تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     09-03-2022

ایک نیا فار لینڈ؟

اسلام آباد میں موجودسفارتی امور کے ماہرین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ موجودہ حکومت کے ساڑھے تین برس کے عرصے میں سٹریٹجک حیثیت رکھنے والے پاکستان کو امریکہ نے وہ اہمیت کیوں نہیں دی کہ یہاں باقاعدہ سفیر کی تعیناتی کی جاتی؟افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا جیسے انتہائی اہم مرحلے پر بھی ایسا نہیں کیا گیا‘مگر حالیہ دنوں امریکی سینیٹ نے ایک منجھے ہوئے سفارت کار کی پاکستان میں بطور سفیر تعیناتی کی توثیق کی ہے۔ڈونلڈ بلوم ایک کیرئیر ڈپلومیٹ ہیں اور وہ اس سے پہلے کابل‘ یروشلم‘ قاہرہ‘ بغداد اور کویت میں سفارتی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔گزشتہ سال دسمبر میں امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے امور خارجہ سے اپنی نامزدگی کی منظوری کے لیے منعقد ہونے والی سماعت سے خطاب میں ڈونلڈ بلوم نے کہا تھا کہ اگر ان کی منظوری ہوئی تو وہ'' پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ بلا امتیاز تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرے‘‘۔نئے امریکی سفیر نے امریکی سینیٹ میں سماعت کے دوران کہا تھا کہ وہ پاکستان سے معاشی رابطے بڑھانے کی کوشش بھی کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بطور سفیر منظوری حاصل ہونے پر پاکستان کے ساتھ منڈیوں تک رسائی میں مسائل‘ ڈیجیٹل معیشت کے ضوابط‘ املاک دانش کے تحفظ اور معاہدوں کے نفاذ جیسے معاملات پر بھی کام کریں گے۔ڈونلڈبلوم تیونس میں سفیر تعینات کئے جانے سے قبل تیونس ہی میں لیبیا کے بیرونی دفتر کے انچارج رہ چکے ہیں۔ وہ یروشلم میں امریکی قونصل جنرل اور واشنگٹن میں وزارت خارجہ کے دفتر میں جزیرہ نما عرب کے ڈیسک کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔وہ کابل میں امریکی سفارت خانے میں پولیٹیکل قونصلر کے فرائض بھی ادا کرتے رہے ہیں جبکہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ان کی تعیناتی بطور منسٹر قونصلر کے بھی رہی ہے۔
پاکستان میں نئے امریکی سفیر کی نامزدگی گزشتہ برس ایسے وقت میں ہوئی تھی جب افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ حکومت غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہوئے ڈھیر ہو چکی تھی جبکہ امریکی سینیٹ نے ان کی تعیناتی کی توثیق حالیہ دنوں جس وقت کی ہے وہ پاکستانی سیاست کے لیے بہت اہم ہونے جا رہا ہے۔ اپوزیشن کی جماعتوں کے چند ماہ قبل کے کوسنے اور گلے شکوے پیار محبت میں تبدیل ہو چکے ہیں اور وہ مل کر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا ڈول ڈال چکے ہیں۔ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرادی ہے۔تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی پارٹی اجلاس میں کیا گیا تھا۔لاہور اور اسلام آباد کی بیٹھکوں میں طویل عرصے سے عمران خا ن کو گھر بھیجنے کیلئے جاری صلاح مشورے اور اپویشن کے باہم شیر و شکر ہونے کے واقعات نے اچانک رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے اوریہ پیش رفت یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ ان کی پیٹھ ٹھونک کر عمران خان کی حکومت کی بے دخلی کا حکم صادر کیا جاچکا ہے۔اپوزیشن کو یہ اشارہ مل چکا ہے کہ ہمت کرو اور سب مل کر ایک ساتھ کھڑے ہو جائو کیونکہ تماشا شروع ہوا چاہتا ہے۔
مگر کسی کو بھٹو صاحب کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے پس منظر سے آگاہی نہیں ہے تو اسے جان لینا چاہئے کہ بھٹو صاحب کے گرد سب سے پہلے رفیع رضاجیسے مشیروں کا حصار بنایا گیا تھا جنہوں نے انہیں مشورہ دیا کہ ابھی اسمبلیاں توڑ کو انتخابات کرا دیں کیونکہ اپوزیشن تو بالکل ہی بکھری ہوئی نظر آ رہی ہے ‘اس میں کوئی دم خم نہیں اور ان میں سے نہ ہی کسی کے پاس آپ کا مقابلہ کرنے کی طاقت اور مقبولیت ہے‘ اس طرح آپ آسانی سے دو تہائی اکثریت حاصل کر کے کامیاب ہو جائیں گے ۔ ذہین و فطین بھٹو رفیع رضا جیسے مشیروں کے ہاتھوں مار کھا گئے کیونکہ ان تک یہ اطلاع پہنچنے ہی نہیں دی گئی کہ پاکستان قومی اتحاد (نو ستارے) کے نام سے مشترکہ اپوزیشن کا وجود خاصی بڑی طاقت پہلے ہی حاصل کر چکا تھا‘ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی ذوالفقار علی بھٹو نے اسمبلیاں توڑیں تو تیسرے دن لاہور شاد باغ کے ایک وسیع گھر میں پاکستان قومی اتحاداورا س کے عہدیداروں کا باقاعدہ اعلان ہو رہا تھا ۔
