عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ
مکافاتِ عمل کے سوا کچھ نہیں: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی، نواز لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ مکافاتِ عمل کے سوا کچھ نہیں‘‘ تاہم جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے، ہو رہا ہے اور ہونے والا ہے اسے مکافاتِ عمل نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس کے لیے مکافاتِ عمل شاید چھوٹا لفظ ہے، اگرچہ عمران خان کے ساتھ کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے کیونکہ بلاول بھٹو نے خود کہہ دیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا کامیاب ہونا یقینی بات نہیں ہے جبکہ اس سلسلے کی یہ امید بھی ختم ہو گئی کیونکہ علیم خاں نے بھی ترین گروپ میں شامل ہو کر کہہ دیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کو مضبوط اور متحد کر رہے ہیں اور ان کے تحفظات بھی دور کر دیے جائیں گے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ٹویٹر پر ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
اپوزیشن کے لیے بھاگنے کے
راستے بند ہو چکے ہیں: شہباز گل
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کے لیے بھاگنے کے راستے بند ہو چکے ہیں‘‘ تاہم ہمارے لیے یہ راستے کھلے ہیں، اگرچہ اپوزیشن نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ حکمرانوں کے نام ای سی ایل پر ڈالے جائیں لیکن صرف ہماری سہولت کی خاطر ایسا نہیں کیا گیا؛چنانچہ اب ہم بھاگیں یا آرام سے جائیں ہمارے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی جبکہ بھاگنا ویسے بھی صحت کے لیے انتہائی مفید ہے کہ اس سے آدمی چست و چالاک رہتاہے البتہ بھاگنے کا مزہ تو تب ہے جب کوئی آپ کے پیچھے بھاگ رہا ہو مثلاً پولیس وغیرہ البتہ کسی کو ایک پارٹی سے بھگا لے جانا انتہائی معیوب بات ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان کو لانے والے اب
ان کے ساتھ نہیں: رانا ثنا اللہ
سابق وزیر قانون پنجاب اور نواز لیگ کے اہم رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو لانے والے اب اُن کے ساتھ نہیں‘‘ اگرچہ وہ ہمارے ساتھ بھی نہیں ہیں حالانکہ انہیں یہ کہا بھی گیا تھا کہ اگر آپ ان کے ساتھ نہیں ہیں تو حسب سابق ہم پر ہی مہربانی فرما دیں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ اگر آپ لوگوں پر مہربانی کرنا ہوتی تو آپ کا ساتھ کیوں چھوڑتے جس سے ہمارا یہ شبہ پختہ ہو گیا ہے کہ وہ اندر خانے اب بھی عمران خان ہی کے ساتھ ہیں اس لیے ہم اپنی خاطر جمع رکھیں اور ان حالات میں تحریک عدم اعتماد کا کامیاب ہونا بھی انتہائی مشکوک ہو چکا ہے بہرحال جو کچھ بھی ہو گا آنے والوں کچھ دنوں میں ظاہر ہو جائے گا ۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان جیتا تو چھوڑے گا نہیں
ہارا تو گھر بیٹھے گا نہیں: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''عمران خان جیتا تو چھوڑے گا نہیں، ہارا تو گھر بیٹھے گا نہیں‘‘ کیونکہ ہارنے کی صورت میں گھر والے انہیں گھر میں بیٹھنے ہی کب دیں گے ، انہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ لال حویلی کے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں جہاں اُن کے لیے نان و نفقہ کا بندوبست بھی موجود ہو گا اور جہاں تک جیت کر نہ چھوڑنے والی بات ہے تو یہ ایک معمولی سی گیدڑ بھبکی ہے جو ہم نے اپوزیشن ہی سے سیکھی ہے کیونکہ ہم خود اورچیزوں کی طرح بھبکی دینا سیکھنے کے مرحلے میں ہیں، نیز ہماری کوشش یہ بھی ہے کہ اگر ان میں سے کسی کے پاس گیدڑ سنگھی ہو تو وہ بھی حاصل کر لی جائے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
عوامی مارچ کی طرح عدم اعتماد کی
تحریک بھی کامیاب ہوگی: شازیہ مری
پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے کہا ہے کہ ''عوامی مارچ کی طرح عدم اعتماد کی تحریک بھی کامیاب ہوگی‘‘ اگرچہ عوامی مارچ کی کامیابی تو یہ ہوتی کہ وزیراعظم مستعفی ہو کر گھر چلے جاتے جیسا کہ بلاول بھٹو ہر روز یہی کہا کرتے تھے تاہم کچھ حکومتی ارکان اسمبلی سے اب بھی اُمید ہے کہ وہ شاید تحریک کے حق میں ہی ووٹ دے جائیں کیونکہ آدمی کا ذہن بدل جانے کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہوتا اور یہ کام کسی وقت بھی ہو سکتا ہے کیونکہ انہونے واقعات بھی آنکھوں کے سامنے ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں، اس لیے ہم نے اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور تحریک عدم اعتماد کو کامیاب ہی سمجھتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں ڈاکٹر نبیل احمد کی غزل:
خود غرض دور میں رہنا دلِ سادہ رکھنا
اپنی اوقات سے کچھ بھی نہ زیادہ رکھنا
اپنے دامن سے لپٹتی ہوئی مٹی کی قسم
بڑا مشکل ہے یہاں صاف لبادہ رکھنا
وقت ہر حال میں ترمیم کئے جاتا ہے
خود کو اک حال میں اتنا نہ زیادہ رکھنا
یہ الگ بات کہ اظہار نہ ہونے پائے
ایسا کرنے کا بہرحال ارادہ رکھنا
عاجزی میں جو بلندی ہے بلندی ہی رہے
میرے مولا تو مجھے خاک نہادہ رکھنا
ایسا کر سکتی ہے اب خلعتِ شاہانہ بھی
شرطِ رسوائی نہیں چاک لبادہ رکھنا
نظر آئے گی یہاں وسعتِ عالم تم کو
گھر کا آنگن نہ سہی دل ہی کشادہ رکھنا
میں کسی اور ہی نشے میں رہا کرتا ہوں
میرے آگے نہ کبھی ساغر و بادہ رکھنا
آسماں رشک کرے جس کی بلندی پہ نبیل
قد و قامت کو کچھ اس طرح ستادہ رکھنا
آج کا مقطع
سحر ہوئی تو ظفر دیر تک دکھائی دیا
غروب ہوتی ہوئی رات کا کنارہ مجھے