کو اس کے بچے مل گئے جو صلاحیتوں میں مارک انٹونی جیسے نہ سہی، پھر بھی گزارہ کرہی رہے ہیں۔ عمران خان کو مارک انٹونی شاید اپنے بچوں میں سے نہ ملے اور یہ کام بھی انہیں خود ہی کرنا پڑے۔ ہوسکتا ہے انہیں گلی گلی نکل کر بتانا پڑے کہ میرے دور میں مہنگائی تو ہوئی مگر صحت کارڈ بھی میں نے ہی دیا تھا۔ میری خارجہ پالیسی بہت اچھی نہ سہی دوستی کی غلامانہ شکل سے انکار بھی تو میں نے ہی کیا تھا۔ میں اچھی ٹیم نہیں بنا سکا مگر بلدیاتی نظام کے ذریعے نچلی ترین سطح پر لوگوں کو طاقتور بھی تو میں ہی بنا رہا تھا۔ میں احتساب کا عمل مکمل نہیں کرسکا مگر پاکستان کی تاریخ میں اپنے دوستوں کا احتساب کرنے والا میں اکیلا ہی تو ہوں۔ آج کا جولیس سیزر جب کل گلیوں میں مارا مارا پھرے گا تو شاید اسے کوئی مارک انٹونی بھی مل ہی جائے۔ شیکسپیئر کا المیہ بروٹس کی خود کشی پر ختم ہوگیا۔ ہمارا المیہ ابھی جاری ہے۔ یہاں مرتے صرف جولیس سیزر ہیں، بروٹس زندہ ہی رہتے ہیں۔ وہ قتل تو کرتے رہتے ہیں، خودکشی نہیں کرتے۔