بظاہر خان صاحب کے خلاف بھی ایسا ہی کھیل رچانے کی تیاری کی جارہی ہے اور اس کے لیے شاطر دماغ اسلام آباد میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔بالکل ا سی طرح جیسے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کیلئے حکومتیں توڑنے اور سازشیں کرنے کے ماہر فارلینڈ کو پاکستان میں تعینات کیا گیا تھاجس کی نگرانی میں قومی اتحاد کی تحریک چلائی گئی۔ اس تحریک میں عالمی قوتوں کا کیا کردار رہا‘ اس سب کا چشم دید گواہ ہوں اور لاہور کے ایک ہوٹل میں کیا گل کھلائے جاتے رہے وہ بھی سب سنے اور دیکھے ہیں۔اس کمرے کا مکین ایک غیر ملکی طویل قامت شخص تھا جو قومی اتحاد کے کس کس مرکزی لیڈر سے ملتا تھا یہ سب جلد ہی اپنے ایک مضمون میں تحریر کرنے جا رہا ہوں کیونکہ یہ تاریخ کی امانت ہے جو اپنے ملک کی نئی نسل کے حوالے کرنا چاہوں گا۔
آج اگر عمران خان صاحب کے ساتھ مخلص میڈیا ٹیم ہوتی تو وہ ان دھمکیوں کو عوام کے سامنے لاتے جو عالمی طاقتوں نے دی تھیں۔اگر ایسا کیا جاتا تو تحریک انصاف اور اس کی قیادت کی مقبولیت انتہائی بلندیوں تک پہنچائی جا سکتی تھی جس کا وہ کبھی تصور کیا کرتے تھے کہ لوگ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ان کی حفاظت میں کھڑے ہو جائیں گے‘ لیکن کیا کیا جائے کہ خان صاحب کے گرد پہلے ہی گھیرا تنگ کیا جاچکا تھا اور اپنے لوگوں کا جال بچھا دیا گیا تھا‘مگریہ صرف خان صاحب کا امتحان نہیں بلکہ اس طبقے کا بھی امتحان ہے جو ایک مدت سے یہ تاثر دینے کی کوششوں میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے کہ خان صاحب نا اہل اور ناکام ہو چکے ہیں ۔ اگر نا اہلی ہے تو وزارت اطلاعات کی نااہلی ہے اور تحریک انصاف کی میڈیا ٹیم کی نااہلی ہے اور حکومت کے مشیروں کی فوج ظفر موج کی نا اہلی ہے کہ وہ عوام کو سچ بتانے میں خاصی حد تک ناکام ہو رہے ہیں‘ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ٹیم سوائے چند جگتوں اور اپنی رونمائی کے حکومتی کارکردگی کو سامنے لانا ہی نہیں چاہتی۔
عمران خان کی ٹیم میں سے مخلص لوگوں کو نکال باہر کرنے والے اور مخالفین کومنہ توڑ جواب دینے سے روکنے والے حکومت کی کارکردگی پر گرد بن کر بیٹھے گئے ہیں۔ انہوں نے ہر اس شخص کا راستہ روکے رکھا ہے جو ملک وقوم کیلئے نیک خواہشات کی حماقت کرتا رہا۔ اب تک یہی دیکھنے کو ملتا رہا کہ پاکستان نے بھارت کے سفیر یا کسی دوسرے سفارتی اہلکار کو اس کے ناپسندیدہ رویے کی وجہ سے ملک بدر کرنے کے احکامات جاری کئے لیکن اگر بھارت کے علا وہ کوئی دوسرا ملک چاہے وہ کسی بھی بڑے ملک سے تعلق رکھتا ہو‘اگر وہ پاکستان میں سازشوں کا مرتکب ہو تو ایسے عہدیدار کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے پاکستان سے نکل جانے کا حکم دینے میں کون سا امر مانع ہے؟کیا امریکہ‘ برطانیہ یا جرمنی اور فرانس وغیرہ میں کوئی سازش کرسکتا ہے؟ اگر کوئی کرے تو کیا یہ ممالک اسے برداشت کر یں گے؟برطانیہ اور امریکہ نے تو بہت سے ممالک کے سفارت کاروں کو فوری نکل جانے کے احکامات بھی جاری کئے ہیں۔یقینا ایسا کرنے والے ممالک ہم سے زیادہ اپنے قومی مفاد کو سمجھتے ہیں؟کاش ہم بھی ایسے ہوتے۔
عمران خان کے خلاف اچانک متحرک ہونے والوں میں ایک محمود خان اچکزئی بھی ہیں۔ اگر اچکزئی صاحب حکومت ختم کرنے کے لیے جوڑ توڑ پھر سے شروع کردیں تو پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ کھیل کس کے اشارے پر شروع کھیلاجا رہا ہے؟ اس کی آبیاری کون کر رہا ہے؟ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے ملک میں سیاسی انتشار کی یہ صورتحال سخت آزردگی کا باعث ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved